آجکل یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کیا مسلم لیگ ن ججوں کی بحالی کے ایشو پر عوام کیساتھ ڈرامہ تو نہیں کر رہی۔ پچھلے چند روز کے مسلم لیگ کے اقدامات سے تو یہ الزام سچا لگتا ہے۔ اسلیے کہ ایک طرف مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں برادران موجودہ پی سی او کے ججوں کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے ان کی عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے اور مسلم لیگ ن کا موقف تھا کہ پی سی او کے ججوں کر برطرف کرکے معزول ججوں کو بحال کیا جائے یعنی سپریم کورٹ کو دو نومبر والی حالت میں واپس لایا جائے۔ لیکن دوسری طرف اس ہفتے جب فنانس بل میں ججوں کی تعدار کو سترہ سے انتیس کر دیا گیا تو مسلم لیگ ن نے اس بل کی مخالفت نہیں کی اور یہ بل اسمبلی نے پاس کر دیا۔
یہ بات تو درست ہے کہ فنانس بل کو فنانس بل ہی رہنے دینا چاہیے تھا اور اس بل کی آڑ میں قانون میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں کرنی چاہیے تھی جو فنانس سے تعلق نہ رکھتی ہو۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے اقبال حیدر نے ٹی وی پر بتایا کہ جنرل مشرف نے بھی اپنے دور میں فنانس بل میں کئی آئینی ترامیم شامل کی تھیں۔ اب اگر موجودہ حکومت نے بھی جنرل مشرف کی سنت پر عمل کیا ہے تو پھر مارشل لا اور جمہوری حکومت میں کیا فرق رہ گیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے اگر مسلم لیگ ن اسمبلی میں فنانس بل کی حمایت نہ کرتی تو پیپلز پارٹي اسے پاس ہی نہیں کراسکتی تھی۔ اب جب بل پاس ہو چکا ہے تو مسلم لیگ ن نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ انہوں نے فنانس بل میں ججوں کی انتیس تعداد کرنے کی حمایت نہیں کی۔ خدا کے بندو اگر حمایت نہیں کی اور تم ججوں کی تعداد میں اضافے کے خلاف تھے تو پھر اس پر اسمبلی میں اعتراض کرتے۔ آپ ججوں کی تعداد بڑھانے کی شق کی مخالفت کرکے اسے فنانس بل سے نکلوانے کیلیے اسمبلی میں ترمیم پیش کر سکتے تھے۔ اگر آپ لوگوں نے ایسا نہیں کیا اور بل اس حکومت نے پاس کیا جس کا آپ حصہ ہیں تو پھر آپ کو اس سے انکاری نہیں ہونا چاہیے۔
کہتےہیں دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ راہ میں رہ جاتا ہے اسی طرح ہمیں خدشہ ہے مسلم لیگ ن کا ججوں کے ایشو پر دوغلا موقف ان کیلیے مصیبت نہ بن جائے۔ مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ وہ بھی آصف زرداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی ایشوز پر دو رائے نہ رکھے اور جس ایشو کی مخالفت کرے اس پر ڈٹ جائے۔ بعض اوقات آپ کا سچائی کے موقف پر سٹینڈ وقتی طور پر کم منافع بخش ہو تا ہے مگر آگے چل کر آپ کو ایک اصول پسند جماعت بنا دیتا ہے۔ لیکن لگتا ہے اب تمام سیاست دان مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے وہ لمبے عرصے کیلیے انتظار نہیں کرنا چاہتے اور پل بھر میں حکمرانی کے سارے ثمرات سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح کا عمل خودغرض لوگوں کا ہوتا ہے جو دشمنوں کے نرغے میں پھنس چکے ہوتے ہیں اور انہیں قوم و ملک کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
اب بھی وقت ہے مسلم لیگ ن وقتی فوائد کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کیلیے لمبی منصوبہ بندی کرے۔ اسی میں پاکستان اور مسلم لیگ ن دونوں کی بھلائی ہے۔
