ستمبر کے مہينے ميں ڈنمارک کے ايک اخبار نے ہمارے پيغمبر کي شان ميں گسنتاخي کرتے ہوۓ کارٹون چھاپے اوراس وقت ہمارے ايک بلاگر شعيب صاحب نے اپنے بلاگ ميں خبر چھاپ کر ہماري توجہ اس طرف مبزول کروائی ۔ ہماري درخوست پر شعيب صاحب نے اپنے بلاگ سے وہ کارٹون ہٹا ديۓ اور اس کے بعد يہ بات آئي گئ ہوگئ۔ نہ کسي اور مسلمان نے احتجاج کيا اور نہ ہي کسي مسلمان حکومت کوڈنمارک کے خلاف سخت ايکشن لينے کا خيال آيا۔ تب مسلمانوں کے زباني احتجاج پر ڈنمارک کےاخبار نے معزرت کرنے سے يہ کہ کر انکار کرديا کہ يہ آزادئ اظہارِ ہے اور اس نے کوئي غلط کام نہيں کيا۔
دو ہفتے قبل جب ناروے کے ايک کٹرعيسائي اخبار نے يہ کارٹون دوبارہ پرنٹ کۓ تو مسلمان خوابِ غفلت سے جاگے اور انہوں نے اس گستاخي کے خلاف احتجاج کرنا شروع کرديا۔ سب سے پہلے سعودي عرب نے اپنا سفير واپس بلايا اور ڈنمارک کي بنائي ہوئي چيزوں کا بائيکاٹ شروع کرديا۔ اس کے بعد ليبيا نے سعودي عرب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوۓ اپنا سفيرڈنمارک سے واپس بلانے کے بعد ڈنمارک کي چيزوں کا بئيکاٹ بھي شروع کرديا۔ اب ديکھا ديکھي اس احتجاج کي لہرنے لبنان، شام، غزہ، مصر، سوڈان اور باقي عرب دنيا کو بھي اپني لپيٹ ميں لينا شروع کرديا ہے۔ دنيا کي بڑي بڑي اسلامي تنظيموں نے صداۓ احتجاج بلند کي ہے اور مسلمانوں سے ڈنمارک کے بسکٹ ، مکھن اور دوسري چيزوں کا بائيکاٹ کرنے کي درخواست کي ہے۔
جب ڈنمارک کے اخبار نے محسوس کيا کہ اب يہ احتجاج ڈنمارک کيلۓ مصيبت بنتا جارہا ہے تو اس نے تحريري معافي مانگ لي مگر احتجاج اب اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں ڈنمارک کي حکومت سے معافي مانگنے کی مانگ کے ساتھ ساتھ اخبار کو بھي بند کرنے کا کہا جارہا ہے۔
کتنے شرم کي بات ہے کہ ہماري روشن خيال حکومت صرف دہشت گردي ختم کرنے کے کام ميں اتني مشغول ہے کہ اسے شانِ رسول ميں گستاخي کوئي بري نہيں لگي اور نہ ہي اس کے خلاف کوئي سخت قسم کا احتجاج کيا ہے۔
اگر ڈنمارک حکومت اور اس کے اخبار کي آزادئ راۓ کا حق تسليم کر ليا جاۓ تو پھر اس گستاخي کو مسلمانوں کے خلاف ايک متعصب سازش سمجھا جاۓ گا ۔ اس داغ کو دھونے کیلۓ یہ اخبار اسي طرح عيسائيوں اور يہوديوں کے مزہبی رہنماؤں کے بھي کارٹون چھابے تو ہم سمجھیں گے یہ آزائ اظہار ہے۔۔
مانا کہ آزادئ اظہار کا سب کو حق ہے مگر اس کي بھي چند حدود ہيں وگرنہ اس آزادي کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ آپ ڈنمارک کے وزيرِ اعظم کا ننگا کارٹون اخبار ميں چھاپ سکتے ہيں۔ نعوذبااللہ آپ حضرت عيسيٰ يا حضرت موسيٰ کے اس طرح کے کارٹون چھاپ سکتے ہيں۔ ہم نے اپني عمر ميں يورپ ميں حضرت عيسيٰ کي توہين کرتے کسي اخبار کو نہيں ديکھا۔ ابھی اسی ہفتے کی بات ہے کہ ایک پادری پرامریکی حکومت مقدمہ چلانے کا سوچ رہی ہے۔ اس پادری نے یہ کہا ہے کہ مسیح موعود تشریف لاچکے ہیں اور اس نے ان کا نام بھی بتا یا ہے۔ اب سرکار کا یہ خیال ہے کہ یہ پادری لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔
کہتے ہيں کہ سلمان رشدي کي کتاب کے خلاف احتجاج کے بعد یہ مسلمانوں کا دوسرا بڑا احتجاج ہے۔ اب سلمان رشدي کو ديکھۓ اس نے تورات اور انجيل کے بارے میں نہيں لکھا صرف قرآن کي شان ميں گستاخي کي وہ اسلۓ کہ وہ جانتا تھا کہ ہم مسلماں خوابِ غفلت کا شکار ہيں اور بے غيرتي کي آخري حدود ميں داخل ہوچکے ہيں۔ ليکن مايوس ہونے کي بات نہيں اور ہم سب کو اميد ہے کہ ايک دن مسلمان جاگيں گے اور پھر اس طرح کي گستاخي کرنے سے پہلے يورپ سو دفعہ سوچا کرے گا۔
ہميں سو فيصد يقين ہے کہ اگر اسي طرح مسلمانوں کا احتجاج جاري رہا تو ڈنمارک کي حکومت گھٹنے ٹيکنے پر مجبور ہو جاۓ گي اور اسے اخبار بھي بند کرنا پڑے گا۔
اے مسلمانو اگر اسي طرح تم اپنے مفادات کيلۓ اکٹھے ہوجاؤ تو ساري دنيا کو آگے لگا سکتے ہو وگرنہ اسي طرح ذليل ہوتے رہو گے جس طرح اب افغانستان، عراق، کشمير، فلسطين اور چيچنيا ميں ذليل ہورہے ہو۔
آئيں ملکر ايسے اقدامات کريں جس سے ہمارے اختلافات کم ہوجائيں اور ہم لوگ ايسے ہي متحد ہوجائيں جس طرح عثماني خلافت اور اس سے پہلے متحد تھے۔ ہماري دعا ہے کہ خدا ہم ميں اتحاد پيدا کرے اور ہميں نيک حکمران چننے کي توفيق عطا فرماۓ جو اس طرح کي شانِ رسول ميں گستاخي کرنے والے کو ايسا مزہ چکھائيں کہ اسے دوبارہ گستاخي کي جراءت نہ ہو۔ آمين
3 users commented in " ڈنمارک کے اخبار کي شانِ رسول میں گستاخي اور مسلمانوں کا ردِ عمل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackدوسرا بڑا احتجاج….. مگر اسخبر کے مطابق ڈنمارک کے وزیراعظم اینڈر فوگ نے کہا ہے کہ انہیں ایڈیٹر کے فیصلے پر انتہائی خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے معذرت کر کے ایک بنیادی قدم اٹھایا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ وہ خود اس پر معزرت نہیں کریں گے کیونکہ یہ صحافت کی آزادی کا معاملہ ہے اور وہ اس کا دفاع کریں گے۔
اسے آپ کیا کہے گے؟؟؟؟
مغرب نہ جانے کس طرز پر جا رہا ہے۔ یہ لوگ تو عیسائیت کو بھی نہیں چھوڑتے۔
اخبارات کا مجھے علم نہیں مگر آپ نے کبھی اینٹی کرائسٹ تنظیموں کا نام سنا ہے؟
میں مصلحت کا قائل نہیں ۔ ان حرامزادوں کا سخت باینکاٹ کرنا چاہیے۔
ہم نے کبھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں جستاخی نہیں کی بلکہ ان کو مقدس پیغمبر مانتے ہیں۔
لیکن ان روشن خیال اور حقوقِ انسانی کے علمبرداروں کے طرزَ عم نہایت گھٹیا ہے
Leave A Reply