شعر کہنے کا فن باقی تمام ہنروں کی طرح محنت اور لگن کا متقاضی ہے۔ ہم نے جب شعر کہنا شروع کیے تو معلوم ہوا اشعار کیلیے علم عروض کا سیکھنا ضروری ہے۔ اس وقت تلاش کے باوجود علم عروض پر ہمیں کوئی کتاب مل نہ سکی اور اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے اصلاح لینے سے بھی کتراتے رہے۔ تب سے ہم بے وزن اور بے تکی شاعری کرتے آئے ہیں۔ ابھی چند سال قبل جب ہم نے علم عروض کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا تو پھر باقاعدہ شعر کہنے چھوڑ دیے کیونکہ ہمیں لگا کہ باقاعدہ شاعری کرنے کیلیے وقت اور محنت کی ضرورت ہے جو اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ تب ہم نے شاید اپنی آخری بے وزن اور نامکمل غزل کے ایک شعر میں اپنے بارے میں لکھا تھا۔
گزرے لمحوں کی کہانی ہیں
ہجر میں کٹی جوانی ہیں
بھوک پیاس کی نشانی ہیں
زم زم کے ہم پانی ہیں
آتی نہیں شعروشاعری
تک بندی میں ثانی ہیں
اس کے بعد ہم نے آسان طریقہ ڈھونڈ نکالا یعنی آزاد نظم کہنے لگے۔ لازمی بات ہے آزاد نظم کے بھی کچھ ضابطے ہوں گے اور جس دن ان ضابطوں کے بارے میں علم ہو گیا آزاد نظم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
وارث صاحب نے ہم جیسے بے وزن اشعار کہنے والوں کی تربیت کیلیے اپنا بلاگ شروع کیا جسے ہم باقاعدگی سے تب تک پڑھتے رہے جب تک وہ فنی خرابی کی وجہ سے غیرفعال نہیں ہو گیا۔ امید ہے بدتمیز صاحب جلد ہی اس فنی خرابی کو دور کرکے تمام غیرفعال بلاگز کو دوبارہ فعال کر دیں گے۔
یہ سب ہمیں اپنے ایک بہت اچھے قاری کی بھیجی ہوئی غزل پڑھ کر یاد آ گیا۔ ہم نے انہیں وارث صاحب سے اصلاح لینے کا مشورہ دیا مگر ان کے پاس وارث صاحب کا ای میل ایڈریس نہیں تھا۔ اسلیے ہم ان کے اشعار یہاں نقل کر رہے ہیں تا کہ وارث صاحب تھوڑا سا وقت نکال کر ان کی اصلاح کر سکیں۔ امید ہے دردآشنا صاحب اس اصلاح سے دل چھوٹا کرنے کی بجائے اسے تعمیری تنقید جانتے ہوئے سخنوری کا مشغلہ جاری رکھیں گے۔
یہ ہے دردآشنا کی ای میل کی کاپی۔
اسلام علیکم،
محترمی وارث صاحب کا ای میل تو میرے پاس نہیں ہے، خیر میں غزل لکھ دیتا ہوں۔
گلوں کورنگ ملے چمن کو بہار ملے
ملا مجھے بھی بہت مگر تیرا پیار ملے
دل ناتواں کو جستجوئے دیدار لئے
تیرے شہر میں سنگ بےشمار ملے
آزمائشوں کے دور سے گزر کر
ہم خدا سے بہت شرمسار ملے
تھی فکر عاقبت اس دل میں بھی، لیکن
ہمیں تو ناصح بھی بادہ خوار ملے
ہوئی سرد آتش عشق جب
ہم روبہ صحت، برسرروزگار ملے
دردآشنا وہ نہ ہی ملے تو بہتر ہے
لبوں پہ مسکان لئے دل سے بیزار ملے
میرا تعارف:
منزل پر پہنچ کر بھی گمراہ ہو گئے
تڑپے ہم اس قدر کہ دردآشنا ہو گئے
دعا گو
دردآشنا
7 users commented in " شعروشاعری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترمی
وارث صاحب شاید یہاں ابھی تک نہیں آئے ۔۔
آئیے میں راہ سجھا تا ہوں کہ وارث صاحب
محفلِ اردو نامی ایک فورم پر میسر ہیں
جس کا پتہ http://www.urduweb.org\mehfil ہے
جناب یہاں مندرج ہوجائیں اور وارث صاحب سمیت
دیگر صاحبانِ فن سے شاعری کے رموز سیکھیں۔
طالبِدعا
محفلِاردو کا ایک ادنا سارکن
م۔م۔مغل (محمد محمود مغل )
miim.miim.mughal@gmail.com
السلام علیکم زاہد صاحب، یہ خاکسار تو خود طفلَ مکتب ہے، اصلاح کیا دے گا۔
ٕمیں ابھی فرصت سے ان دونوں غزلوں کو دیکھتا ہوں، لیکن ایک بات یہ کہ میں ان کو وزن میں تو کر دونگا لیکن جب تک شاعر خود نہ اس علم اور فن کو سمجھے، اس کیلیے یہ فقط، بقول جہانزیب، پکا پکایا حلوہ ہوگا۔
بہرحال یاد آوری کیلیے ایک بار پھر شکریہ آپ کا، نوازش!
