ترجمہ :
جابرابن عبداللہ انصاری نےروایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول مختارکے ساتھ حجۃ الوداع میں حج کیا۔ جب پیغمبراعمال حج سے فارغ ہوئے توآپ نے فرمایا ”ایھاالناس ! آج یقینا میں کعبہ کوالوداع کہہ رہاہوں اس کے بعد کعبہ کے درکوحلقہ کیااورباآوازبلندلوگوں کو پکارا۔ تمام اہل مسجدجمع ہوگئے۔ اوربازا ر والے بھی آگئے اس وقت آپ نے فارمایا کہ جوکچھ میں تم سے کہناچاہتاہوں اس کو سنو اورجو موجودنہ ہوں ان تک پہنچادو۔ اس کے بعدآپ نے رونا شروع کیا۔ جس سے تمام حاضرین بھی رونے لگے۔ پھرآپ نے ارشادفارمایا۔ اے لوگو ! خداتم پر رحمت فرمائے۔ تم اس زمانے میں مثل اس درخت کے پتے کے ہو ۔جس کے درمیان کوئی کانٹا نہ ہو۔ اورچالیس سال تک یہی یہ حالت رہے گی ۔ اس کے بعددوسال تک پتے اورکانٹیں ملے جلے ہوں گے پھراس کے بعد کانٹیں نظرآئیں گے جس میں پتہ نہ ہوگا ۔“اور وہ ا یسے لوگ ہوں گے جن میں نہ نظرآئیں گے مگرستمگربادشاہ ،کنجوس مالدار،مال کی طرف رغبت کرنے والے علماء جھوٹے فقیر۔ اس کے بعدآپ نے پھرگریہ شروع کردیا۔تب سلمان اٹھے اورعرض کیا یارسول اللہ یہ سب کس وقت ہوگا۔ حضرت نے جواب دیا۔ اے سلمان یہ اس وقت ہوگا جب علماء کم ہوجائیں گے ۔ زکواة دینابندہوگا۔ انکارکرنے والے ظاہرہوں گے ۔مسجدوں میں آوازیں بلندہوں گی۔ دنیاکو بالائے سراورعلم کوزیرقدم قراردیاجائے گا۔ خودآپس کی گفتگو میں تکذیب کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی محفلوں میں جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ ایک دوسرے کی غیبت کا شیوہ ہوگا۔ حرام کوغنیمت سمجھاجائے گا۔ بڑاچھوٹے پررحم نہ کرے گا۔ اورچھوٹابزرگ کااحترام پیش نظرنہ رکھے گا۔ پس اس وقت ان پر لعنت ہوگی۔ ان کے درمیان دشمن پیداہوجائیں گے۔ دین اسلام میں لفظ اسلام کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ اس وقت انتظارکرنا چاہئے سرخ ہواؤں کے چلنے ۔آسمان سے پتھر برسنے یا چہروں کے مسخ ہوجانے اورزمین کے دھنس جانے کا۔ اوراس امرکی تصدیق خداوندعالم کے اس قول سے ہوتی ہے کہ جوکتاب خدا میں موجود ہے ۔
(قل ھوالقادرعلی ان بیعت علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم ویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض انظرکیف نصرف الایات لعلھم یفقھون(
اس وقت جبکہ بعض اصحاب نے پھرعرض کی یارسول اللہ یہ سب کچھ کب ہوگا ؟ تب فرمایا اس وقت جبکہ نمازوں کوپس پشت ڈال دیاجائے گا۔ شہوتوں کی پیروی کی جائے گی۔ مختلف قسم کے قہوے پئے جائیں گے چائے ،کافی ،قہوہ وغیرہ۔ ماں باپ کوگالیاں دی جائیں گی۔ مرد ا پنی عورت کے احکام پرعمل کریں گے۔ہمسایہ ہمسایہ پرظلم کرے گا۔ بزرگوں کے دل سے رحم جاتارہے گا۔ بچوں میں شرم کم ہوجائے گی ۔مکانوں کی بنیادیں محکم رکھی جائیں گی۔ غلاموں اورکنیزوں پرظلم کیاجائے گا۔ نفس کی خواہش کی وجہ سے گواہے ظلم وستم سے حکمرانی ہوگی بھائی سے بھائی حسدکرے گا۔شرکاء خیانت کریں گے۔ وفا کم ہوجائے گی۔ زناکھلم کھلاکیا جائے گا۔ مرد ، عورتوں کے کپڑوں سے زینت کریں گے ۔عورتیں بے حیا ہوں گی۔ اورحیاکا مقنع عورتوں سے دورہوجائےگا۔ لوگوں کے دل تکبرسے بھرپورہوں گے۔ احسان کم اورحرام کاری ظاہرہوگی۔ گناہان کبیرہ آسان سمجھے جائیں گے لوگ مال کی وجہ سے طالب مدح ہوں گے۔ مال بکثرت گانے بجانے میں صرف کیاجائے گا۔ (سینما وغیرہ ) آخرت کی مطلق فکرنہ ہوگی۔ لوگ صرف دنیامیں مشغول ہوں گے۔ پرہیزگاری کم اورلالچ زیادہ، فتنے اورپریشانیاں بہت ہوجائیں گی۔ مومن ذلیل ،منافق عزیرسمجھاجائے گا۔ مسجدیں اذانوں کی آوازسے معمورہوں گی مگر دل ایمان سے خالی ہوں گے۔ قرآن کوہلکا سمجھاجائے گا۔ چہرے انسانوں کی مثل مگردل شیطانوں کی مثل ہوں گے۔ جیساکہ خداوندعالم کاارشادہے کہ مجھے دھوکادیتے ہیں افحسبتم انماخلقناکم عبثاانکم الیناترجعون الخ ) ” کیاتم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکارپیداکیاہے اورتم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں ہو۔ مجھے قسم ہے اپنے عزوجلال کی کہ اگرتمہارے درمیان پرہیزگار اورمیری عبادت کرنے والے لوگ نہ ہوتے تو یقینا میں تم پربارش کا ایک قطرہ بھی نہ برساتا اورزمین پرگھاس کاایک تنکابھی نہ اگاتا تعجب ہے ان لوگوں پرجن کے مال ، ان کے خدا ہیں اورامیدیں دراز لیکن عمریں کوتاہ۔ وہ اپنے مقاصدتک پہونچنے کا لالچ کرتے ہیں۔ مگر وہ بغیرعمل کے نہیں پہنچ سکتے۔ اورعمل بغیرعقل کے نہیں کیاجاسکتا ۔
پھرفرمایا لوگوں وہ زمانہ آنے والاہے جب کہ ان کے پیٹ ان کے خداہوں گے (پرستش شکم ہوگی )۔ یعنی صرف اس کی فکرمیں غرق ہوں گے۔ اوران کی عورتیں ان کاقبلہ وکعبہ ہوں گی۔ اوران کے پیسے اورمال ان کادین ہوں گے۔ ان کے درمیان علاوہ لفظی اسلام وایمان کے کچھ باقی نہ ہوگا۔ قرآن کاصرف درس ہوگا۔ مسجدیں معمورہوں گی مگردل ہدایت سے خالی ہوں گے یعنی وہ لوگ مطلق ہدایت یافتہ نہ ہوں گے ۔ (اوعلمائھم اشرخلق اللہ فی وجہ الارض ) ۔ یعنی ان کے زمانہ کے علماء مخلوقات میں سب سے زیادہ شریرہوں گے ۔اس وقت خداوندعالم ان کوچارچیزوں میں مبتلاکرے گا (۱) بادشاہوں کے جوروستم (۲) قحط (۳) حاکموں و سرداروں کے ظلم (۴) بتوں کی پرستش میں ۔ صحابہ نے یہ سن کرتعجب کیااورعرض کی یارسول اللہ مسلمان ہوکربتوں کی پرستش ؟ کیسے ہوگی ؟ آپ نے فرمایا ان کے نزدیک روپیہ ایک بت ہوگا۔
نوٹ : اگرحضور دماغ وخلوص قلب سے اس خطبہ کامطالعہ کیاجائے توکیا دل بے ساختہ یہ گواہی نہ دے گا کہ تقریبا چودہ سو سال قبل جوکچھ حضور اکرم(ص) نے ارشادفرمایاتھا وہ آج لفظ بہ لفظ پوراہورہاہے گویاحضورکی نگاہ پیغمبری اس معاشرے کومکمل طرح سے ملاحظہ فرمارہی تھی ۔
اگر یہ شایع ھوگیا تو باقی انشاءاللہ ایندہ
پاکستانی said,
in May 21st, 2006 at
پاکستان کا جمھوری سٹال
اگر آپ آج کے پاکستان کو عالمی جمہوری میلے کی نمائش میں سٹال تصور کر سکیں تو مجھے اپنی بات کہنے میں کچھ آسانی ہوجائے گی۔
آئیے کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ پاکستانی سٹال کی جانب ۔
سامنے کی دیوار پر قائد اعظم کی پورٹریٹ لٹکی ہوئی ہے اور اس کے نیچے تین نعرے ہیں۔ اتحاد ، تنظیم ، یقینِ محکم۔ اس تصویر کا مصرف یہی ہے کہ اس کے نیچے یہ تینوں نعرے درج ہو سکیں۔
