محرم کا مہینہ کئی لحاظ سے مسلمانوں کیلیے اہم ہے مگر اس کی اہمیت حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد بہت زیادہ ہو گئِی۔
کہتےہیں محرم کے مہینے میں
زمین کی تخلیق ہوئی
حضرت آدم علیہ السلام وجود میں آئے اور اللہ نے ان کی غلطی معاف کی
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کنارے لگی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلنے سے اللہ نے بچایا
اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات دلوائی
اہل بیت نے محرم کے مہینے میں حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد اس ماہ کو سوگ کا مہینہ قرار دیا اور عاشورہ یعنی دسویں محرم کو خاص مقام عطا کیا۔ شیعہ محرم میں حضرت امام حسین کی شہادت کا سوگ منانے میں اکیلیے نہیں ہیں بلکہ دوسرے فرقے بھی اس غم میں ان کیساتھ ہوتے ہیں۔ نویں اور دسویں محرم کو روزے رکھنا سنت ہے۔
وقت کیساتھ ساتھ اب معلوم ہوتا ہے کہ تخت کیلیے آدمی کیا کیا کر گزرتا ہے۔ جو روایت یزید نے حضرت امام حسین کو شہید کرا کے قائم کی وہ اب بھی جاری ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ موجودہ دور میں کئی یزید اب بھی مسلمان ملکوں میں تخت نشین ہیں جو نیک اور صالح لوگوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دے رہے تا کہ ان کی حکومتیں خطرے میں نہ پڑ جائیں۔ اس خطرے سے نپٹنے کیلیے وہ غیروں کی مدد لینے سے بھی نہیں کتراتے چاہے انہیں اس کی بھاری قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم کرنے کیلیے عراقیوں نے غیروں کی مدد کی اور اس دفعہ بھی غلامی کا طوق گلے میں سجائے حضرت امام حسین کی شہادت کا دن منا کر ان کی روح کو تڑپا رہے ہیں۔
یہی حال فلسطین میں ہے مغربی کنارے والے اپنی حکومت بچانے کیلیے غزہ کے بھائیوں کی مدد نہیں کر رہے اور انہیں اسرائیل سے مار کھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمین زیر عتاب ہیں
نائجیریا میں اسلامی پارٹی کو حکومت سے دور رکھنے کیلیے ایک دہائی سے ڈکٹیٹرشپ نافذ ہے۔
افغانستان میں غیروں کا قبضہ ہے اور مسلمانوں کے قتل میں ان کی مدد کیلیے یزید ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
پاکستان میں امام حسین کا غلام صدر ہے مگر جب پاکستان کا اعلی ایوارڈ دینے کی باری آتی ہے تو وہ رچرڈ باوچر کو دیتا ہے جس کی مٹھی میں اس کی حکومت کی جان ہے۔
سعودی عرب سے لیکر ترکی تک اس وقت یزید کے پیروکاروں کا راج ہے اور وہ کہیں پر بھی حضرت امام حسین اور ان کے نانا کے دین کی حکومت قائم نہیں ہونے دے رہے۔
ہمیں چاہیے کہ اگر حضرت امام حسین کی شہادت کا دن منانا ہے تو پھر دکھاوے کا سوگ منانے کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں تا کہ دنیا کے کسی کونے میں کم از کم ایک اسلامی حکومت تو قائم کر سکیں۔
8 users commented in " محرم الحرام "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackNEW YORK, Jan 7 (Reuters) – Middle East oil producing nations will reject Iran’s call for Muslim countries to halt crude supplies to Israel’s backers over the fighting in Gaza, Saudi Arabia’s foreign minister said on Wednesday.
“The oil producers who need their income… are not going to do that,” Saudi Foreign Minister Prince Saud Al-Faisal told reporters at a news conference.
http://uk.reuters.com/article/oilRpt/idUKN1139353920090107
Saudi Arab is supporting Israel…
سر جی
ہونا تو بہت کچھ چاہئے
لیکن آپ کو یہ تو پتا ہی ہو گا کہ ہم میں سے کتنے ہیں آج امام حسین کی پیروی کرنے والے
پیٹنے کا مقصد مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آیا۔ سوائے چھٹی کے
شرمدگی ہم میں سے کسی کو نہیں
Saudi Recommendation to Weaken Hizbullah and Hamas
Head of the Saudi National Security Council reportedly visited Washington in December and held a number of meetings with top U.S. administration officials to whom he recommended weakening Hizbullah, Hamas and Islamic Jihad.
