شراب اور نام کے مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے محلے میں کئی شرابیوں کو دیکھا۔ کبھی کبھی تو وہ دیسی شراب یا پھر سپرٹ پی کر اتنے بے سدھ ہو جایا کرتے تھے کہ گندی نالی میں گر جاتے تھے اور تب تک وہیں پڑے رہتے جب تک کوئی ہمدرد انہیں اٹھا کر گھر نہ پہنچا دیتا۔
نام کے مسلمانوں کا ادبی شغل شراب کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک شاعر شراب نہ پیے وہ اچھا شعر نہیں کہ پاتا۔ اسی طرح شرابیوں پر بہت ساری فلمیں بنائی گئیں۔ ہر فنکار، موسیقار، شاعر، گلوکار شراب کے بغیر اپنا کام نہیں کر سکتے۔
جنرل یحی پہلے حکمران تھے جن کی شراب نوشی اور رنڈی بازی زبان زد عام ہوئی مگر پھر بھی کسی نے احتجاج بھی نہیں کیا۔ پاکستان میں شراب پر پابندی بھی شرابی وزیراعظم نے لگائی اور اس کا اثر جنرل ضیاء کے دور تک رہا۔ اس کے بعد شراب اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کا پینا پلانا کوئی معیوب نہیں رہا۔
نام کے مسلمان جب ذرا دولت کی ریل پیل دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے شراب اور کباب سے اپنی تواضح کرتے ہیں۔ اس کی
زندہ مثال مسلمان ملکوں کے نام کے مسلمان حکمران ہیں۔ بہت عرصے تک یہ لوگ چھپ چھپا کر شراب پیتے رہے۔ عوام کے خوف کی وجہ سے انہوں نے شراب پیتے ہوئے اپنی فوٹو اخبار میں چھپنے نہیں دی اور نہ ہی ٹی وی پر دکھانے کی اجازت دی۔ پھر میڈیا آزاد ہوا اور اس کی یلغار نے دنیا کو سکیڑ کر رکھ دیا۔ اب اگر مقامی اخباروں میں ہمارے حکمرانوں کی شراب پیتے ہوئےفوٹو نہیں چھپتی تو کوئی بات نہیں لوگ دوسرے ملکوں کے اخبارات میں ان کی فوٹو دیکھ لیتے ہیں۔ اب تو حکمران نڈر ہو چکے ہیں یا پھر معاشرے نے شرابی حکمرانوں پر اعتراض کرنا ختم کر دیا ہے تبھی تو آج آری ٹی وی نے صدر زرداری اور ان کے وزراء کی چائنہ کے صدر کیساتھ شراب پیتے ہوئے ویڈیو بھی دکھا دی۔
یورپ میں بسنے والے نام کے مسلمان مشہور شاعر غالب کی تقلید کرتے آ رہے ہیں۔ غالب کو جب انگریزوں نے گرفتار کیا تو اس کا مذہب دریافت کیا۔ اس نے کہا آدھا مسلمان۔ انگریز نے پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگا میں شراب پیتا ہوں مگر سور نہیں کھاتا۔ اسی طرح یورپ میں رہنے والے نام کے مسلمان شراب تو پیتے ہیں مگر سور نہیں کھاتے۔ ویسے وہ وقت دور نہیں جب وہ سور بھی کھانا شروع کر دیں گے۔
اب تو پاکستان میں بھی دیسی اور ولائتی شراب عام مل جاتی ہے۔ انڈیا سے شراب کی بہت بڑی تعداد درآمد ہونے لگی ہے۔ نائٹ کلب کھل چکے ہیں۔ امیروں نے تو شہروں سے باہر اپنی جاگیروں میں ایسے اڈے قائم کر لیے ہیں جہاں شراب اور کباب کا بندوبست ہوتا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے شہر شراب کی سب سے بڑی منڈی ہیں۔
پتہ نہیں شراب پینے کے باوجود مسلمان اپنے آپ کو کیسے مسلمان سمجھتا ہے۔ ہو سکتا ہے جس طرح باقی خرافات کے بہانے نکال لئےگئے ہیں اسی طرح شراب پینے کا بھی کوئی بہانہ تراش لیا گیا ہو گا۔ کیا خیال ہے روشن خیالی اور عملیت پسندی آنے سے مسلمانوں میں شراب کا استعمال پہلے سے بڑھ نہیں گیا؟
14 users commented in " شراب اور نام کے مسلمان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ تو کچھ بھی نہیں آپنے شاید چین میں مشرف کی صہبا مشرف اور اپنے وفد کے ہمراہ با جماعت شراب نوشی نہیں دیکھی
تبھی تو آج آری ٹی وی نے صدر زرداری اور ان کے وزراء کی چائنہ کے صدر کیساتھ شراب پیتے ہوئے ویڈیو بھی دکھا دی۔
this is apple juice not alchohol..this is arranged in protocol beforehand..