تصویر کے دائیں، بائیں اوپر نیچے رائفلز ٹنگی ہوئی نظر آ رہی ہیں ، یہ جی تھری رائفلز ہیں اور کام بھی اکثر یہیں آتی ہیں۔
کیا آپ کبھی پرانے شکاریوں کے ڈرائنگ رومز میں گئے ہیں ؟
اکثر ان ڈرائنگ رومز کی کسی ایک دیوار پر بطور ٹرافی ہنوط شدہ بارہ سنگھے کا سر ایک لکڑی کی پلیٹ پے نصب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح آپ کو پاکستان کے اس جمہوری سٹال کی بائیں دیوار پے تیرہ محفوظ کیے گئے سر قطار سے لگے ہوئے نظر آ رہے ہوں گے ۔
یہ پچھلے اٹھاون برس میں جمع کی گئی ٹرافیاں ہیں اور یہ سب کے سب سر وزراء اعظم کے ہیں جو اقتدار کی زہرخورانی کا شکار ہو گئے ۔ ان سروں کو محفوظ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جمہوری رہنما آج بھی ہمیں کتنے یاد اور عزیز ہیں۔ یہ محفوظ سر اس نمائش میں اسلام آباد کے قومی میوزیم سے بطور خاص لائے گئے ہیں۔
اور یہ سامنے کے کاؤنٹر پے ایک سفید رنگ کی عمارت کا ماڈل بھی رکھا ہوا ہے۔ اس عمارت کا نام ہے پارلیمنٹ جو پاکستانی جمہوریت کا سمبل ہے۔ اس کا مصرف یہ ہے کہ ہر چند سال بعد اس میں ڈھائی تین سو افراد جمع ہو کے شوروغل کرتے ہیں اور پھر ان کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں۔
اور اس کاؤنٹر پے یہ جو آپ کو ایک چوڑے چکلے سینے والے چابک دست سے صاحب نظر آ رہے ہیں یہی اس سٹال کے منتظم اور روحِ رواں ہیں۔ ان کے دائیں جانب آپ کو دو فون سیٹ دکھائی دے رہے ہوں گے۔ لیکن یہ کوئی عام فون نہیں بلکہ دو ہاٹ لائنیں ہیں ۔ سرخ فون پر صرف باہر سے کال آتی ہے اور سبز فون سے صرف راولپنڈی بات ہو سکتی ہے۔
ان کے برابر میں یہ جو آپ کو ایک اکیلا سا مائکرو فون دکھائی دے رہا ہے ایسے مائیکرو فون ہماری پارلیمنٹ کی بنچوں پے درجنوں کی تعداد میں نصب ہیں۔ اور آج کل کام بھی کر رہے ہیں۔
تو یہ ہے اس جمہوری سٹال کا مختصر تعارف ۔
اب اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو سٹال کے منتظم کو اس کا جواب دینے میں خوشی ہوگی۔ تو کیجیے سوال۔
Naswar Khan said,
in May 30th, 2006 at
جیت کر یہ الیکشن پاکستان کے سب فنڈز میرے ھیں
اور ان غریبوں کی قسمت میں فقط پھرے ھیں
یھی خواہش ہے کہ اک بار بن جاوں میں ایم این اے
یہ جہاں چیز ہے کیا سب لوح وقلم میرے ھیں
اردو بلاگرز
ویسے تو سارے اردو بلاگرز اپنی مثال آپ ہیں اور سب کی تحریریں لاجواب بھی ہوتی ہیں مگر ان میں سے کچھ بلاگرز کی تحریروں کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ ان میں سے خاور کھوکھر ، افضل صاحب ( میرا پاکستان والے ) افتخار احمد بھوپال ، اردو دان اور بدتمیز اول ( ایم ایس این سپیس والے ) قابلِ ذکر ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اردو بلاگرز کی تحریروں کو میں پسند نہیں کرتا مگر قابلِ ذکر بلاگرز کی تحریروں میں ایک علیحدہ چاشنی ہے۔ان کی سب تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے اور خود کو نوچتا بھی۔
بدتمیز اول اور خاور کھوکھر کی حالیہ تحریریں پڑھیں لطف آ گیا۔خاصی تلخ تحریریں تھیں کوشش کی کہ دونوں کے بلاگ پر جا کر تبصرہ بھی کروں مگر دونوں کے بلاگ میری پہنچ سے باہر تھے۔بلاگ سپاٹ اب پی کے بلاگ سے بھی نہیں کھلتا شاید کہ پاکستان میں اس پراکسی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔اور ایم ایس این سپیس میرے جیسے غریب آدمی کے براؤزر کو ویسے ہی بلاک کر دیتی ہے۔
میرا ان دونوں دوستوں اور دوسرے بلاگ سپاٹ والے دوستوں کو یہ مشورہ ہے کہ برائے مہربانی کچھ پیسے ویسے خرچ کر کے اپنا کوئی انتظام کریں۔تاکہ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو کیونکہ آپ ہیں کہ آپ سب دوستوں کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنے جتن تو ہم نے کبھی کسی حسینہ کو منانے کے لئے نہیں کئے
اردو بلاگرز
ویسے تو سارے اردو بلاگرز اپنی مثال آپ ہیں اور سب کی تحریریں لاجواب بھی ہوتی ہیں مگر ان میں سے کچھ بلاگرز کی تحریروں کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ ان میں سے خاور کھوکھر ، افضل صاحب ( میرا پاکستان والے ) افتخار احمد بھوپال ، اردو دان اور بدتمیز اول ( ایم ایس این سپیس والے ) قابلِ ذکر ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اردو بلاگرز کی تحریروں کو میں پسند نہیں کرتا مگر قابلِ ذکر بلاگرز کی تحریروں میں ایک علیحدہ چاشنی ہے۔ان کی سب تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے اور خود کو نوچتا بھی۔
بدتمیز اول اور خاور کھوکھر کی حالیہ تحریریں پڑھیں لطف آ گیا۔خاصی تلخ تحریریں تھیں کوشش کی کہ دونوں کے بلاگ پر جا کر تبصرہ بھی کروں مگر دونوں کے بلاگ میری پہنچ سے باہر تھے۔بلاگ سپاٹ اب پی کے بلاگ سے بھی نہیں کھلتا شاید کہ پاکستان میں اس پراکسی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔اور ایم ایس این سپیس میرے جیسے غریب آدمی کے براؤزر کو ویسے ہی بلاک کر دیتی ہے۔
میرا ان دونوں دوستوں اور دوسرے بلاگ سپاٹ والے دوستوں کو یہ مشورہ ہے کہ برائے مہربانی کچھ پیسے ویسے خرچ کر کے اپنا کوئی انتظام کریں۔تاکہ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو کیونکہ آپ ہیں کہ آپ سب دوستوں کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنے جتن تو ہم نے کبھی کسی حسینہ کو منانے کے لئے نہیں کئے
پاکي بلاگ http://pakiblog.com
آپ کا بلاگ ان چند بلاگز میںسے ایک ہے جس کا پڑھنا میرے روز مرہ کے معمولات کا حصہ ہے۔ کچھ عرصے تو اردو بلاگ کے ذریعے اور اب اس یو آر ایل پر۔ لکھنے کو تو بے شک کئی لوگ بہت عمدہ لکھ رہے ہیں اور ان بلاگز نے ایک طرح کا توازن پیدا کر دیا ہے تنخواہ دار کالم نویسوں اور غیر جانب داربلاگرز کے درمیان مگر جو کچھ اس بلاگ پر میں پڑھتا ہوں اس کے بارے میں صرف یہ کہوں گا کے It makes sense اور جس طرح کی سیر حاصل گفتگو اور تبصرے یہاں پڑھنے کو ملتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور جگہ میں نے اب تک دیکھے ہیں۔
نسوار خان said,
in April 2nd, 2007 at
انتہا پسندی کا مرض اور علاج
ایک مکالمہ
(مریض کلینک میں داخل ہوکر ڈاکٹر کے پاس ایک اسٹول پر معائنے کی غرض سے بیٹھ جاتا ہے۔)
مریض-: السلام علیکم ڈاکٹر صاحب!