The purpose behind Saudi Prince Bandar Bin Sultan Bin Abdul Aziz’s recommendation is to tangibly target and weaken the maneuverable capacity of both Iran and Syria, ultimately limiting the capabilities of the militant groups, according to a report carried by the daily al-Akhbar.
http://www.naharnet.com/domino/tn/NewsDesk.nsf/getstory?openform&AF82FAC78B98FB3AC2257535002CA12C
Bush and Saudis;
http://www.dubyaspeak.com/images/incidents/handholding.jpg
محترم افضل صاحب!۔
آپ کا موضوع خصوصی توجہ مانگتا ہے مگر مصروفیات کی وجہ سے اس وقت کچھ نہیں لکھ سکتا۔ مگر میں سمجھتا ہوں اس کا ایک بنیادی سبب ہمارے مسلمان عوام کا علم سے بے بہرہ ہونا بھی ہے کہ انھیں اپنی اہمیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ورنہ آج مسلمان دنیا کی صورتِ حال خاصی مختلف ہوتی۔ بہر حال۔ زیرِ نظر تبصرہ میں نے جناب اجمل صاحب کے بلاگ پہ کیا ہے وہی تبصرہ یہاں نقل (کاپی) کر رہا ہوں تا کہ اپنے خیالات بیان کر سکوں ۔
پاکستان کے ایک معروف سیاستدان جو نہائیت صالح اور نیک نفس انسان ہیں ۔ ان سے میں نے امت مسلمہ کی وگرگوں حالت کے بارے میں ایک نجی محفل میں سوال کیا تھا کہ ُ ُ کہ محترم دنیا کی اممات سے از رفتہ زمانہ ہم کب محروم ہوئے اور ذلت کی گہرائیوں میں عالمی طور پر کب گرے۔؟،، ان کا جواب نہائیت مختصر تھا۔ ُ ُمنگولوں کے ھاتھوں سقوطِ بغداد کے بعد سے،، فرمانے لگے اس کے بعد سے دوغلی (منافقت) کا شکار ہیں اور ہمارا ہر قدم بحثیت مسلمان قوم پیچھے کی طرف پڑا ہے۔ ہم نے اصولوں اور آدرشوں سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ہمارے قول و فعل میں اسقدر تضاد ہوتا ہے کہ ہم وہ کرتے نہیں جو کہتے ہیں۔ اور جو کرتے ہیں عموماً اس کے ہونے کی درستگی پہ ہمیں خود یقین نہیں ہوتا۔ہمارا معیار بہت پست ہو کر رہ گیا ہے۔،،
اور میرا یہ مشاہدہ ہے کہ ہم بے عمل لوگ ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ کسی بھی مسئلے کا وقتی حل جزباتی نعرے بازی۔ یا بے بسی کی شکل میں دو چار دن کی لعن طعن کرنے کے بعد ہم بھول بھال جاتے ہیں۔ جب کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے تب ہم کرتے نہیں۔ جب ہم سے کچھ کر گزرنے کا اختیار چھن جاتا ہے تو اکثر لوگ محب اور با اصول بن جاتے ہیں۔ یہ بات ایک چھوٹی سی مثال سے ثابت ہوتی ہے۔ ہماری قوم (پاکستانی) غالباً ستر فیصد کے لگ بھگ ناخوآندہ ہے۔ اور چند ایک اشتناء چھوڑ کر یہی حال کم و بیش تقریباً سب دیگر مسلم اقوام کا ہے۔ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ترقی کے لیے علم کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہے اور کہ ترقی کیے بغیر ہم اپنے دشمنان سے کس قدر پیچھے رہ جائیں گے جس کا ایک ہی واضح مطلب ہو گا کہ اغیار کی تہذیب ہم پہ غلبہ کر لے گی اور ہم مجبورِ محض مغلوب بن کر رہ جائیں گے ۔ ہم جانتے ہیں مگر اس وقت کو ٹالنے کے لیے کوشش نہیں کرتے ہم میں سے اکثر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے والی حدیث کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں ۔ اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حُسنٰی سے بھی علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے کفار کے پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے بدلے رہا کر دیا تھا۔ مگر مجال ہے کہ ہم نے ( ہم سے مراد پڑھے لکھے لوگ) کبھی کسی ایک ان پڑھ مسلمان یا پاکستانی کو پڑھنا لکھنا سکھایا ہو۔؟ جس ملک کی دو تہائی سے زائد آبادی چٹی سفید ان پڑھ ہو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھی ہو کہ ان کے سامنے کتاب رکھ دیں تو وہ اندھوں کی طرح اسے دیکھتے رہیں۔ جبکہ کسی فورم پہ اور خاصکر میڈیا میں بولنا کہنا یا کچھ لکھنا اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب میڈیا بھی آپکے دشمن کے زیرِ اثر ہو۔ تو پھر ہم کس طرح ان قوموں کی برابری کر سکتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے اندھوں کو بھی مخصوص عبارت کی ابھری ہوئی لکھائی سے بیناء بنا دیا تو پھر خود کیا کم بیناء ہونگے؟ جبکہ انکی عیاری تو پہلے ہی سی سے تسلیم شدہ ہے ۔
آپ سفر پہ جارہے ہیں آپ کی منزل کس قدر دشوار اور دور کیوں نہ ہو مگر تب تک آپ کبھی بھی اس منزل کو نہیں پہنچ پائیں گے۔ جب تک آپ اس منزل کی طرف پہلا قدم نہیں اٹھاتے اور متواتر قدم اٹھاتے جائیں تاوقتیکہ آپ اپنی پا نہیں لیتے۔ غلط سمت میں اٹھایا ایک قدم بھی آپ کو منزل سے دور کردیتا ہے۔ منزل کی طرف اٹھنے والے صحیح قدم ہی منزل کو قریب کرتے ہیں۔ یہ ہم بیناء حضرات پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کم از کم دو ان پڑھ، ناخوآندہ پاکستانیوں کو کم از کم لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ یہ اہلِ علم کے علم کا صدقہ ہے صدقہ جاریہ۔ اور یوں بیک وقت یا ایک کے بعد دوسرے ا قدام یہ آپ کی استعداد اور حالات پہ منحصر ہے ۔ مگر منزل حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنا اور درست سمت میں آگے بڑھنا شرط ہے۔
بے شک ہم سچے ہیں کہ ہم (مسلمان اور پاکستانی) کسی صورت بھی دہشت گرد نہیں بلکہ وہ قومیں (امریکہ!۔ عراق اور افغانستان میں۔) (اسرائیل!۔ مسلمان علاقوں میں۔) (بھارت!۔ جموں کشمیر میں) جو مظلوم اور کمزور مسلمانوں پہ دہشت گردی کا الزام لگانے کی آڑ میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی کر رہی ہیں جن کا شکار صرف اور صرف مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا مزہب انکی تہذیب انکا کلچر ان کا ورثہ بلکہ مسلمانوں کا مستقبل اس دہشت گردی کی زد میں ہے اور وہ اپنے جھوٹ کو ہم پہ سچ کی مانند اس لیے مسلظ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس انتہائی ترقی یافتہ علم کی بنیاد پہ لامحدود طاقت ہے اسلیے ضروری ہے کہ ہم بھی انتہائی علمی ترقی کر کے اپنے دشمنوں سے زیادہ وسائل حاصل کریں ۔ ذیادہ طاقت و قوت حاصل کریں تا کہ ہم اپنے سچ کو سچ ثابت کر سکیں کہ بے شک اسلام اور مسلمان دہشت گرد نہیں۔ اور اس کی ابتداء اپنے لوگوں کو ا ب پ ت۔ ۔ ۔ ۔ سکھانے سے شروع کر دینی چاہیے۔
مقابلہ کرنا ہے تو مناسب تیاری کی جیے۔ ورنہ دن بدن گُم ہوتی ہوئی داستان بننے پہ آہ و فغاں بے مقصد ہے۔
دعا گو!
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
main kehta hon k shadi ki jo yeh fazool rasoomat hain khatam honi chaheyeh kion k in rasoomat ki waja say humari bhut c behnay gher main behti hoi hain
محترم امام اور امام کے اجداد کو شہید کرنے والے بھی خود کو خادم کہتے تھے اور دور حاضر کے یذیدوں کا بھی یہی حال ہے
وینزویلا سے کچھ سیکھنا چاہیے اور غیرت کھانی چاہیے ایک غیر مسلم ملک پوری دنیا میں واحد ملک جس نے امریکہ کو آنکھیں دکھا دی اور اسرائیلی سفیر کو نکال دیا غزہ حملوں کے نتیجے میں اور یہاں بیٹھے شراب و کباب اور رقص و سرور
میں بالکل اتفاق کرتا ہوں
علم ہی سے ہم ترقی کر سکتے ہیں
بھارت نے دوستی کے لیے فن کار تو بھیجے مگر امن کی کوئی بات نہیں کی-
معذرت کہ اردو الفاظ میرے پاس درست نہیں پرنٹ ہو رہے
Leave A Reply