قصوروار کون؟ کی پوسٹ ہم نے پچھلے رمضان میں لکھی تھی جس میں ایک نمازی کے امام صاحب کیساتھ جھگڑے پر قارئین کی رائے مانگی تھی۔ اس نمازی کے خراب خاندانی حالات پر ہم پھر سے قارئین کی رائے پوچھنے لگے ہیں۔
دراصل ان صاحب کی چار بیٹیاں تھیں جب وہ یورپ تشریف لائے۔ بیٹے کی جستجو میں ان کے ہاں دو جڑواں بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے۔ اس کے بعد جوڑی مکمل کرنے کیلیے انہوں نے ایک اور ناکام کوشش کی۔ اس وقت وہ چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔ اپنی ثقافت کے اس قدر پابند کہ بیٹیوں کو یونیورسٹی بھی شلوار قمیض میں بھیجتے ہیں۔ مذہبی اتنے کہ داڑھی کیساتھ نماز پڑھتے ہیں بیشک بے قاعدگی کیساتھ ہی۔ دوغلے اس قدر کہ فنکشن میں میوزک کا پروگرام شروع ہونے سے پہلے بچوں کو گھر بھیج کر خود صنف نازک کی اداؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایک سال قبل انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی اپنے قریبی عزیز کے بیٹے سے کر دی۔ بیٹا پاکستانی ویٹنری ڈاکٹر ہے اور اب یورپ میں رہتا ہے۔ بچی چونکہ گھٹن کے ماحول میں پلی بڑھی تھی، اسلیے اسے جونہی آزادی ،اس نے سب سے پہلے اپنے والدین کو چھٹی کرائی اور اب خاوند کو بھی چلتا کیا ہے۔ آج کل وہ کسی گوری کے گھر پے انگ گیسٹ کے طور پر رہ رہی ہے۔ اس کا خاوند مشرقی اقدار کا حامل انتہائی بھلا مانس شخص ہے۔ لڑکی اب مغربی لباس میں گھومتی پھرتی ہے اور گزر اوقات کیلیے سٹور پر کام کرتی ہے۔ اس کے بقول اس کا خاوند انتہائی گھٹیا انسان ہے جو اس کی شکائتیں اس کے والد سے کرتا ہے۔
اب آپ بتائیں قصور کس کا ہوا؟ یورپی ماحول کا، باپ کی تربیت کا، لڑکی کا یا پھر اس کے خاوند کا؟
ہماری نظر میں باپ قصوروار ہے۔ اس نے بچے زیادہ پیدا کر لیے جن کی وہ تربیت اچھی طرح نہ کر سکا۔ مشرقی باپ ہونے کے ناطے بچوں سے فاصلہ رکھا۔ آمدنی محدود ہونے کی وجہ سے وہ اتنے بڑے خاندان کو گندے علاقے میں رکھنے پر مجبور ہوا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
9 users commented in " قصوروار کون؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم!
اس میں قصور تعلیم کی کمی کا ہے۔ علم ایک ایسی کنجی ہے جو اپنی ذات کے عرفان کا پتہ دیتی ہے۔ جو اپنی شناخت اور باہمی تہذیبی فرق کو اجاگر کرتی ہے۔ جو بچے اس فرق کو سمجھ جاتے ہیں وہ بڑے ہو کر ہم سے اچھے مسلمان بنتے ہیں۔ وہ اچھی عادات اور اعلٰی اخلاق اپناتے ہیں اور اپنے کلچر پہ فخر کرتے ہیں- اور ان معاشروں میں رہتے ہوئے مغربی اقدار کا صحتمندانہ مقابلہ کرتے ہیں۔
قصور کسی کا بھی نہیں، اور قصور سبھی کا ہے۔ باپ کا، بیٹی کا، اور اسکے خاوند کا۔ اس میں یوروپی زندگی۔ مخدوش حالات ۔ یا گندہ محل وقوع۔ یہ چیزیں کردار کی درست تربیت پہ کبھی اثر انداز نہیں ھو سکتیں۔ بشر طیکہ زندگی کو سادہ لیا جائے اور ریا کو اپنے نزدیک نہ آنے دیا جائے۔
ُ ُمشرقی باپ ہونے کے ناطے بچوں سے فاصلہ رکھا۔،،
آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مشرقی باپ اپنے بچوں سے فاصلے پہ رہتے ہیں یا انھیں وقت نہیں دیتے۔ جو میری رائے میں یوں نہیں۔ جو پیار محبت ہمارے ماں باپ ہمیں دیتے آئے ہیں۔ یوروپی والدین اس کا عشر عشیر بھی نہیں دیتے۔ جہاں شادی شدہ زندگی ہی اوسطاً پانچ سال ہو ۔اور ماں باپ الگ ہو جائیں وہاں ماں باپ جتنا بھی خواہش رکھتے ہوں۔اپنے بچوں کو درست وقت نہیں دے سکتے-
افضل صاحب قصور آپکا ہے آپکو اپنی فکر چاہیے عیب تلاش کرینگے تو سب میں نکل آینگے انسان ہے فرشتہ تو نہیں
میں جاوید کی دونوں عائے سے متفق ہوں
ایک ۔ تعلیم کی کمی ۔ میں اسناد کی بات نہیں کر رہا
دو ۔ قصور سب کا ہکسی نے اپنا کردار درست طریقہ سے ادا نہیں کیا
یہ طفل نام والے تو مجھے اچھے خاصے تجربہ کار بزرگ لگتے ہیں
زیادہ بچوں والی بات تو دل کو نہیں لگتی
درجن درجن بچوں والوں کو جانتا ہوں جن کے بچے اور پورا خاندان خوش باش ہے اور ایسا کوئی مسئلہ نہیں جیسا کہ پوسٹ میں بیان ہوا۔ اور یہ “بچے دو ہی اچھے“ والا نعرہ تو عشرے دو سے لگنا شروع ہوا اور لوگوں نے ۔۔۔ کی آمد کے بعد مزے مزے میں ہی بچے کم کر دئے۔
سارا مسئلہ ہے جناب کی منافق سوچ کا جسکی وجہ سے نا بچوں کو تعلیم مل سکی نا تربیت۔ نا اعتماد ملا نا آزادی۔ بچے تو اب وہ زندگی گزارنا چاہیں گے جن سے انکو کوئی وجہ بتائے بغیر دور رکھا ہوا تھا۔ جاوید صاحب کے تفصیلی جواب سے ہم پوری طرح “سہمت“ ہیں
طفل صاحب
آپ کو پتہ نہیںہم سے کیوںخواہ مخواہ کی چڑ ہو گئی ہے۔ ہم تو مسئلہ بیان کرتے ہیںجس میں دوسروں کیلیے کوئی نہ کوئی سبق ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد دوسروں میںعیب تلاش کرنا نہیںبلکہ دوسروں کی غلطیوںسے سبق سیکھنا ہے۔
افضل صاحب میں پہلے بھی بلاگرز کو مطلع کرچکا ہوں اور دوبارہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔۔ طفل صاحب ایک ایسی شخصیت ہیں جو مختلف ناموں سے مختلف بلاگز میں تبصرے کرتے ہیں۔۔ میری ہی ایک پوسٹ میں انہوں نے تین مختلف ناموں سے تبصرے کیے۔ اور بعض اوقات حساس موضوعات پر یہ دو مختلف ناموں سے متضاد تبصرے کر کے ایک مثبت بحث میں بلاوجہ کی شدت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ افتخار اجمل صاحب نے بھی غالباَ ان کی اس خاصیت کو نوٹ کیا تھا اور کہیں ذکر کیا تھا اور اگر بلاگرز اپنے ایڈمن پینل میں اس طرح کے یتیم تبصروں کے ماخذ تلاش کریں تو حیران کن طور پر ایک ہی منبع سے ابلتے چشمے تک پہنچیں گے۔ خلاصہ یہ تمام گفتگو کا کہ اس طرح کے تبصروں پر آپ کی اتنی ہی مہربانی بہت ہے کہ آپ انہیں اپنے بلاگ میں رہنے دیتے ہیں۔
جناب چڑ نہیں چڑچڑا ہو گیا ہوں سوائن فلو کے خوف سے کافی دن سے مرغا نہیں کھایا ہے چاروں طرف اس بیماری کا چرچہ ہے برڈفلو کی طرح راشد کامران اللہ مجھے بھی صحت دے تو تمہیں ویسے آپکا بلاگ کا درشن کرنے تو جانے کی ضرورت نہیں پڑتی خداجانے طفل کی روح تبصرہ مار آئی کیا
بھئ جادو ٹونے پر آپ تو تہ دل سے اعتبار کرتے ہو گے
ویسے لگتا تو ایسا ہی ہے کہ یہ اختراع آپکے فطوری دماغ کی ہے
ویسے کیا پتہ اوپر راشدکامران کے نام سے جو تبصرہ ہوا ہے وہ طفل نے ہی نہ کردیا ہو
سلام،
میرا خیال ہے کہ منافقت اس بیماری کی وجہ ہے۔
ویسے ماں باپ اپنی نا بالغ اولاد کے زمہدار تو ہو سکتے ہیں مگر جو اولاد خود کہا کمارہی ہو اسکو صرف سمجھا ہی سکتے ہین۔
Leave A Reply