ڈاکٹر -: (مغرب کا دلدادہ اور روشن خیال)
Good Morning (صبح بخیر)۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! میں بہت بیمار رہنے لگا ہوں۔ برائے مہربانی میرا علاج فرمادیں۔
ڈاکٹر -: (چہرہ اور اثراتِ چہرہ نوٹ کرنے کے بعد)
تمہیں قوم ، ملت اور امت کا درد ہے۔ ‘’انتہا پسندی’’ کا ‘’بخار’’ اور ‘’دہشت گردی’’ کا ‘’السر’’ ہے لیکن فکر مت کرو میری دوائی سے تمہارا یہ درد ‘’بالکل ختم’’ ہوجائے گا۔ ویسے یہ امراض بہت ‘’خطرناک’’ ہیں۔
مریض-: (پریشان ہوکر) جناب کیا اس بیماری سے انسان مرجاتا ہے؟
ڈاکٹر -: جی نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنے ‘’خطرناک مریض’’ سے جراثیم دوسرے لوگوں کو منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ،لہٰذا ‘’حفظ ماتقدم’’ کے طور پر ‘’پروفیسر سام’’ کے حکم سے اس کو ‘’زمین بُرد’’ کردیا جاتا ہے۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! یہ ‘’پروفیسر سام’’ کون ہے؟
ڈاکٹر -: (ہنستے ہوئے) تم پروفیسر سام کو نہیں جانتے۔ یہ سات سمندر پار کا وہی پروفیسر ہے جو تمام دنیا کے سرکردہ ڈاکٹروں (حکمرانوں) کو تربیت ، حکم اور سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔
مریض-: جناب اس پروفیسر کے حکم کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر -: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) تم بہت انجان اور بھولے بھالے معلوم ہوتے ہو۔ لو پھر سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی ڈاکٹر پروفیسر صاحب کا حکم ماننے سے انکار کردے تو پروفیسر صاحب فوراً جان جاتے
(Diagnosis )
کرلیتے ہیں کہ اس ‘’ڈاکٹر’’ کو ‘’مریضوں’’ کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے ‘’انتہا پسندی کا بخار’’ اور ‘’ٹیررازم کا سرطان (Cancer)‘
ہوچکا ہے۔ جو مزید کئی ‘’ڈاکٹروں’’ کو منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا پروفیسر صاحب کے حکم پر اسے ‘’کروز فینک (Cruise Fenac)’’
کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔ حالت زیادہ خراب ہونے پر B-52 ایمبولینس’’ کے ذریعے ‘’پتھر ہسپتال’’ منتقل کیا جاسکتا ہے، لہٰذا فوری حکم مان لینا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔
مریض-: (تجسس سے) جناب کیا کبھی کسی ڈاکٹر نے پروفیسر سام کا حکم نہ ماننے کی جسارت کی ہے؟
ڈاکٹر -: جی ہاں۔ ہمارے ساتھ والے ‘’محلے’’ میں ‘’ڈاکٹر عمر’’ صاحب رہتے ہیں۔ ان کے ‘’محلے’’ میں پچھلے کئی سالوں سے اس ‘’بیماری’’ کے جراثیم ‘’خطرناک’’ حد تک بڑھ گئے تو پروفیسر سام کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ جراثیم ان کے ‘’محلے’’ تک نہ پہنچ جائیں ، لہٰذا بیماری کے تدارک کے لئے انہوں نے بار بار ‘’ڈاکٹر عمر’’ کو ‘’نسخہ’’ لکھ کر بھیجا۔ لیکن انہوں نے یہ ‘’نسخہ’’ استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً پروفیسر صاحب خود اس ‘’محلے’’ میں ‘’تشریف’’ لے آئے، تاکہ ‘’جہادی فالج’’ میں مبتلا ڈاکٹر اور اس کے محلے والوں کا علاج کیا جاسکے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ڈاکٹر عمر کی ‘’گستاخی’’ کی وجہ سے پروفیسر صاحب کو سات سمندر پار سے خود آنا پڑا۔
مریض-: تو کیا جناب وہ تمام مریض ٹھیک ہوگئے؟
ڈاکٹر -: نہیں۔ ان میں سے اکثر مریض ‘’پاگل’’ ہوگئے۔ انہوں نے پروفیسر صاحب کے ‘’میڈیکل کیمپ’’ پر حملے کئے اور ان کے کئی ‘’کمپاؤنڈروں (Dispensers)’’ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ بقیہ مریضوں کو ‘’Tab. MOM’’ کھلاکر سلادیا گیا۔
مریض-: بھلا ڈاکٹر عمر نے پروفیسر سام کا حکم کیوں نہ مانا؟
ڈاکٹر -: (آہ بھر کر) ‘’ڈاکٹر عمر’’ نے چھوٹی سی ‘’غلطی’’ کرکے اپنا ‘’محلہ’’ تباہ کروالیا۔ ہوا یوں کہ پروفیسر سام نے ‘’ڈاکٹر عمر’’ کو
“Syp Nifakoze” خود اور مریضوں کو استعمال کروانے کی ہدایت کی لیکن ڈاکٹر عمر نے اتنی ‘’کڑوی دوا’’ پینے اور پلانے سے انکار کردیا ، لہٰذا مجبوراً پروفیسر صاحب خود اس ‘’مقدس مشن’’ میں مصروف ہوگئے۔
مریض-: یہ تو ڈاکٹر عمر نے بہت برا کیا جو ‘’پروفیسر سام’’ کا کہنا نہ مانا۔
ڈاکٹر -: بالکل ٹھیک کہا تم نے۔ پروفیسر صاحب کا حکم نہ ماننا سراسر بے ادبی اور بے وقوفی ہے۔ یہ سب لوگ جو حکم نہیں مانتے ‘’گستاخ
(rude)’’ ہیں۔
مریض-: (اکتاکر) چھوڑیئے ڈاکٹر صاحب ان تمام باتوں کو۔ اب میرا علاج کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر -: آپ کا علاج سوفیصد (100%) ممکن ہے ،مگر آپ کو کچھ ادویات کا استعمال اور احتیاطیں کرنا ہوں گی تاکہ آپ مکمل صحت یاب ہوکر دنیا کی رنگینیوں سے لطف اٹھا سکیں۔
(ڈاکٹر نسخہ لکھ کر سمجھاتے ہوئے) یہ پیلی والی گولی
‘’( Tab.Modernofin500mg)’’ ہے جو آپ کو قوم اور ملت سمیت امت کے درد سے نجات دے گی۔یہ گولی تین بار کھانی ہے۔ یہ دوسری لال والی Anti jihadocine ہے جسے اینٹی فنڈامنٹلسٹ کیپسول فنڈالون
‘’( Cap. Fundalone1000mg)’’ کے ساتھ صبح شام لینا ہے۔اورہاں یہ یونانی شربت ‘’Syp. Roshan Khayaly’’
شربت ‘’روشن خیالی’’ چار چار گھنٹے پر ضروراستعمال کریں۔اس کا کوئی سائڈ ایفکٹ نہیں ہے ۔ ایک اور بات کا خاص دھیان رکھیں کہ آج کل بازار میں نقلی دوائیں بہت آگئی ہیں ۔لیکن ابھی بھی’’کمیونسٹو فارما سیوٹیکلز’’ (Communisto Pharmaceuticals)’’
کی دوائیں بہتر ہیں۔
مریض-: لیکن ڈاکٹر صاحب یہ دوائی ملے گی کہاں؟
ڈاکٹر -: (کلینک کے شیشے میں سے باہر اسٹور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) وہ سامنے ‘’بے غیرت کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ’’ ہے۔ اس کے بالکل ساتھ ‘’سیکولر میڈیکوز’’ہے ،وہاں آپ کو یہ دوائیں انتہائی آسانی سے مل جائیں گی۔ اگر پھر بھی مشکل پیش آئے تو میرا اسسٹنٹ باہر بیٹھا ہے جو آپ کی اچھی طرح رہنمائی کرے گا۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس اتنی ساری دوائی خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
ڈاکٹر -: احمق یہ دوائی روپے پیسے سے نہیں غیرت کے بدلے میں ملتی ہے۔
مریض-: (ہڑبڑاکر) یعنی آپ کا مطلب ہے کہ میں بے غیرت بن جاؤں !
