دبئی کی سیر کے دوران ہم نے انسان کی بلندی اور پستی کے دونوں پہلو دیکھے۔ ہمیں ہمارے عزیز نے ایسی رہائش بھی دکھائی جہاں دس بائی دس فٹ کے کمرے میں آٹھ آدمی رہتے ہوئے نظر آئے جس کا کرایہ چوپیس سو درہم تھا۔ کام کے سلسلے میں میڈیا سینٹر کے پاکستانی کمیرہ مین کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ صرف ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ رہا ہے وہی اس کا بیڈ روم، ڈرائینگ روم تھا اور ساتھ ایک چھوٹا سا کچن تھا۔ باتھ روم انتہائی تنگ تھا جس میں شاور اور سنک نہیں تھا اور کموڈ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔
دوسری طرف ہم نے اپنے عزیز کی مدد سے دنیا کا واحد سیون سٹار ہوٹل برج العرب دیکھا۔ دراصل ہمارے عزیز سکیورٹی کیمرہ کا بزنس کرتے ہیں اور انہوں نے اس ہوٹل میں بھی اپنے کیمرے نصب کر رکھے ہیں۔ وہ اسی بہانے ہمیں ہوٹل کی سیر کرانے لے گئے۔ ویڈیو میں جو آپ دیکھیں گے وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ کہتے ہیں ہوٹل کی ہر گولڈن چیز سونے کی بنی ہوئی ہے۔ اس ہوٹل کی سیر کا ٹکٹ ہی آٹھ سو درہم ہے۔ ہمارے عزیز کے بقول یہاں ایک رات کا کرایہ ستر ہزار درہم ہے جو ہمیں تو فضول خرچی نظر آئی۔ ہمیں خیال آیا اگر عرب لوگ اس ہوٹل کی لاگت سے غریبوں کی فلاح کے بارے میں سوچتے تو کم از کم دبئی میں مزدور طبقہ اتنی کسمپرسی کی زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ مگر کیا کریں یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جہاں ہر کوئی اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر اس ہوٹل میں بھی رہ سکتا ہے اور سست و کاہل وجود جانوروں سے بدتر زندگی بھی گزار سکتا ہے۔
ہم یہاں کھانا کھانے کی سکت تو نہیں رکھتے تھے ہاں وہاں پر پڑی اعلیٰ کوالٹی کی کھجوریں کھا سکے اور قہوہ سے لطف اندوز ہوئے۔ یہ سہولت ہر آنے والے کو میسر تھی اور سب لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔
اس ہوٹل کی تعمیر جب مکمل ہوئی تو دیکھنے والوں کو ایک طرف سے ہوٹل کا ڈیزائن صلیب نما نظر آیا۔ اس پر کافی واویلہ مچا مگر ہوٹل انتظامیہ نے کسی کی نہ سنی اور وضاحت کی کہ یہ ڈیزائن صلیب کا نہیں بلکہ بادبان کا ہے اور اگر پورے ہوٹل کے ڈیزائن کو غور سے دیکھا جائے تو انتظامیہ کی بات سچی لگتی ہے کیونکہ ہوٹل کی شکل بادبانی جہاز سے ملتی جلتی ہے۔ ویسے پہلی نظر میں اگر ہوٹل کو دیکھیں تو شک یہی ہوتا ہے کہ یہ صلیب کا نشان ہے۔
باقی تفصیل میں ہم اسلیے نہیں جائیں گے کہ سب کچھ آپ کو مندرجہ ذیل ویڈیو میں نظر آ جائے گا۔
3 users commented in " دبئی کا برج العرب ہوٹل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackقہوہ
بدتمیز صاحب، شکریہ
میں 12 جولائی 2008 کو دبئی گیا تھا۔ اس کو دور سے بیچ ہی سے دیکھا تھا۔ آپ نے ابنِ بطوطہ شاپنگ مال دیکھا؟
Leave A Reply