ابھی تک تو ہم یہی سنتے آئے تھے کہ ہر داڑھی والے کو طالبان شمار کیا جانے لگا ہے مگر یہ نہیں سنا تھا کہ کچھ اداروں میں داڑھی رکھنا منع فرمایا گیا ہے۔ اس ویک اینڈ پر ہمارے کزن ہمیں ملنے آئے ہم نے ان کے بھانجے کے بارے میں دریافت کیا جو ایئرفورس کے کالج آف ایروناٹیکل انجنیئرنگ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ دراصل اس نے پی ایے ایف کالج سرگودھا سے فارغ ہونے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ ایروناٹیکل انجنیئر بنے گا۔
وہ بتانے لگے کہ عبداللہ آج کل انجنیئرنگ میں داخلے کیلیے مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ دینے میں مصروف ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اس کے ایروناٹیکل انجنیئرنگ کا کیا بنا تو وہ کہنے لگے کہ اسے وہاں سے نکال دیا گیا ہے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ دو سمیسٹرز کے بعد عبداللہ جو پانچ وقت کا نمازی پہلے ہی تھا گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا اور مسجد کے امام کی تربیت نے اس پر ایسا اثر کیا کہ اس نے داڑھی رکھ لی۔ جب وہ داڑھی کیساتھ واپس کالج پہنچا تو انتظامیہ نے اسے داڑھی کیساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کیساتھ چار دوسرے طلبا کو حکم ملا کہ یا داڑھی منڈوا دو یا گھر واپس لوٹ جاؤ۔ دو نے ایروناٹیکل کی تعلیم کو ترجیح دی اور داڑھی منڈوا دی۔ باقی تین دھن کے پکے نکلے اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ہمارے پوچھنے پر کزن نے بتایا کہ یہ قانون مشرف دور میں پاس ہوا تھا یعنی فوج کے کالجوں میں داڑھی رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
تب سے ہم سوچ رہے ہیں
کیا ایروناٹیکل انجنیئرنگ کیلیے داڑھی رکاوٹ بنتی ہے؟
فوج کے کالجوں میں داڑھی نہ رکھنے کے پیچھے کونسی منطق پوشیدہ ہے؟
آج سنت نبوی یعنی داڑھی کی ممانعت ہے تو کل اللہ کے حکم یعنی نماز کی ممانعت بھی کر دی جائے گی تب فوج کس مشن کے تحت لڑے گی اور نعرہ تکبیر کا کیا بنے گا؟
دہشت گردوں کیخلاف موجودہ جنگ میں جو داڑھیوں والے آفیسر ٹی وی پر نظر آتے ہیں کیا انہوں نے بھیس بدلا ہوا ہے؟
جنرل ضِیاء کے دور کے بعد فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والے آفیسروں کو چن چن کر نکالا گیا۔ کیا یہ عمل اسی تسلسل کا نتیجہ ہے؟
اگر سکھ کو داڑھی کیساتھ قبول کیا جا سکتا ہے تو پھر مسلمانوں کو کیوں نہیں؟
38 users commented in " داڑھی رکھنا منع ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپہلے تو صرف سنتے آئے تھے ہم تو ایک مرتبہ بھگت بھی چکے ہیں۔ پاکستان کے ایک معروف ترین نجی چینل پر مابدولت تمام ٹیسٹ کلیئر کرنے کے بعد محض اس بنیاد پر reject کیے جا چکے ہیں کہ ہم چھوٹی سی داڑھی رکھتے ہیں۔
سمجھ نہیں آتے کہ ڈیڑھ انچ کے ان بالوں سے کسی کو کیا پرخاش ہو سکتی ہے؟
پھر ہم جب liberal fanatics کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔
واقعی بہت افسوس ہوا یہ سب پڑھ کر، اللہ تعالیٰ ہمارے اربابِ اختیار کو ہدایت عطا فرمائیں۔
افسوس ھوا بہت ۔۔۔
پہلی بات یہ کہ داڑھی اختیاری ہے۔ سنت رسول ہے، کوئی رکھتا ہے تو زبردست، نہیںرکھتا تو اس کی مرضی۔
اور یہ کہ ہر ادارے کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ۔اگر کسی کو ان سے اختلاف ہے تو وہ اس ادارے میں شامل نہ ہو۔
اور اہم بات یہ کہ داڑھی پاک فوج کی پرفارمنس پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتی۔ ایمان دل کے اندر ہوتا ہے، چہرے پر نہیں۔ اگر ہمارے جوانوں کے چہرے پر داڑھی نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا مورال کم ہے یا لڑائی کے وقت وہ داڑھی والوں سے کم ثابت قدم ہوں گے۔آزمائش شرط ہے۔
ضیا کے بعد فوج سے جن افسروں کو نکالا گیا، ٹھیک ہی کیا گیا۔ ورنہ جو کچھ ضیاء نے ملک کے ساتھ کیا، وہی کچھ اس کے جانشین بھی کرتے۔ ضروری نہیں کہ ان کا ذہن اسلامی ہو، وہ فرقہ وارانہ بھی ہو سکتا ہے۔
سکھ کو منتخب کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں، اس لیے اگر اسے سلیکٹ نہیں کیا جائے گا تو رولا پڑ جائے گا کہ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اگر پاک فوج ہندو ہوتی اور اپلائی کرنے والا مسلمان داڑھی والا تو مسلمان کو اسی بناء پر رکھ لیا جاتا کہ ایشو نہ بن جائے۔
آپ کا بلاگ علوی نستعلیق میں بہت خوبصورت لگ رہا ہے، مگر اس فونٹ میں اردو الفاظ اور سطور ایک دوسرے کے اوپر سوار ہو رہی ہیں ، بعض جگہوں پر سب خلط ملط ہو جاتا ہے ۔
قدیر صاحب! سب سے پہلے ذرا اس بات پر غور کریں کہ داڑھی رکھنے کا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ نہیں دیا بلکہ حکم دیا۔ اپنے ماں باپ کا حکم ہمارے سر آنکھوں پر ہوتا ہے‘ بوس کا حکم تو مجال ہی نہیں کہ رد کریں۔ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اختیاری؟؟
اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم کیا ان کی اپنی پسند تک محدود تھا؟ نہیں، اس میں رضا الٰہی بھی شامل ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج کل جن اسلامی احکام سے کفار کو تکلیف ہونی چاہیے تھی سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہی ہوتی ہے۔ تین گھنٹے کی فلم دیکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں اور آدھے گھنٹا تلاوت سننی پڑ جائے تو موت آنے لگتی ہے۔ اور خاص کر قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے ہم قصے کہانیوں کی طرح پڑھ کر درگزر کر جاتے ہیں حالانکہ اس بڑھ کر سچائی کیا ہو گی۔ ایک محدود سی چھوٹی سی زندگی کو ہم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے جو کہ آج نہیں تو کل ختم ہونے والی ہے جب کہ آخرت کی ابدی زندگی کے لیے ہماری کوئی تیاری نہیں۔ جب اللہ نے کہا کہ یقیناً وہ جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دے گا تو اس نے کوئی مذاق نہیں کیا۔ کاش کوئی سمجھے۔ نیم کے بیچ بو کر میٹھے پھل کی امید پر بیٹھے ہیں ہم بے عمل مسلمان!!