(انتباہ کرتے ہوئے) کان کھول کر سن لیجئے ڈاکٹر صاحب! میں اسی ‘’بیماری’’ میں مرنا اعجاز سمجھوں گا لیکن میں اتنا بھولا بھالا بھی نہیں کہ بے غیرت بن کر جیؤں اور رہی بات پروفیسر سام کی تو میں اسے بھی خوب اچھی طرح ‘’دیکھ’’ لوں گا۔
(مریض نسخہ (Prescription) پھاڑ کر ڈاکٹر کی میز پر پھینکتا ہے اور بڑبڑاتا ہوا کلینک سے باہر نکل جاتا ہے۔
نسوار خان said,
in April 2nd, 2007 at
* [http://hakimkhalid.blogsome.comحکیم خالد ] کے بلاگ سے ماخوذ
عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اَن اللہ لیملی الظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ ثم قراء وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القریٰ وھی ظالمۃ الاٰیۃ متفق علیہ
ترجمہ
حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب اسے پکڑے گا تو ہر گز نہ چھوڑے گا پھر آپ نے تلاوت فرمائی : تیرے رب کی پکڑ اسی طرحہے کہ بستیوں کو جب پکڑتا ہے جب وہ ظالم ہوتی ہیں ‘‘
( بخاری ومسلم )
بقلم تنویر عالم قاسمی
پاکستان میں ایمرجنسی کے اسباب . . . . . کیا یہ صحیح ہیں ؟ ؟ ؟
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے نام پر رکھی گئی ہے، اس کا اصلی نام “ اسلامی جمہویہ پاکستان ،،ہے اس کی بنیاد میں ان بے گناہ لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے جو تقسیم ہند کے وقت فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوے تھے۔ ہماری گذشتہ نسل نے اپنے جگر کے ٹکڑوں ، گھر اور اپنے اثاثوں کے درمیان ایک لکیر کھینچتے ہوے خاموشی سے دیکھی تھی ، اپنے ہی جسم کو بوٹیوں میں بٹنے کی تکلیف برداشت کی سرحد کے آر پار تقسیم کا خونی منظر اسلئے دیکھا کیوں کہ وہ سمجھتے کہ پاکستان کی شکل میں ایک ایسا ملک وجود میں آنے والا ہے جو اسلامی قوانین ، شریعت محمدی ، اور آئین خدا وندی کا نفاذ کرکے دنیا کے سامنے ایک ایسی مملکت کا خاکہ پیش کریگاجس میں صرف اور صرف اسلام ہوگا، اسلام کی جھلک ہوگی ، ساری دنیا میں ایک انمول نمونہ بنے گا اور اسلام کی ایک نئی اور خوشنما تاریخ مرتب ہوگی۔ انہیں امیدوں کے سہارے اپنی بسی بسائی دنیا اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ کر اپنے خوابیدہ وطن پاکستان پہنچ گئے، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اب ہمیشہ کی فرقہ وارانہ کشیدگی ،آپسی اختلافات اور خون خرابے سے نجات مل جائے گی لیکن پا کستا ن کی 60 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پا کستان پہنچنے پر معاملہ اس کے برعکس تھا اب وہ ایک مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ کہیں وہ بنگالی مسلم تھے ،کہیں سندھی ،کہیں پنجابی ،کہیں پختون ،اور کہیں مہاجر۔
ہندوستان سے زخم کھاکرجانے والوں کا زخم مندمل ہونے کی بجائے اور زیادہ تازہ ہوگیا اسی زخم کو ناسور بنایا پاکستان کی مطلق العنان فوج اور وہاں کی کرسی کے بھوکے سیاسی آمروں نے، جس کی وجہ سے آج تک وہاں کی عوام نے نہ تو اسلامی نظام ہی دیکھا اور نہ ہی اصلی جمہوریت کا کھل کر مزہ لیا، فوجی جرنلوں اور سیاسی آمروں نے پاکستان کی عوام کو ہمیشہ اسلام اور اسلامی جمہوریت کے نام پرگمراہ کیا،فوج ہو یا عوامی رہنما سب نے ہی پاکستان کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا اور بعد میں چبائی ہوی ہڈی کی طرح پھینک دیا،اسی کی ایک جھلک گذشتہ چند دنوں سے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کا اعلان ہے۔
بہر حال یہ تو پاکستان کا داخلی معاملہ ہے جس پر ہمیں کچھ کہنے کی زیادہ گنجائش نہیں ، لیکن سردست پرویزمشرف کے اس فیصلہ سے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ مشرف نے اپنے حکم اورفیصلہ میں نفاذ ایمرجنسی کے اسباب میں سے ایک اہم اور خاص سبب“ اسلامی دہشت گردی “بتایا ہے، اس طرح مشرف نے اسلام مخالف قوتوں اور خصوصا امریکہ اور ہندوستان کی بدنام زمانہ گروہوں R.S.S، بجرنگ دل اور شیوسینکوں جیسی مکروہ ذہن رکھنے والی گروہوں کو جو پہلے ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ایک قوی سند اور دلیل پیش فراہم کردیا۔
اس وقت جو تشویش ناک امر ہے وہ یہ ہے کہ اسلام مخالف قوتیں جو ہمیشہ سے دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی ناپاک کوششیں کررہی ہیں ، ایک مضبوط مسلم ملک کے سر براہ کے ذریعہ دہشت گردی کے خلاف لئے گئے فیصلہ میں “ اسلامی دہشت گردی “ کے الفاظ استعمال کرانے میں یہ اسلام مخالف طاقتیں کامیاب ہوگئیں اور گویا ان طاقتوں نے ایک طرح سے مسلم ملک کے حکمراں کی باضابطہ اپنے نظریہ کی حمایت قانونی اور دستوری طورپرحاصل کرلی ، پاکستان کے صدر کیزبان و عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ھے کہ جنرل پرویز مشرف نظریاتی اورعملی طورپرامریکہ کے دام فریب میں گرفتار ہوگیا ہے۔
پرویز مشرف نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر ایک تاریخی غلطی کی ہے جس کے لئے پرویزمشرف کو مسلمانان عالم سے معافی مانگنی چاہئے ، دہشت گردی کے ساتھ “ اسلام“ کے لفظ کا استعمال استعمال کرکے پرویز مشرف نے مسلمانان عالم کو سخت ایذا پہنچائی ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل مسلمانان عالم کے نزدیک ہمیشہ اسلام مخالف تصور کیا جاتا رہیگا اور ان کی تاریخ حیات میں یہ فیصلہ ایسے سیاہ فیصلہ کی شکل میں درج ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔ tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
Address: http://www.inikah.com
Address:# 42 , Nandi Durga Road ,Bangalore-46 India
Mob:919945631954
Leave A Reply
سروے
کیا جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت میں توسیع کر دینی چاہیے۔
10 users commented in " تبصرے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآخری زمانہ کے لئے آنحضرت کاخطبہٴ گرامی:
ترجمہ :