قاسم صاحب
چائینیز ویب سائٹ پر تصویر کیساتھ ٹوسٹ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو شراب کیلیے استعمال ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کی بات درست ہو کیونکہ ہم نے بھی تصویر سے اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔
یار ہے شراب نیئں ہے ایک اور ڈرنک ہے
ایک طویل تبصرہ کسی تکنیکی خرابی سے شائع نہ ہوا
اجمل صاحب کا بلاگ سسٹم سب سے بہتر کام کرتا ہے
تو کیا مہمانوں کو معلوم نہیں کہ میزبان کیا کھاتے اور کیا پیتے ہیں؟ اس طرح تو کھانا بھی حرام ہی دیتے ہوں گے۔
اور واقعی یہ بات بہت مشہور ہے کہ ہم مسلمان شراب چاہے جتنی مرضی پی لیں، لیکن کھانا ہمیں حلال ہی چاہیے۔
احمد عثمانی صاحب
تبصرے کے ضائع ہونے پر معذرت۔ مجھے بتائیے گا کہ تکنیکی خرابی کیسے پیدا ہوئی تاکہ ہم اسے درست کرسکیں۔
ارشاد ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پرفتن دور کی نشانیاں
شراب کو مشروب کانام دیا جائگا. یہ بلاگ اردو کا ہے یہاں پر اردو استعمال کریں تو بہتر ہے
احمد عثمانی صاحب اتنے طویل تبصرے کہ پوسٹ پیڈ سپورٹ نہیں کر سکا
کیوں نہ اپنا ایک بلاگ بنا لیں آپکے خیالات اچھے ہیں انشا ء اللہ لوگوں کو کافی فائدہ ہوگا انشاءاللہ ہم آپکی ہر طرح سے مدد کرینگے
احمد عثمانی صاحب، ہم بھی یہی کہیںگے کہ عمادالاسلام صاحب کے مشورے پر ضرور غور کریں۔ یہ اردو بلاگنگ پر آپ کا احسان ہو گا۔ ویسے لمبے تبصرے آپ اگر ہمیںای میل کر دیا کریں تو ہم انہیں جواب عرض ہے کے تحت چھاپ دیا کریں گے۔
تمام احباب کو سلام
میں نے شراب پر ایک تفصیلی تبصرہ کیا اور ساتھ ھی اپنے طور پر جو میں نے دنیا گھومنے پر لوگوں کو شراب پیتے اور ترجیح دیتے دیکھا کیونکہ ایک صاحب نے جس طرح شراب کو پائن ایپل بنایا اس نے لگتا ھے سب کو بے وقوف جانا
میں عام طور پر تبصرہ پوسٹ کرنے سے پہلے کاپی کر لیتا ہوں مگر کل ایک صاحب سر پر آ سوار ہوئے اور جلدی میں ڈائرکٹ ارسال کردیا اور کسی تکنیکی خرابی کا سامنا کرنا پڑا واپس پلٹے تو سب صاف تھا
گڑیا ماوراء کی بات پر ہنسی آئی کہ بھولی شہزادی جو امم الخبائث پی لے وہ اور کس بات سے ڈرے گا؟ اور جو سور نہیں کھاتے اسکی وجہ کراہت ھے جبکہ بہت مسلمان کھاتے بھی ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے
شراب پینے والا حرام گوشت کھا جاتا ہے بلا کسی جھجک کے اور شراب پینے والا موقع ملنے پر زنا بھی کرتا ہے اسی لیئے شراب کو امم الخبائث کہا گیا ہے
ہم نے پاکستان جاتے ہوئے پاکستانیوں کو رمضان میں جب باقی چند تبلیغی افراد روزے سے تھے ایک مسلم ایرلائن میں جی بھر کر شراب پیتے دیکھا ہے
جناب افضل صاحب اور عمادالاسلام صاحب
آپ کی عزت افرائی کا بے حد شکریہ حالانکہ بندہ تو اس قابل کہاں بس ہم تو کنتم خیر امت ۔۔۔ کے فرد ہونے کی بناء پر دعوت کیلیئے حق بات کر دیتے ہیں تاکہ کم از کم اپنی زات کو اتنا فائدہ ہوجائے کہ عمل کی توفیق رہے
