اس ہفتے ایکپریس کے کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم میں اپنے ہی ساتھی صحافی اور کالم نگار نجم سیٹھی کو اتنی گالیاں دیں کہ پڑھنے والے بھی توبہ توبہ کرنے لگے۔ کالم نگار جتنا بھی دہریہ، ملک دشمن اور ذلیل ہو اسے اس طرح کسی کے ہاتھوں پہلی دفعہ ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔ ویسے ہمیں امید نہیں تھی کہ جاوید چوہدری جیسا کالم نگار جو اپنے ہر کالم میں نیکی اور بھلائی کی دعوت دیتا ہے وطن کی محبت میں اتنا پاگل ہو جائے گا کہ کسی ادب آداب کا بھی خیال نہیں رکھے گا۔
اس دشنام طرازی پر مبنی کالم کی گونج نے سب کو ہلا کر رکھ دیا حتی کہ ایکپریس کے ایڈیٹر عباس اطہر کو نہ صرف جاوید چوہدری کی سرزنش کرنی پڑی بلکہ زیادتی کا شکار دونوں شخصیتوں سے معافی بھی مانگنی پڑی۔
لیکن عباس اطہر نے جاوید چوہدری کو خط لکھ کر جن غلطیوں کی نشاندہی کی انہوں نے خود وہی غلطی دہرا کر اپنے اگلے ہی کالم میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بھی خبر لے لی۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ جاوید چوہدری کے خیالات دانش مندی کے متقاضی تھے تو پھر انہوں نے جو الزامات چیف جسٹس پر لگائے وہ بھی دانش مندی کے متقاضی تھے۔
قارئین ان تینوں کالموں کو پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جاوید چوہدری نے نجم سیٹھی کو کتنا ننگا کیا، عباس اطہر نے اس کے بعد نجم سیٹھی کا ستر ڈھانپنے کی کوشش کی مگر بعد میں اپنے ہی کالم میں انہوں نے جاوید چوہدری کی تقلید کرتے ہوئے چیف جسٹس کو بھی ننگا کرنے کی کوشش کی۔
9 users commented in " دونوں ہی غلط "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمجھے جاوید چوہدری کے پہلے کالم میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی!!!!
غور کرے تو دوسرے کالم میں بھی انہوں نے معذرت نہیں کی بس عباس اطہر کا خط چھاپ دیا ہے!!!!
شعیب صاحب سے متفق ہونے کے علاوہ مزید یہ کہوںگا کہ عباس اطہر خود بھی کوئی دودھ کا دھلا شخص نہیں اور یہ خط بھی اس نے اپنی صحافیانہ نہیں ملازمانہ مجبوری کے تحت لکھا ہے۔ کیا صرف عباس اطہر نے ضروری جانا کہ اس غلط بات پر سرزنش کی جائے؟ کسی اور صحافی نے کیوں نہیں؟کیا عباس اطہر کے علاوہ کوئی “صحافی“ ہی نہیں؟ کیونکہ ایسے معاملوں میں چھِتر لگنے شروع ہوتے ہیں تو افسر کی باری پہلے آتی ہے۔ اگر اتنا ہی حق کا بال بالا کرنے کا شوق ہوتا تو افتخار چوہدری سے پہلے ڈوگر سائیں کے بارے میں لکھتا اور اس سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے۔ یہ وہ حمام ہے جہاں سارے ننگے ہیں اور اپنا ننگ چھپانے کی بجائے دوسروں پر انگلیاں اٹھا کر ہنستے ہیں
ویسے تو ملکی حالات پر تبصرہ کرنا اب وقت کا ذیاء لگتا ہے اور خاص کر وہاں جہاں افضل صاحب مسلسل خوش گمانی میں مبتلاء رہیں
پہلے 2 صاحبان نے بلکل بجا فرمایا ہے
عباس اطہر سامنے وطن پرست بنا رہتا ہے اور اسلام سے بغض بھی رکھتا ہے کیوں کہ اسکے عقیدہ میں تو ہم “مومن“ نہیں ہیں اسکے علاوہ یہ پیپلی سائڈ کا آدمی ہے اور پیپلز پارٹی کو سپورٹ دینے کلیئے کفی لوگ میدان میں نکلے ہوئے ہیں۔ باطل کی ہمایت کرنے والے ہمیشہ سے اکثریت میں رہ ہیں
90٪ لوگ موج میلے والے ہیں ادبی لکھاری اب بھلا ان کو کیا پڑی کہ ایسی حکومت کی مخالفت کریں جو ایسا ماحول دیتی ہو
کراچی کے کالجز میں عام طلبہ MQM کو پسند کرتے تھے کیوں کہ وہ نقل کا ماحول دیتی ہے۔ سمجھانہ یہ مطلوب ہے کہ انسان اپنے مطلب والے ماحول کی بقاء کیلئے اپنی سی کوشش کرتا رہتا ہے دین کیوں کہ نفس پر بھاری ہے اس لیئے اس کے لیئے کوشش کرنے والے بہت کم باتیں کرنش والے کچھ زیادہ اور نفسانی ماحول کے سب سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ لوگ میدان عمل میں رہتے ہیں
ان کالموں سے کون سا انقلاب آئے گا یا آتے آتے رک جائے گا؟
“دین کیوں کہ نفس پر بھاری ہے“
khudkush dhamakoon kay baad tu buhut hee bharee hu giyya hai nafs par. 🙂
صحیح بات ہے قادیانیو پر تو بھاری ہو ہی گیا کون جانے طالبان کب کھیں سے نمودار ہوکر انہیں ذبح کر دیں اسلیۓ اب وہ پہچان چھپاتے پھر رہے مرزا صاحب ذرا بچ کے رہنا
آجکل صحافی صاحبان کی اکثریت دین کے ترازو پر پورا نہیں اترتی ۔
جھاں تک دین کو خودکش بمبار سے جوڑنے کا تعلق ھے پاکستان میں ابھی تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کھ یہاں خودکش دھماکے دین پر عمل کرنے والے کر رھے ھیں ۔ یھ سب معاندانہ پروپیگنڈہ ھے
ابھی پچھلے دنو خبر آئ تھی کہ پاکستان سے مزید چھ ہزار قادیانی اسرائلی فوج میں شامل ہو رہے ہیں
مسلمانوں پر خودکش حملے ان ہی کافروں کی کارستانی ہوتی ھے
مجھے جاوید چوہدری کے کالم میں کوی خرابی نہیں آی۔
جاوید چوھدری کے کالم پہلے بھی پڑھے ہیں اور ھمیشہ ایک دردمند پاکستانی کا درد ہی نظر آتا ہے۔
اللۃ عزت دے جاوید چوھدری کو اور مسلمانوں کو، آمین۔
میں جاوید چوہدری کے کالم کافی عرصہ سے پڑھ رہا ہوں، اور انہیں اس لہجے میں بات کرتے پہلے کبھی نہیں دیکھا حتا کہ مشرف کے اخری دور میں جب ان پر دباو بہت زیادہ تھا، اس کالم سے اندازہ ہوتا ہے اس وقت دباو کا کیا عالم ہے بلکہ شاید معاملہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے ورنہ حسن نثار والی مثال نہ دیتے۔
Leave A Reply