جابرابن عبداللہ انصاری نےروایت کی ہے کہ میں نے جناب رسول مختارکے ساتھ حجۃ الوداع میں حج کیا۔ جب پیغمبراعمال حج سے فارغ ہوئے توآپ نے فرمایا ”ایھاالناس ! آج یقینا میں کعبہ کوالوداع کہہ رہاہوں اس کے بعد کعبہ کے درکوحلقہ کیااورباآوازبلندلوگوں کو پکارا۔ تمام اہل مسجدجمع ہوگئے۔ اوربازا ر والے بھی آگئے اس وقت آپ نے فارمایا کہ جوکچھ میں تم سے کہناچاہتاہوں اس کو سنو اورجو موجودنہ ہوں ان تک پہنچادو۔ اس کے بعدآپ نے رونا شروع کیا۔ جس سے تمام حاضرین بھی رونے لگے۔ پھرآپ نے ارشادفارمایا۔ اے لوگو ! خداتم پر رحمت فرمائے۔ تم اس زمانے میں مثل اس درخت کے پتے کے ہو ۔جس کے درمیان کوئی کانٹا نہ ہو۔ اورچالیس سال تک یہی یہ حالت رہے گی ۔ اس کے بعددوسال تک پتے اورکانٹیں ملے جلے ہوں گے پھراس کے بعد کانٹیں نظرآئیں گے جس میں پتہ نہ ہوگا ۔“اور وہ ا یسے لوگ ہوں گے جن میں نہ نظرآئیں گے مگرستمگربادشاہ ،کنجوس مالدار،مال کی طرف رغبت کرنے والے علماء جھوٹے فقیر۔ اس کے بعدآپ نے پھرگریہ شروع کردیا۔تب سلمان اٹھے اورعرض کیا یارسول اللہ یہ سب کس وقت ہوگا۔ حضرت نے جواب دیا۔ اے سلمان یہ اس وقت ہوگا جب علماء کم ہوجائیں گے ۔ زکواة دینابندہوگا۔ انکارکرنے والے ظاہرہوں گے ۔مسجدوں میں آوازیں بلندہوں گی۔ دنیاکو بالائے سراورعلم کوزیرقدم قراردیاجائے گا۔ خودآپس کی گفتگو میں تکذیب کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی محفلوں میں جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ ایک دوسرے کی غیبت کا شیوہ ہوگا۔ حرام کوغنیمت سمجھاجائے گا۔ بڑاچھوٹے پررحم نہ کرے گا۔ اورچھوٹابزرگ کااحترام پیش نظرنہ رکھے گا۔ پس اس وقت ان پر لعنت ہوگی۔ ان کے درمیان دشمن پیداہوجائیں گے۔ دین اسلام میں لفظ اسلام کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ اس وقت انتظارکرنا چاہئے سرخ ہواؤں کے چلنے ۔آسمان سے پتھر برسنے یا چہروں کے مسخ ہوجانے اورزمین کے دھنس جانے کا۔ اوراس امرکی تصدیق خداوندعالم کے اس قول سے ہوتی ہے کہ جوکتاب خدا میں موجود ہے ۔
(قل ھوالقادرعلی ان بیعت علیکم عذابا من فوقکم اومن تحت ارجلکم ویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض انظرکیف نصرف الایات لعلھم یفقھون(
اس وقت جبکہ بعض اصحاب نے پھرعرض کی یارسول اللہ یہ سب کچھ کب ہوگا ؟ تب فرمایا اس وقت جبکہ نمازوں کوپس پشت ڈال دیاجائے گا۔ شہوتوں کی پیروی کی جائے گی۔ مختلف قسم کے قہوے پئے جائیں گے چائے ،کافی ،قہوہ وغیرہ۔ ماں باپ کوگالیاں دی جائیں گی۔ مرد ا پنی عورت کے احکام پرعمل کریں گے۔ہمسایہ ہمسایہ پرظلم کرے گا۔ بزرگوں کے دل سے رحم جاتارہے گا۔ بچوں میں شرم کم ہوجائے گی ۔مکانوں کی بنیادیں محکم رکھی جائیں گی۔ غلاموں اورکنیزوں پرظلم کیاجائے گا۔ نفس کی خواہش کی وجہ سے گواہے ظلم وستم سے حکمرانی ہوگی بھائی سے بھائی حسدکرے گا۔شرکاء خیانت کریں گے۔ وفا کم ہوجائے گی۔ زناکھلم کھلاکیا جائے گا۔ مرد ، عورتوں کے کپڑوں سے زینت کریں گے ۔عورتیں بے حیا ہوں گی۔ اورحیاکا مقنع عورتوں سے دورہوجائےگا۔ لوگوں کے دل تکبرسے بھرپورہوں گے۔ احسان کم اورحرام کاری ظاہرہوگی۔ گناہان کبیرہ آسان سمجھے جائیں گے لوگ مال کی وجہ سے طالب مدح ہوں گے۔ مال بکثرت گانے بجانے میں صرف کیاجائے گا۔ (سینما وغیرہ ) آخرت کی مطلق فکرنہ ہوگی۔ لوگ صرف دنیامیں مشغول ہوں گے۔ پرہیزگاری کم اورلالچ زیادہ، فتنے اورپریشانیاں بہت ہوجائیں گی۔ مومن ذلیل ،منافق عزیرسمجھاجائے گا۔ مسجدیں اذانوں کی آوازسے معمورہوں گی مگر دل ایمان سے خالی ہوں گے۔ قرآن کوہلکا سمجھاجائے گا۔ چہرے انسانوں کی مثل مگردل شیطانوں کی مثل ہوں گے۔ جیساکہ خداوندعالم کاارشادہے کہ مجھے دھوکادیتے ہیں افحسبتم انماخلقناکم عبثاانکم الیناترجعون الخ ) ” کیاتم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں بیکارپیداکیاہے اورتم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں ہو۔ مجھے قسم ہے اپنے عزوجلال کی کہ اگرتمہارے درمیان پرہیزگار اورمیری عبادت کرنے والے لوگ نہ ہوتے تو یقینا میں تم پربارش کا ایک قطرہ بھی نہ برساتا اورزمین پرگھاس کاایک تنکابھی نہ اگاتا تعجب ہے ان لوگوں پرجن کے مال ، ان کے خدا ہیں اورامیدیں دراز لیکن عمریں کوتاہ۔ وہ اپنے مقاصدتک پہونچنے کا لالچ کرتے ہیں۔ مگر وہ بغیرعمل کے نہیں پہنچ سکتے۔ اورعمل بغیرعقل کے نہیں کیاجاسکتا ۔
پھرفرمایا لوگوں وہ زمانہ آنے والاہے جب کہ ان کے پیٹ ان کے خداہوں گے (پرستش شکم ہوگی )۔ یعنی صرف اس کی فکرمیں غرق ہوں گے۔ اوران کی عورتیں ان کاقبلہ وکعبہ ہوں گی۔ اوران کے پیسے اورمال ان کادین ہوں گے۔ ان کے درمیان علاوہ لفظی اسلام وایمان کے کچھ باقی نہ ہوگا۔ قرآن کاصرف درس ہوگا۔ مسجدیں معمورہوں گی مگردل ہدایت سے خالی ہوں گے یعنی وہ لوگ مطلق ہدایت یافتہ نہ ہوں گے ۔ (اوعلمائھم اشرخلق اللہ فی وجہ الارض ) ۔ یعنی ان کے زمانہ کے علماء مخلوقات میں سب سے زیادہ شریرہوں گے ۔اس وقت خداوندعالم ان کوچارچیزوں میں مبتلاکرے گا (۱) بادشاہوں کے جوروستم (۲) قحط (۳) حاکموں و سرداروں کے ظلم (۴) بتوں کی پرستش میں ۔ صحابہ نے یہ سن کرتعجب کیااورعرض کی یارسول اللہ مسلمان ہوکربتوں کی پرستش ؟ کیسے ہوگی ؟ آپ نے فرمایا ان کے نزدیک روپیہ ایک بت ہوگا۔
نوٹ : اگرحضور دماغ وخلوص قلب سے اس خطبہ کامطالعہ کیاجائے توکیا دل بے ساختہ یہ گواہی نہ دے گا کہ تقریبا چودہ سو سال قبل جوکچھ حضور اکرم(ص) نے ارشادفرمایاتھا وہ آج لفظ بہ لفظ پوراہورہاہے گویاحضورکی نگاہ پیغمبری اس معاشرے کومکمل طرح سے ملاحظہ فرمارہی تھی ۔
اگر یہ شایع ھوگیا تو باقی انشاءاللہ ایندہ
پاکستان کا جمھوری سٹال
اگر آپ آج کے پاکستان کو عالمی جمہوری میلے کی نمائش میں سٹال تصور کر سکیں تو مجھے اپنی بات کہنے میں کچھ آسانی ہوجائے گی۔
آئیے کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ پاکستانی سٹال کی جانب ۔
سامنے کی دیوار پر قائد اعظم کی پورٹریٹ لٹکی ہوئی ہے اور اس کے نیچے تین نعرے ہیں۔ اتحاد ، تنظیم ، یقینِ محکم۔ اس تصویر کا مصرف یہی ہے کہ اس کے نیچے یہ تینوں نعرے درج ہو سکیں۔
تصویر کے دائیں، بائیں اوپر نیچے رائفلز ٹنگی ہوئی نظر آ رہی ہیں ، یہ جی تھری رائفلز ہیں اور کام بھی اکثر یہیں آتی ہیں۔
