ہمارے ايک محلہ دار کے پانچ بيٹے ہيں اور جب وہ جوان ہوۓ تو ان کي جواني ديکھنے کے قابل تھي۔ سرخ و سپيد چہرے، گول مٹول پہلواني جسم اور قد کاٹھ ميں اونچے لمبے مگروہ باپ کي سستي اور نااہلي کي وجہ سے زيادہ پڑھ لکھ نہ سکے۔
ان بچوں نے جب جواني ميں قدم رکھا تو اس وقت ان کي دادي بقيدِ حيات تھي۔ باپ چونکہ ماں کي عزت نہيں کرتا تھا اسلۓ بچے بھي باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوۓ دادي کے ساتھ بدتميزي سے پيش آتے تھے۔ ايک دن تو سب سے بڑے لڑکے نے کسي بات پر دادي کے منہ پر تھپڑ بھي مار ديا۔ اس دن اس کي دادي نے بددعا دي کہ جا تجھے کيڑے پڑيں۔
خدا کا کرنا ايسا ہوا کہ جس سال دادي فوت ہوئي اسي سال ايک دن بڑا لڑکا موٹر سائيکل پر دوسرے شہر جارہا تھا کہ اس کا موٹر سائيکل سلپ ہوا اور لڑکا موٹر سائيکل سميت ايک گڑھے ميں گر گيا اور اس کي ٹانگ ٹوٹ گئي۔ باپ چونکہ بے کار اور خود غرض تھا اس نے لڑکے کے علاج کيلۓ اپنے عزيزوں رشتہ داروں سے رقم تو اکٹھي کي مگر اپنے لڑکے کا علاج کرانے کي بجاۓ اپني عياشيوں پر خرچ کردي۔
حادثے کے چند سال بعد ان کے ايک عزيز نے لڑکے کي جواني پر ترس کھاتے ہوۓ اس کے علاج کي پيشکش کي مگر شرط يہ تھي کہ وہ انہيں علاج کيلۓ رقم نہيں دے گا بلکہ اس کا علاج خود کراۓ گا۔ مگر باپ کي کم عقلي کي وجہ سے وہ پيشکش انہوں نے ٹھکرا دي۔
اس بات کو دس سال ہوچکےہيں اور کئي سالوں سےتو اس کي ٹانگ ميں پيپ بھي پڑ چکي تھي اور ساتھ ہي کيڑے بھي۔ اس لڑکے کي حالت ديکھ کر سب کو ترس آتا تھا اور ہميں وہ بددعا جو اس کي دادي نے اسے دي تھي کہ جا تجھے کيڑے پڑيں۔
ايک ماہ قبل ان کا ايک اور امير رشتہ دار جو امريکہ ميں سرجن ہے وہ اپنے بھائي کي شادي پر پاکستان آيا توجب اس نے اس لڑکے کي ٹانگ ميں پڑے کيڑے ديکھے تو اسے اندازہ ہوگيا کہ چند ماہ بعد اس کي ٹانگ شائد کاٹني پڑ جاۓ۔ اس نے انہيں انساني ہمدردي کے طور پر اسي طرح کے علاج کي پيشکش کي جس طرح کئي سال قبل ايک اور رشتہ دار نے کي تھي۔ ليکن اس دفعہ ان لوگوں نے اس کي پيشکش قبول کرلي اور اس کا علاج شفا ہسپتال ميں کرانا شروع کرديا۔
اب تک اس لڑکے کے علاج پر پانچ لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہيں اور ابھي آدھا علاج ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا اندازہ ہے ک اس کے علاج پر دس لاکھ روپے خرچ آۓ گا۔ مگر ڈھيٹ پن کا اندازہ لگائيے کہ نہ ابھي تک انہوں اپنے رشتے داروں کي مدد کا تزکرہ کسي سے کيا ہے بلکہ الٹا يہ کہ رہے ہيں کہ سارا علاج وہ خود کرا رہے ہيں اور دوسرے رشتہ داروں سے مدد کيلۓ مزيد روپے بھي اکھٹے کر رہے ہيں۔ يہ تو لڑکے کي کم عقلي کہ اس نے ہسپتال ميں فون کي سہولت کو جب ناجائز طور پر کھلے دل سے استعمال کرنا شروع کر ديا تو پھر دوسرے رشتہ داروں کو پتہ چلا کہ اس کا علاج اس کا کزن کرا رہا ہے وگرنہ دوسرے رشتہ دار بھي اس کي مدد کو تيار ہوگے تھے۔
کبھي کبھي ہم سوچتے ہيں کہ کيا ايسے لوگوں پر خدا ترسي کرني چاہۓ کہ نہيں۔ کيا ان کو بدعاؤں کي سزا ملتے رہني چاہۓ يا پھر يہ سوچ کر کہ ان کي سزا کے دن پورے ہوچکے اور اب ان کي امداد کر ديني چاہۓ۔ مگر ہم نے ديکھا ہے کہ جب تک انسان کو خوداپنا احساس نہ ہوجاۓ اس کا احساس نہيں کرنا چاہۓ ۔ کيونکہ مياں محمد کا يہ قول سچ ہے کہ سانپوں کے بيٹے سانپ ہي رہتے ہيں بيشک ان کو لاکھ دفعہ دودھ پلائيں۔
2 users commented in " حقيقت يا افسانہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت ہی عبرتناک کہانی ہے ـ مجھے اپنی امّی کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے کیونکہ جو بھی شخص اپنی ماں کو دُکھ پہنچائے، اُسکی پوری زندگی عذاب بن جاتی ہے اور یہ سچ ہے ـ
ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں؟؟؟؟؟ توبہ ہے!!!
Leave A Reply