4 users commented in " جج اور مسلم لیگ ن "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہی بات تو میں نے جناب افتخار اجمل سے کہی ہے ۔
نواز شریف آٹھ سال تک سیاست سے بالکل باہر رہا ہے ۔ اب تو اسے بالکل سیدھا ہو جانا چاہیے تھا ، مگر لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے ہی مخلص نہیں ہے ۔
ہمارے ہاں اکثریت سیاستدانوں کے پیشِ نظرغالباََ منافقت اور مفاداتی مصالحت ھی سیاست کا دوسرا نام ہے ۔ مگر کب تک ؟ کیونکہ ایسی سیاست جو صرف اورصرف اپنے مفادات پہ مبنی ہو ۔ جسمیں جمہور کی رائے کو قطعی اہمیت نا ہو ۔قوم کو باعزت بنانے میں۔ عوام کے حقوق دلوانے میں ۔کوئی کردار نا ہو۔وہاں معاملات کے دن گنے چنے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ضمیر فروش لوگوں نے ملک و قوم کے اثاثوں کی بندر بانٹ کے بعد۔ عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کے بعد ۔غریب اور مفلوک الحال افلاس کی ماری قوم کا آخری قطرہ کشید کرنے کے بعد ۔محض اپنے اللے تللوں ۔ محلات ۔ ڈیفنس اور ملک کی انتہائی مہنگی پوش کالونیوں میں کروڑوں نہیں بلا مبالغہ اربوں مالیت کے قیمتی پلاٹوں۔ دوبئی ۔ برطانیہ ۔ امریکہ ۔ سوئزرلینڈ ۔ یوروپ اور دوسرے غیرممالک میں کمپنیوں کے شئیر – کاروبار میں شراکت ۔ بڑی بڑی جائیدادیں اور بینکوں میں کروڑوں ڈالر کے اکاؤنٹ۔ فارموں – نہر ی زمینوں۔داشتاؤں۔ اپنی اور اپنے اقارب کی جاہ حشمت کی خاطر یہ عیار اور ہر قسم کی دینی ، قومی اور ملی حمیت اور غیرت سے عاری یہ طبقہ قوم کے بیٹوں اور آئیندہ نسلوں کو بھی بیچ کر اسکے دام کھرے کر چکا ہے ۔غضب خدا کا ھماری کئی نسلیں پیدا ھونے سے پہلے ہی بیچی جا چکی ہیں- اس مفاد پرست طبقے کی ھوسناکی کا یہ عالم ہے کہ محض اپنے مفدات کی خاطر یہ طبقہ مفلوک الحال قوم کا کی غیرتِ ایمانی کا سودا بھی اغیار سے کرنے پہ تیار ہے ۔
نظام کوئی بھی ہو اسے چلانے کے لئیے دیانتداری بنیادی اور اہم شرط ہے ۔بے ایمان آدمی مسجد میں بھی ہیراپھیری کی کوئی صورت نکال لیتا ہے ۔ جبکہ نیک آدمی شراب خانے سے بھی عابد اور پارسار برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ (ایلٹ کلاس) انتہائی کم ظرف ہے اور بدیانت ہے ۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے اور مبینہ طور پہ ملک کو پتھر کے دور میں لے جانے کی دہمکی سے ڈرجانے والے جنرل مشرف اور احواریوں سے پوری قوم یہ سوال کرتی ہے کیا آپ کے اقدامات کے بدلے آج کا پاکستان ذیادہ محفوظ ہے اور پتھر کے دور کی تاریکیوں کی بجائے اکسیویں صدی کی کونسی ریاست سے بہتر ہے ؟۔ وہ نعرے لگا کر لُوٹ چکے یہ نعرے لگا کر لُوٹ رہے ہیں مگر قوم کی قسمت ہر گزرنے والے دن کیساتھ تاریک ہوئی جاتی ہے۔اور نئی آنے والی حکومت پھر سے عزیز ھموطنوں، خزانہ خالی یا پھر سابقہ حکوت کی کوتاہیوں کی اور مسائل کے انبار کو کوسنے سے لوٹ کھسوٹ اور بندر بانٹ کا کاروبار شروع کرے گی ۔ اور پھر سے نیا مفاہمتی( یا منافقتی) آرڈیننس جاری ہوگا اور بڑے بڑے جغادری قسم کے گناہگار جنہوں نے ملک و قوم کے اربوں نہیں کھربوں روپے شیرِ مادر سمجھتے ہوئے ڈکار تک نا لی اور پی گئے۔ قوم کو بھوک اور غربت کی اتاہ تاریکیوں میں دھکیل دیا۔ ایک آمر کی یک بہ جنبش قلم سے نا صرف پاک صاف ہوجائیں گے ۔انکے مقدمات انکی سزائیں معاف ہوجایئں گی۔ وہ ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئےبچے کیطرع معصوم کہلائیں گے۔ بلکہ وہ عزت مآب قرار دیے جائینگے اور قوم پہ انکی توقیر اور عظمت فرض کر دی جائیگی اور ایک دفعہ پھر انکے ھاتھ ہر معاملے میں آزاد ہونگے۔ مگر کب تک؟ یہ بند گلی کی سیاست کب تک؟۔ ایک دن تو گلی کے بند سرے سے واسطہ پڑے گا۔ عوام کے پاس تلوار اور دیوار کے درمیان بہت کم جگہ بچی ہے اور ہرگزرنے والے دن کے ساتھ جگہ مزید کم ہوتی جارہی ہے۔ عوام کا صبر آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ رشیداں اور مجیدن کے چھولوں کی آگ مزید کم ہوتی جارہی ہے اور بچوں سمیت نہروں دریاؤں میں کود کر انکی خود کشیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ مہینوں کے حساب سے روزانہ کام کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد سرشام ٹرین کی پٹڑی پہ سر رکھ کر گردن کٹا دینے والے چھیمے اور شیدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ بستیوں کی بستیاں ، شہروں کے شہر اندہیروں میں ڈوبتے جارہے ہیں ۔ مگر کب تک؟ جس دن محروم عوام کے جذبات کے سیل ِرواں کا رخ بدلا تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرع بہہ جائے گی اور نظام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی ۔ اسلئیے پاکستان میں مقتدرہ طبقے کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ یہ واردات ہو وہ کچھ کر لیں اور انکے پاس وقت واقعی بہت کم ہے۔
ایسے میں ایک غیر ملکی سروے کیمطابق اگر ملک کے چھیاسی فیصد عوام نواز شریف پہ اعتماد کرتے ہیں۔ یقین رکھتے ہیں۔ تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ عوام ججوں کی بحالی میں نواز شریف کی سنجیدگی اور تگ و دور کوججوں کی بحالی کے اپنے جائز مطالبے میں شریک سمجھتے ہیں ۔اس لئیے لوگ نواز شریف کو اپنا اپنا خیال کرتے ہیں ۔ ہر پارٹی کی شناخت سے بالا عوام کے نزدیک ججوں کی فوری بحالی ناگزیر اور بہت ضروری ہے – کوئی تو ہو جو ان (عوام) کے اشک چن لے اور افتخار محمد چوہدری کی طرع انکے سر پہ ھاتھ رکھ دے ۔ نواز شریف اور عوام میں یہ مشترک قدر نواز شریف کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کرتی ہے ۔ اور یہ نواز شریف پہ ہی منحصر نہیں جو بھی موجودہ حالات میں بلکتے عوام سے پرساری کرے گا عوام اسے سر آنکھوں پہ بٹھائیں گے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا، اسپین
جاوید گوندل: اتنا لمبا تبصرہ؟ آپ اپنا بلاگ کیوں نہیں شروع کر دیتے؟
:p
قدیر صاحب!
آپکا مشورہ سر آنکھوں پہ مگر آپ سب یہ کاوش نہائیت اچھے طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں ۔ چونکہ آپکو آسٹریلوی اداکار میل جبسن Mel Gibson بہت پسند ہے اور آپ نے انکی انیس سو پچانوے 1995 عیسوی میں ریلز ہونے والی فلم Braveheart بھی دیکھ رکھی ہوگی جس میں میل جبسن نے اسکاٹ حریت پسند ولیم ویلس کا کردار ادا کیا ہے- جو انگلینڈ کےبادشاہ ایڈورڈ لانگ ھینکس کے خلاف اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے جان دے دیتا ہے اور جب اسکو قتل کرنے سے پہلے انگریز جلاد بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چیرتے پھاڑتے ہیں تو وہ شدیداذیت میں بھی حریت کی ُ ُتحریک جاری رہنے چاہیے ،،- کا نعرہ لگاتا ہے – اور میں سمجھتا ہوں آپ سب یہ کام بحسن طریقے سے نباہ رہے ہیں ۔ بس تحریک جاری رہنی چاھیے- اسمیں ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ آپ ہوں ، ُ ُ میرا پاکستان،، کے افضل جاوید ہوں یا جاوید گوندل یا کوئی اور صاحب ۔
دعا گو
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا، اسپین
Leave A Reply