کیا آپ کبھی پرانے شکاریوں کے ڈرائنگ رومز میں گئے ہیں ؟
اکثر ان ڈرائنگ رومز کی کسی ایک دیوار پر بطور ٹرافی ہنوط شدہ بارہ سنگھے کا سر ایک لکڑی کی پلیٹ پے نصب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح آپ کو پاکستان کے اس جمہوری سٹال کی بائیں دیوار پے تیرہ محفوظ کیے گئے سر قطار سے لگے ہوئے نظر آ رہے ہوں گے ۔
یہ پچھلے اٹھاون برس میں جمع کی گئی ٹرافیاں ہیں اور یہ سب کے سب سر وزراء اعظم کے ہیں جو اقتدار کی زہرخورانی کا شکار ہو گئے ۔ ان سروں کو محفوظ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جمہوری رہنما آج بھی ہمیں کتنے یاد اور عزیز ہیں۔ یہ محفوظ سر اس نمائش میں اسلام آباد کے قومی میوزیم سے بطور خاص لائے گئے ہیں۔
اور یہ سامنے کے کاؤنٹر پے ایک سفید رنگ کی عمارت کا ماڈل بھی رکھا ہوا ہے۔ اس عمارت کا نام ہے پارلیمنٹ جو پاکستانی جمہوریت کا سمبل ہے۔ اس کا مصرف یہ ہے کہ ہر چند سال بعد اس میں ڈھائی تین سو افراد جمع ہو کے شوروغل کرتے ہیں اور پھر ان کی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں۔
اور اس کاؤنٹر پے یہ جو آپ کو ایک چوڑے چکلے سینے والے چابک دست سے صاحب نظر آ رہے ہیں یہی اس سٹال کے منتظم اور روحِ رواں ہیں۔ ان کے دائیں جانب آپ کو دو فون سیٹ دکھائی دے رہے ہوں گے۔ لیکن یہ کوئی عام فون نہیں بلکہ دو ہاٹ لائنیں ہیں ۔ سرخ فون پر صرف باہر سے کال آتی ہے اور سبز فون سے صرف راولپنڈی بات ہو سکتی ہے۔
ان کے برابر میں یہ جو آپ کو ایک اکیلا سا مائکرو فون دکھائی دے رہا ہے ایسے مائیکرو فون ہماری پارلیمنٹ کی بنچوں پے درجنوں کی تعداد میں نصب ہیں۔ اور آج کل کام بھی کر رہے ہیں۔
تو یہ ہے اس جمہوری سٹال کا مختصر تعارف ۔
اب اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو سٹال کے منتظم کو اس کا جواب دینے میں خوشی ہوگی۔ تو کیجیے سوال۔
جیت کر یہ الیکشن پاکستان کے سب فنڈز میرے ھیں
اور ان غریبوں کی قسمت میں فقط پھرے ھیں
یھی خواہش ہے کہ اک بار بن جاوں میں ایم این اے
یہ جہاں چیز ہے کیا سب لوح وقلم میرے ھیں
اردو بلاگرز
ویسے تو سارے اردو بلاگرز اپنی مثال آپ ہیں اور سب کی تحریریں لاجواب بھی ہوتی ہیں مگر ان میں سے کچھ بلاگرز کی تحریروں کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ ان میں سے خاور کھوکھر ، افضل صاحب ( میرا پاکستان والے ) افتخار احمد بھوپال ، اردو دان اور بدتمیز اول ( ایم ایس این سپیس والے ) قابلِ ذکر ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اردو بلاگرز کی تحریروں کو میں پسند نہیں کرتا مگر قابلِ ذکر بلاگرز کی تحریروں میں ایک علیحدہ چاشنی ہے۔ان کی سب تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے اور خود کو نوچتا بھی۔
بدتمیز اول اور خاور کھوکھر کی حالیہ تحریریں پڑھیں لطف آ گیا۔خاصی تلخ تحریریں تھیں کوشش کی کہ دونوں کے بلاگ پر جا کر تبصرہ بھی کروں مگر دونوں کے بلاگ میری پہنچ سے باہر تھے۔بلاگ سپاٹ اب پی کے بلاگ سے بھی نہیں کھلتا شاید کہ پاکستان میں اس پراکسی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔اور ایم ایس این سپیس میرے جیسے غریب آدمی کے براؤزر کو ویسے ہی بلاک کر دیتی ہے۔
میرا ان دونوں دوستوں اور دوسرے بلاگ سپاٹ والے دوستوں کو یہ مشورہ ہے کہ برائے مہربانی کچھ پیسے ویسے خرچ کر کے اپنا کوئی انتظام کریں۔تاکہ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو کیونکہ آپ ہیں کہ آپ سب دوستوں کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنے جتن تو ہم نے کبھی کسی حسینہ کو منانے کے لئے نہیں کئے
اردو بلاگرز
ویسے تو سارے اردو بلاگرز اپنی مثال آپ ہیں اور سب کی تحریریں لاجواب بھی ہوتی ہیں مگر ان میں سے کچھ بلاگرز کی تحریروں کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ ان میں سے خاور کھوکھر ، افضل صاحب ( میرا پاکستان والے ) افتخار احمد بھوپال ، اردو دان اور بدتمیز اول ( ایم ایس این سپیس والے ) قابلِ ذکر ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اردو بلاگرز کی تحریروں کو میں پسند نہیں کرتا مگر قابلِ ذکر بلاگرز کی تحریروں میں ایک علیحدہ چاشنی ہے۔ان کی سب تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے اور خود کو نوچتا بھی۔
بدتمیز اول اور خاور کھوکھر کی حالیہ تحریریں پڑھیں لطف آ گیا۔خاصی تلخ تحریریں تھیں کوشش کی کہ دونوں کے بلاگ پر جا کر تبصرہ بھی کروں مگر دونوں کے بلاگ میری پہنچ سے باہر تھے۔بلاگ سپاٹ اب پی کے بلاگ سے بھی نہیں کھلتا شاید کہ پاکستان میں اس پراکسی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔اور ایم ایس این سپیس میرے جیسے غریب آدمی کے براؤزر کو ویسے ہی بلاک کر دیتی ہے۔
میرا ان دونوں دوستوں اور دوسرے بلاگ سپاٹ والے دوستوں کو یہ مشورہ ہے کہ برائے مہربانی کچھ پیسے ویسے خرچ کر کے اپنا کوئی انتظام کریں۔تاکہ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو کیونکہ آپ ہیں کہ آپ سب دوستوں کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنے جتن تو ہم نے کبھی کسی حسینہ کو منانے کے لئے نہیں کئے
پاکي بلاگ
http://pakiblog.com
آپ کا بلاگ ان چند بلاگز میںسے ایک ہے جس کا پڑھنا میرے روز مرہ کے معمولات کا حصہ ہے۔ کچھ عرصے تو اردو بلاگ کے ذریعے اور اب اس یو آر ایل پر۔ لکھنے کو تو بے شک کئی لوگ بہت عمدہ لکھ رہے ہیں اور ان بلاگز نے ایک طرح کا توازن پیدا کر دیا ہے تنخواہ دار کالم نویسوں اور غیر جانب داربلاگرز کے درمیان مگر جو کچھ اس بلاگ پر میں پڑھتا ہوں اس کے بارے میں صرف یہ کہوں گا کے It makes sense اور جس طرح کی سیر حاصل گفتگو اور تبصرے یہاں پڑھنے کو ملتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور جگہ میں نے اب تک دیکھے ہیں۔
انتہا پسندی کا مرض اور علاج
ایک مکالمہ
(مریض کلینک میں داخل ہوکر ڈاکٹر کے پاس ایک اسٹول پر معائنے کی غرض سے بیٹھ جاتا ہے۔)
مریض-: السلام علیکم ڈاکٹر صاحب!
