جہاں جہاں فوج نے پرائیویٹ انڈسٹری پر قبضہ کیا ہے وہیں اس نے اصول و ضوابط کی سختی سے پابندی کر کے نیک نامی کمائی ہے۔ ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس سوسائٹی کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا ڈسپلن اور نیک نامی ہے۔ یعنی اگر آپ نے کوئی بھی ڈیل ڈی ایچ کے ساتھ کی تو اس نے اس کی پاسداری کی۔ ہمارا ذاتی تجربہ اس بات کا گواہ ہے۔ ہم نے 1995 میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور میں پلاٹ خریدا۔ نہ ہم نے خریدتے ہوئے پلاٹ کی لوکیشن دیکھی اور نہ اس سال بیچتے ہوئے مگر پلاٹ وہیں کا وہیں رہا اور ہمارے نام رہا۔ اس اچھے تجربے کی بنا پر ہم نے مزید چار پلاٹ ڈی ایچ اے میں خرید لئے ہیں۔
ہم نے جس عزیز اور پراپرٹی ایجینٹ سے سرمایہ کاری کی بات کی اس نے یہی مشورہ دیا کہ ملک سے غیرحاضری کی صورت میں ڈی ایچ اے سے بہتر کوئی رہائشی سکیم نہیں ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ خالص کاروبار ہے اور بینک کے سود سے ہزارہا بہتر ہے۔ حالانکہ اس وقت پاکستان میں بینک سولہ فیصد سے بھی زیادہ منافع دے رہے ہیں اور اگر ڈالر کے پچھلے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو یہ منافع برا نہیں ہے کیونکہ پچھلے دس سال سے ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ بہت کم رہا ہے۔ روپے کی قیمت پچھلے سال گرنے کے بعد امید ہے کچھ عرصہ برقرار رہے گی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی بینک اب زیادہ تر غیرملکی کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور وہ غیرملکی کمپنیاں روپے کی قیمت مستحکم دیکھنا پسند کريں گی۔ اس لحاظ سے سولہ فیصد منافع پر بینکوں میں سرمایہ کاری گھاٹے کا سودا نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ اگر آپ اس منافع کو سود نہیں سمجھتے۔
پراپرٹی کا کاروبار آج کل مندی کا شکار ہے لیکن چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اس میں کچھ ہل چل ہوئی ہے۔ اس کے باوجود پراپرٹی میں سرمایہ کاری کا یہ بہترین وقت ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری غیرمعینہ عرصے کیلیے ہونی چاہیے۔
ڈی ایچ اے میں جب ہم پراپرٹی ٹرانسفر کے مرحلے سے گزر رہے تھے تو ہم وہاں کے عملے سے بہت متاثر ہوئے۔ کسی نے نہ رشوت مانگی اور نہ کسی نے دی۔ بس فائل ایک جگہ سے دوسری جگہ پراپرٹی ایجینٹ کی نیٹ ورکنگ کی وجہ سے گھومتی ہوئی مکمل ہوئی اور پراپرٹی ٹرانسفر کا سارا مرحلہ ایک گھنٹے میں مکمل ہو گیا۔
1 user commented in " ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فوائد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackصحیح کہی آپ نے کراچی کا بھی یہی حال ہے:(
بہت سہولت موجود ہے یہاں
Leave A Reply