السلام علیکم برادرم
جیسا کہ عرض کیا تھا کہ خاکسار اصلاح کے قابل تو نہیں ہے ہاں یہ ضرور کوشش کی ہے کہ یہ غزل کسی بحر کی پابند ہو جائے اور اشعار وزن میں آ جائیں تا کہ کوئی بھی یہ نہ کہہ سکے یہ اشعار بے وزن ہیں یا سرے سے اشعار ہے ہی نہیں۔
ایک بات یہ کہ میں نے قافیہ و ردیف کو نہیں چھیڑا، کیونکہ ایک تو واقعی شاعر برادر کے قوافی اچھے ہیں اور دوسرے یہ کہ عموماً شعرا کو اپنے قافیے ردیف سے زیادہ لگاؤ ہوتا ہے۔
گلوں کو رنگ، چمن کو یہاں بہار ملے
ملا ہمیں بھی بہت، کاش تیرا پیار ملے
یا
ملا سبھی کو بہت، ہم کو تیرا پیار ملے
ہے جستجو دلِ خستہ کو تیری دید کی، پر
تمھارے شہر میں ہیں سنگ بے شمار ملے
گزر کے عہد سے ہر ایک آزمائش کے
ملے تو پھر بھی خدا سے ہیں شرمسار ملے
ہمارے دل میں بھی تھی فکرِ عاقبت لیکن
ہر سمت ہم کو ہیں ناصح بھی بادہ خوار ملے
اگلے دو اشعار کے جو قافیے ہیں، برسرِ روزگار اور بیزار وہ بدقسمتی سے اس بحر میں “فٹ” نہیں ہوتے۔
اگر شاعر برادر نے پانچ شعر پورے کہہ کر غزل پوری کرنی ہے، جو کہ کم اشعار کی بھی ہو سکتی ہے، تو ایک شعر “کاروبار” قافیے کے ساتھ کہہ کر پورے کر سکتے ہیں
اور میرا ای میل ایڈریس بھی آپ کے پاس آ گیا ہے وہ مجھ سے رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔
والسلام
وارث صاحب، قیمتی وقت نکال کر اصلاح کا شکریہ۔
معذرت برادرم، دراصل اوپر والی پوسٹ میری ہے، غلطی سے نام کی جگہ اس دن صرف ‘م‘ لکھا گیا تھا۔
والسلام
اسلام علیکم،
محترم افضل صاحب اشعار شائع کرنے کا شکریہ۔ چھٹیوں کی وجہ سے کچہ دیر سے رپلائی کر رھا ھوں۔ اور محترم وارث صاحب کا بھی تہہ دل سے شکریہ۔
درد آشنا
بہت خوب ،
یعنی وارث صاحب یہاں تشریف لاچکے ہیں ۔
ایک اطلاع ہے آپ کیلیے کہ وارث صاحب کا بلاگ اب دوبارہ کام کرنے لگا ہے ۔
جو احباب رابطہ کرنا چاہیں رابطہ کرسکتے ہیں۔
والسلام
Leave A Reply