ڈاکٹر -: (مغرب کا دلدادہ اور روشن خیال)
Good Morning (صبح بخیر)۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! میں بہت بیمار رہنے لگا ہوں۔ برائے مہربانی میرا علاج فرمادیں۔
ڈاکٹر -: (چہرہ اور اثراتِ چہرہ نوٹ کرنے کے بعد)
تمہیں قوم ، ملت اور امت کا درد ہے۔ ‘’انتہا پسندی’’ کا ‘’بخار’’ اور ‘’دہشت گردی’’ کا ‘’السر’’ ہے لیکن فکر مت کرو میری دوائی سے تمہارا یہ درد ‘’بالکل ختم’’ ہوجائے گا۔ ویسے یہ امراض بہت ‘’خطرناک’’ ہیں۔
مریض-: (پریشان ہوکر) جناب کیا اس بیماری سے انسان مرجاتا ہے؟
ڈاکٹر -: جی نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنے ‘’خطرناک مریض’’ سے جراثیم دوسرے لوگوں کو منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ،لہٰذا ‘’حفظ ماتقدم’’ کے طور پر ‘’پروفیسر سام’’ کے حکم سے اس کو ‘’زمین بُرد’’ کردیا جاتا ہے۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! یہ ‘’پروفیسر سام’’ کون ہے؟
ڈاکٹر -: (ہنستے ہوئے) تم پروفیسر سام کو نہیں جانتے۔ یہ سات سمندر پار کا وہی پروفیسر ہے جو تمام دنیا کے سرکردہ ڈاکٹروں (حکمرانوں) کو تربیت ، حکم اور سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔
مریض-: جناب اس پروفیسر کے حکم کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر -: (کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) تم بہت انجان اور بھولے بھالے معلوم ہوتے ہو۔ لو پھر سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی ڈاکٹر پروفیسر صاحب کا حکم ماننے سے انکار کردے تو پروفیسر صاحب فوراً جان جاتے
(Diagnosis )
کرلیتے ہیں کہ اس ‘’ڈاکٹر’’ کو ‘’مریضوں’’ کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے ‘’انتہا پسندی کا بخار’’ اور ‘’ٹیررازم کا سرطان (Cancer)‘
ہوچکا ہے۔ جو مزید کئی ‘’ڈاکٹروں’’ کو منتقل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا پروفیسر صاحب کے حکم پر اسے ‘’کروز فینک (Cruise Fenac)’’
کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔ حالت زیادہ خراب ہونے پر B-52 ایمبولینس’’ کے ذریعے ‘’پتھر ہسپتال’’ منتقل کیا جاسکتا ہے، لہٰذا فوری حکم مان لینا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔
مریض-: (تجسس سے) جناب کیا کبھی کسی ڈاکٹر نے پروفیسر سام کا حکم نہ ماننے کی جسارت کی ہے؟
ڈاکٹر -: جی ہاں۔ ہمارے ساتھ والے ‘’محلے’’ میں ‘’ڈاکٹر عمر’’ صاحب رہتے ہیں۔ ان کے ‘’محلے’’ میں پچھلے کئی سالوں سے اس ‘’بیماری’’ کے جراثیم ‘’خطرناک’’ حد تک بڑھ گئے تو پروفیسر سام کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ جراثیم ان کے ‘’محلے’’ تک نہ پہنچ جائیں ، لہٰذا بیماری کے تدارک کے لئے انہوں نے بار بار ‘’ڈاکٹر عمر’’ کو ‘’نسخہ’’ لکھ کر بھیجا۔ لیکن انہوں نے یہ ‘’نسخہ’’ استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً پروفیسر صاحب خود اس ‘’محلے’’ میں ‘’تشریف’’ لے آئے، تاکہ ‘’جہادی فالج’’ میں مبتلا ڈاکٹر اور اس کے محلے والوں کا علاج کیا جاسکے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ڈاکٹر عمر کی ‘’گستاخی’’ کی وجہ سے پروفیسر صاحب کو سات سمندر پار سے خود آنا پڑا۔
مریض-: تو کیا جناب وہ تمام مریض ٹھیک ہوگئے؟
ڈاکٹر -: نہیں۔ ان میں سے اکثر مریض ‘’پاگل’’ ہوگئے۔ انہوں نے پروفیسر صاحب کے ‘’میڈیکل کیمپ’’ پر حملے کئے اور ان کے کئی ‘’کمپاؤنڈروں (Dispensers)’’ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ بقیہ مریضوں کو ‘’Tab. MOM’’ کھلاکر سلادیا گیا۔
مریض-: بھلا ڈاکٹر عمر نے پروفیسر سام کا حکم کیوں نہ مانا؟
ڈاکٹر -: (آہ بھر کر) ‘’ڈاکٹر عمر’’ نے چھوٹی سی ‘’غلطی’’ کرکے اپنا ‘’محلہ’’ تباہ کروالیا۔ ہوا یوں کہ پروفیسر سام نے ‘’ڈاکٹر عمر’’ کو
“Syp Nifakoze” خود اور مریضوں کو استعمال کروانے کی ہدایت کی لیکن ڈاکٹر عمر نے اتنی ‘’کڑوی دوا’’ پینے اور پلانے سے انکار کردیا ، لہٰذا مجبوراً پروفیسر صاحب خود اس ‘’مقدس مشن’’ میں مصروف ہوگئے۔
مریض-: یہ تو ڈاکٹر عمر نے بہت برا کیا جو ‘’پروفیسر سام’’ کا کہنا نہ مانا۔
ڈاکٹر -: بالکل ٹھیک کہا تم نے۔ پروفیسر صاحب کا حکم نہ ماننا سراسر بے ادبی اور بے وقوفی ہے۔ یہ سب لوگ جو حکم نہیں مانتے ‘’گستاخ
(rude)’’ ہیں۔
مریض-: (اکتاکر) چھوڑیئے ڈاکٹر صاحب ان تمام باتوں کو۔ اب میرا علاج کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر -: آپ کا علاج سوفیصد (100%) ممکن ہے ،مگر آپ کو کچھ ادویات کا استعمال اور احتیاطیں کرنا ہوں گی تاکہ آپ مکمل صحت یاب ہوکر دنیا کی رنگینیوں سے لطف اٹھا سکیں۔
(ڈاکٹر نسخہ لکھ کر سمجھاتے ہوئے) یہ پیلی والی گولی
‘’( Tab.Modernofin500mg)’’ ہے جو آپ کو قوم اور ملت سمیت امت کے درد سے نجات دے گی۔یہ گولی تین بار کھانی ہے۔ یہ دوسری لال والی Anti jihadocine ہے جسے اینٹی فنڈامنٹلسٹ کیپسول فنڈالون
‘’( Cap. Fundalone1000mg)’’ کے ساتھ صبح شام لینا ہے۔اورہاں یہ یونانی شربت ‘’Syp. Roshan Khayaly’’
شربت ‘’روشن خیالی’’ چار چار گھنٹے پر ضروراستعمال کریں۔اس کا کوئی سائڈ ایفکٹ نہیں ہے ۔ ایک اور بات کا خاص دھیان رکھیں کہ آج کل بازار میں نقلی دوائیں بہت آگئی ہیں ۔لیکن ابھی بھی’’کمیونسٹو فارما سیوٹیکلز’’ (Communisto Pharmaceuticals)’’
کی دوائیں بہتر ہیں۔
مریض-: لیکن ڈاکٹر صاحب یہ دوائی ملے گی کہاں؟
ڈاکٹر -: (کلینک کے شیشے میں سے باہر اسٹور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) وہ سامنے ‘’بے غیرت کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ’’ ہے۔ اس کے بالکل ساتھ ‘’سیکولر میڈیکوز’’ہے ،وہاں آپ کو یہ دوائیں انتہائی آسانی سے مل جائیں گی۔ اگر پھر بھی مشکل پیش آئے تو میرا اسسٹنٹ باہر بیٹھا ہے جو آپ کی اچھی طرح رہنمائی کرے گا۔
مریض-: ڈاکٹر صاحب! میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس اتنی ساری دوائی خریدنے کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
ڈاکٹر -: احمق یہ دوائی روپے پیسے سے نہیں غیرت کے بدلے میں ملتی ہے۔
مریض-: (ہڑبڑاکر) یعنی آپ کا مطلب ہے کہ میں بے غیرت بن جاؤں !
