کل مولانا صوفی محمد نے سوات کے جلسے میں کچھ ایسی باتیں کیں جن پر ایک لمبی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔ چلیں ہم پہل کرتے ہیں اور مولانا صوفی محمد کی صرف ایک بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بقول ان کے پاکستان کا عدالتی نظام غیر شرعی ہے۔
اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان کی بات میں وزن ہے۔ کیونکہ پاکستان کا آئین اسلامی نہیں ہے بلکہ برطانوی طرز کا ہے اور اس میں ابھی تک تعزیرات ہند کی دفعات شامل ہیں۔ پاکستان پر عملی طور پر انگریز دور کے بنائے ہوئے قانون اور ضابطے نافذ ہے۔ وہی پٹواری نظام، وہی اے سی، ڈی سی، وہی جج اور وہی عدالتیں۔
اگر اسلام کو چھوڑ کر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو پھر مولانا صوفی محمد کا بیان درست نہیں ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کے آئین کے مطابق چلنے والی عدالتوں کی نفی کی ہے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ضمانت اسی وجہ سے نہیں کروائی تھی کہ وہ ان عدالتوں کو نہیں مانتے تھے۔
سوات کے جلسے میں لاکھوں افراد کی شرکت سے مولانا صوفی محمد کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور یہی وجہ ہو گی جو حکومت نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
3 users commented in " مولانا صوفی محمد اور عدالتیں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآئین پاکستان اور تعزیزات ہند یا تعزیزات پاکستان جو بھی کہہ لیں یہ دونوں مختلف اشیاء ہیں۔ تعزیزات ہند یا تعزیزات پاکستان یہ وہ فوجداری قوانیین ہیں جو انگریزوں کے زمانے میں پورے ھندؤستان میں نافذ کئے گئے اور پاکستان اور بھارت میں ابھی بھی یہ فوجداری قوانین نافذ ہیں۔ یہ قوانین خاصے موثر ہیں اور انگریزوں نے بڑی کامیابی سے ان کا نفاذ کیا تھا۔ اگر شرعی قوانین کے نافذ ہونے تک تعزیزات ہھند کو ہی بھرپور اور دینتدارانہ طریقے سے نافذ کیا جاتا تو بھی پاکستان میں امن و عام کا مسئلہ قابو میں رہتا۔ قوانین بھی تبھی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں جب ان پہ عمل کرانے کی نیت درست اور وسائل ہوں۔
کسی ملک یا قوم کی بدقسمتی ہوتی ہے کہ قوانین تو بہترین ہوں مگر انہیں جاری وساری کرنے والے بد ترین قسم کے بدترین لوگ ہوں ۔ قانوں کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ جب کوئی قانون نافذ کر دیا جائے تو پھر وہ قانوں بلاتمیز عام و خاص سبھی کے لئیے یکساں لاگو ہوتا ہے ۔ جبکہ پاکستان کے معروضی حالات ہم سب کے سامنے ہیں ہمارے نیتاً پاکستان کے معاملات بگاڑے گئے ہیں۔ پاکستان کا شمار غالباً دنیا کے انکے ممالک میں اؤل مقام پانے والوں میں کیا جسکتا ہے جہاں ہر قسم کی لاقانونیت ہے ۔ اسکی ایک وجہ درست نیت کا فقدان اور حوصلے کی کمی ہے۔
آئین یا دستور اس دستاویز کو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پہ ملک و قوم کا نظام تعمیر ہو پاتا ہے جسمیں ریاست عوام اور انکے مابین مختلف اداروں کے کردار کو متعین اور واضح کیا جاتا ۔ اور آئین پاکستان میں بغیر کسی شک و شبہے یا گنجائش یہ واضح طور پہ درج ہے کہ پاکستان ایک اسلامیہ ریاست ہے اور پاکستان کے تمام قوانین قرآن و سنت کے تحت ہوں۔ اور بالآخر پاکستان کا نظام اسلامی ہوگا۔
اسلئیے قوانین اور آئین میں یہ فرق ہے کہ آئین ایسا دستور کا نام ہے جسے بغیر کسی ناگزیر ضرورت کے اس میں تبدیلی نہیں کی جاتی اور اس دستور کے تحت قانون سازی میں رد وبدل کبھی بھی کیا جاسکتا ہے
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ۔امریکا نے چارجولائی سترہ سو چھتر کو بر طانیہ سے آزادی حاصل کی جبکہ اس کا باقاعدہ آئین 1787 ءمیں بنا ،جو 26 ترامیم کے ساتھ آج بھی رائج ہے ۔ ریاست ہائے امریکہ کا دستور امریکی حکومت کی مر کزی دستا ویز ہے اور ملک کا اعلی ترین قانون ہے ۔یہ دستور دو سو سال سے زائد عرصے سے حکومتی اداروں کے ارتقاءکی رہنمائی کر رہا ہے ۔ اور یہ دنیا کا غالباً لکھا ھوا قدیم ترین نافذ آئین ہے ۔ جبکہ ہسپانوی بھی 1917 کے اپنے اس وقت کے آئین کو دنیا کا قدیم ترین آئین قرار دیتے ہیں۔ جو مگر ہسپانوی آئین بوجوۃ منسوخ ہو گیا تھا۔
جبکہ یوروپ میں رنی میڈ کے مقام پہ لکھا گیا میگنا کارٹا (Magna Carta) یوروپ کی ایک اہم پرانی ترین لکھی ہوئی قانونی دستاویز ہے۔ اس کے زریعے برطانوی عوام نے 1215 میں رنی میڈ کے مقام پر اپنے بادشاہ جان کو مجبور کیا کہ وہ یہ مانے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ جان نے اس دستاویز کے ذریعے اس بات کو مانا۔ جبکہ پاکستان کے حکمران اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں۔
جبکہ ہماری نظر میں میثاق مدینہ دنیا کا لکھا ھوا قدیم ترین قانونی معائدہ جسے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔ میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی سیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
اب سوچنے کی بات یہ ھے کہ اگر پاکستان کی عدلیہ اسلامی نہیں تو صوفی محمد پہلے کہاں تھے جب لانگ مارچ ہوئی نواز شریف نے اپنے آپکو جسٹس اور وکیل برادی کا غم خوار ظاہر کیا اور کہا کہ ہم اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھے گئے جب تک انصاف نہیں مل جاتا ۔ تھوڑی مدت انتظار کر لیتے ۔ سوات میں انصاف ہی انصاف ہے ۔اب تو پاکستان میں رہنے والے بھی مسلمان نہیں ہیں تو پیدا تو مسلمان ہوئے ہیں ۔ اب جسٹس کا کیا ہو گا ۔ جو بھی ہو جلدی ہو تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ہم اسلامی جمبوریہ پاکستان میں ہیں کہ نہیں
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ پاکستان کا آئین غیر اسلامی ہے۔۔ یہ مانتا ہوں کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں شامل کردی گئیں ہیں جس نے اس کا چہرہ مسخ کردیا ہے اور یہ اپنی اصلی صورت میں نافذ بھی نہیں ہوا۔۔ لیکن علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس کی توثیق اس وقت بھی کی تھی بلکہ اس میں اپنی پسندیدہ چیزیں مرد مومن مردحق کے حدود آرڈیننس کی شکل میں بھی شامل کرلیں تھیں تو آج اچانک یہ غیر اسلامی کیوں ہوگیا؟ کیا اس لیے کہ طالبان کے فلسفہ حیات سے میل نہیں کھاتا ؟
Leave A Reply