اور صرف افضل صاحب و اجمل صاحب کے ہاں ھی تبصرہ کرتے ہیں یہ لوگ سلجھے ہوئے ، بامقصد اور معتبر ہیں
ہماری شدید خوائش یے اپنے بلاگ کی اور اسکو عبادت سمجھ کر ہی اپنائیں گے کہ اصلاح کا پہلو سامنے رہے
زرداری تیرے راج میں،
وہی اندھیری رات ہے،
جو تھی کل ڈکٹیٹر کے نام سے،
آج ہے تیرے ہی اکرام سے
زرداری تیرے راج میں،
مرجائیگی یہ قوم
انصاف کے انتظار میں،
روٹی کے انتظار میں
زرداری تیرے راج میں،
تجھے میسر ہے شراب و شباب،
مرگئی قوم بھوک و افلاس میں،
زرداری تیرے راج میں
آدھی قوم کو ماردیا،
بموں کی بوچھاڑ نے،
باقی قوم کو ماردیا،
روزگار کے انتظار نے
۔۔۔۔۔۔۔یا پھر معاشرے نے شرابی حکمرانوں پر اعتراز کرنا ختم کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ُ ُاعتراض،، ہوتا ہے ُاعتراز نہیں۔از راہِ کرم درستگی فر ما لیں۔
شنیدن یہی ہے ۔کہ ہمارے حکمران سرِ عام منعقد کی گئیں ایسی محفلوں میں شراب کی بجائے عموماْ جوس وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسطرح کے دوروں میں اعلٰی شخصیات کے حلال اور موافقِ طبعیت کھانے پینے کا اہتمام انصرام نیز حفظِ مراتب کا خیال متعلقہ پروٹوکول آفیسر کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ جو عموماْ ایسے ہر دورے میں اعلٰی ترین شخصیات کے ساتھ ہوتا ہے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ اگر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا سیاسی صدر خوفِ خدا کے ہاتھوں یا اپنی سیاسی بقاء کے خوف سےجو عوام کی پسند اور ناپسند پہ منحصر ہوتی ہے کہ اگر عوام اس طرح کی کوئی حرکت بری لگے تو وہ اپنی ناپسندیدگی کی صورت میں آئیندہ انتخابات میں صدر کی جماعت کو کامیاب نہیں کریں گے ۔ اور انہیں خدشات کو اس طرح کے غیر ملکی دوروں میں بناد بنا کر صدر وزیرِ اعظم اور دوسری اعلٰی شخصیات اس طرح کی فضول اور اور پاکستانی عوام کے مذہب اور روایات کے خلاف رسومات و تقریبات سے بآ سانی جان چھڑوا سکتے ہیں اور اللہ سبحان و تعالٰی اور پاکستان کے عوام کے سامنے بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ اور اس طرح مقاصدِ پاکستان کی صحیح تکمیل و ترجمانی بھی کر سکتے ہیں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں یا تو پاکستان کے حکمران طبقے کی قبیل کے لوگوں میں پاکستانی عوام کا احترام مفقود ہے ۔ اور خدا کا خوف بھی غالباْْ نہیں۔ یا پھر ان کے مشیرانِ کرام واقعی عقل سے پیدل لوگ ہیں ۔ ہر دو صورتوں میں یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے وقار کے خلاف ہے۔ ایسی محفلوں سے انہیں اجتناب برتنا چاہیے۔
خیراندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
Leave A Reply