(انتباہ کرتے ہوئے) کان کھول کر سن لیجئے ڈاکٹر صاحب! میں اسی ‘’بیماری’’ میں مرنا اعجاز سمجھوں گا لیکن میں اتنا بھولا بھالا بھی نہیں کہ بے غیرت بن کر جیؤں اور رہی بات پروفیسر سام کی تو میں اسے بھی خوب اچھی طرح ‘’دیکھ’’ لوں گا۔
(مریض نسخہ (Prescription) پھاڑ کر ڈاکٹر کی میز پر پھینکتا ہے اور بڑبڑاتا ہوا کلینک سے باہر نکل جاتا ہے۔
* [http://hakimkhalid.blogsome.comحکیم خالد ] کے بلاگ سے ماخوذ
Nice work
عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اَن اللہ لیملی الظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ ثم قراء وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القریٰ وھی ظالمۃ الاٰیۃ متفق علیہ
ترجمہ
حضرت ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب اسے پکڑے گا تو ہر گز نہ چھوڑے گا پھر آپ نے تلاوت فرمائی : تیرے رب کی پکڑ اسی طرحہے کہ بستیوں کو جب پکڑتا ہے جب وہ ظالم ہوتی ہیں ‘‘
( بخاری ومسلم )
بقلم تنویر عالم قاسمی
پاکستان میں ایمرجنسی کے اسباب . . . . . کیا یہ صحیح ہیں ؟ ؟ ؟
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں کے نام پر رکھی گئی ہے، اس کا اصلی نام “ اسلامی جمہویہ پاکستان ،،ہے اس کی بنیاد میں ان بے گناہ لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے جو تقسیم ہند کے وقت فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوے تھے۔ ہماری گذشتہ نسل نے اپنے جگر کے ٹکڑوں ، گھر اور اپنے اثاثوں کے درمیان ایک لکیر کھینچتے ہوے خاموشی سے دیکھی تھی ، اپنے ہی جسم کو بوٹیوں میں بٹنے کی تکلیف برداشت کی سرحد کے آر پار تقسیم کا خونی منظر اسلئے دیکھا کیوں کہ وہ سمجھتے کہ پاکستان کی شکل میں ایک ایسا ملک وجود میں آنے والا ہے جو اسلامی قوانین ، شریعت محمدی ، اور آئین خدا وندی کا نفاذ کرکے دنیا کے سامنے ایک ایسی مملکت کا خاکہ پیش کریگاجس میں صرف اور صرف اسلام ہوگا، اسلام کی جھلک ہوگی ، ساری دنیا میں ایک انمول نمونہ بنے گا اور اسلام کی ایک نئی اور خوشنما تاریخ مرتب ہوگی۔ انہیں امیدوں کے سہارے اپنی بسی بسائی دنیا اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ کر اپنے خوابیدہ وطن پاکستان پہنچ گئے، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اب ہمیشہ کی فرقہ وارانہ کشیدگی ،آپسی اختلافات اور خون خرابے سے نجات مل جائے گی لیکن پا کستا ن کی 60 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پا کستان پہنچنے پر معاملہ اس کے برعکس تھا اب وہ ایک مسلمان ہی نہیں تھے بلکہ کہیں وہ بنگالی مسلم تھے ،کہیں سندھی ،کہیں پنجابی ،کہیں پختون ،اور کہیں مہاجر۔
ہندوستان سے زخم کھاکرجانے والوں کا زخم مندمل ہونے کی بجائے اور زیادہ تازہ ہوگیا اسی زخم کو ناسور بنایا پاکستان کی مطلق العنان فوج اور وہاں کی کرسی کے بھوکے سیاسی آمروں نے، جس کی وجہ سے آج تک وہاں کی عوام نے نہ تو اسلامی نظام ہی دیکھا اور نہ ہی اصلی جمہوریت کا کھل کر مزہ لیا، فوجی جرنلوں اور سیاسی آمروں نے پاکستان کی عوام کو ہمیشہ اسلام اور اسلامی جمہوریت کے نام پرگمراہ کیا،فوج ہو یا عوامی رہنما سب نے ہی پاکستان کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا اور بعد میں چبائی ہوی ہڈی کی طرح پھینک دیا،اسی کی ایک جھلک گذشتہ چند دنوں سے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کا اعلان ہے۔
بہر حال یہ تو پاکستان کا داخلی معاملہ ہے جس پر ہمیں کچھ کہنے کی زیادہ گنجائش نہیں ، لیکن سردست پرویزمشرف کے اس فیصلہ سے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ مشرف نے اپنے حکم اورفیصلہ میں نفاذ ایمرجنسی کے اسباب میں سے ایک اہم اور خاص سبب“ اسلامی دہشت گردی “بتایا ہے، اس طرح مشرف نے اسلام مخالف قوتوں اور خصوصا امریکہ اور ہندوستان کی بدنام زمانہ گروہوں R.S.S، بجرنگ دل اور شیوسینکوں جیسی مکروہ ذہن رکھنے والی گروہوں کو جو پہلے ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ایک قوی سند اور دلیل پیش فراہم کردیا۔
اس وقت جو تشویش ناک امر ہے وہ یہ ہے کہ اسلام مخالف قوتیں جو ہمیشہ سے دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی ناپاک کوششیں کررہی ہیں ، ایک مضبوط مسلم ملک کے سر براہ کے ذریعہ دہشت گردی کے خلاف لئے گئے فیصلہ میں “ اسلامی دہشت گردی “ کے الفاظ استعمال کرانے میں یہ اسلام مخالف طاقتیں کامیاب ہوگئیں اور گویا ان طاقتوں نے ایک طرح سے مسلم ملک کے حکمراں کی باضابطہ اپنے نظریہ کی حمایت قانونی اور دستوری طورپرحاصل کرلی ، پاکستان کے صدر کیزبان و عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ھے کہ جنرل پرویز مشرف نظریاتی اورعملی طورپرامریکہ کے دام فریب میں گرفتار ہوگیا ہے۔
پرویز مشرف نے اپنے فیصلہ میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر ایک تاریخی غلطی کی ہے جس کے لئے پرویزمشرف کو مسلمانان عالم سے معافی مانگنی چاہئے ، دہشت گردی کے ساتھ “ اسلام“ کے لفظ کا استعمال استعمال کرکے پرویز مشرف نے مسلمانان عالم کو سخت ایذا پہنچائی ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل مسلمانان عالم کے نزدیک ہمیشہ اسلام مخالف تصور کیا جاتا رہیگا اور ان کی تاریخ حیات میں یہ فیصلہ ایسے سیاہ فیصلہ کی شکل میں درج ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔
tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
Address: http://www.inikah.com
Address:# 42 , Nandi Durga Road ,Bangalore-46 India
Mob:919945631954
Leave A Reply