حقائق کا عِلم نہ ہو تو انسان کو زبان نہیں کھولنا چاہیئے ۔ تاریخ سلسلہ وار یوں ہے
ضياء الحق کے نیا قانون بنانے سے پہلے پاکستان بننے سے پہلے کا قانون رائج تھا ۔ دھاڑی رکھنے کے لئے باقاعدہ تحریری اجازت لینا ہوتی تھی ۔ شراب پینا افسر کی شان تھی ۔ شرابی اور آزاد خیال بیویوں والے افسر جلد ترقی پاتے تھے باقی عام طور پر میجر ریٹائر ہو جاتے تھے
ضیاء الحق نے ققانوں بنایا کہ داڑھی رکھنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں لیکن اطلاع کے ساتھ داڑھی والی تصویر بھیجی جائے ۔ مزید کھلے عام شراب پینے پر پابندی لگائی ۔ پی ایم اے میں ہر کمرے میں ایک مصلٰی اور قرآن شریف کی ایک کاپی رکھوا دی گئی
پرويذ مشرف قانون بنانے میں قابض انگریز حکومت سے بھی دو قدم آگے بڑھ گیا ۔
داڑھی رکھنا سنت ہے اور بغیر معقول وجہ کے داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے
ملک کا آئین اسلام کے منافی کسی قانون کی اجازت نہیں دیتا اس لئے پاکستان کے کسی ادارے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قرآن و سنّت کے خلاف قانون بنائے یا حکم دے
ضیاءالحق کا سیاسی کردار ایک طرف ۔ ذاتی طور پر وہ محمد رفیق تارڑ صاحب اور نواز شریف کے علاوہ باقی سب حکمرانوں سے وہ بہت زیادہ مسلمان تھا
قدیر صاحب، آپ کے دلائل اپنی سمجھ سے بالاتر ہیں۔
نستعلیق فونٹ میں لائن ایک دوسرے کے اوپر چڑھنے کے مسئلے سے ہم واقف ہیں مگر اس کا حل معلوم نہیں۔ اگر کسی کو معلوم ہو تو مدد کریں۔
اس طرح کے اداروں میں دارڑھی رکھنے پر پابندی واقعی بہت افسوس کی بات ہے۔
قدیر صاحب مشرف کی روشن خیالی کا شکار معلوم ہوتے ہیں ورنہ اس طرح کے خیالات عام مسلمانوں کے ہرگز نہیں ہو سکتے۔
میں آجکل کا قانون نہیں جانتا مگر میرے جو دوست فوج میں گئے تھے اور اکیڈمی میں داڑھی رکھنا چاہی تھی انہیں اس زمانے میں اس سلسلے میں نہ صرف اجازت درکار تھی بلکہ اسلامی امتحان بھی دینا پڑا تھا۔
افضل صاحب نے ایک اچھے موضوع پر جاندار طریقے سے لکھا ہے
اللہ کرے افضل صاحب اپنا قلم دین کے دفاع ہی میں اٹھایا کریں
سب سے بیتر تبصرہ اجمل صاحب کا ہے اور سب سے گمراہ کن قدیر کاہے اب عبدالوہاب صاحب نے جو بات کی ہا سوال کیا ہے اس کا جواب مشرف یا کسی روشن خیالی سے نہیں بلکہ بلکہ ایک الگ متوازی مذہب رکھنے سے اور اس کو اسلام کی آڑ لیکر سادہ مسلانوں کو گمراہ کرنے سے ہے
بس بات وہیں آجاتی ہے کہ لوگ راففضیت کو جان جائیں تو ایسے موقعوں پر حیران ہونے سے بچ جائیں
یہ ملک اسلام کے نام پر مانگا گیا تھا اور جو لوگ لوگوں کو استعمال کرکے ملک مانگ رہے تھے انکی اکثریت خود دین پر عمل کرنے کی متحل نہیں ہوسکتی تھی
اور باقی انکے ساتھ جو تھے وہ رافضی اور قادیانی تھے اب بچ کھچ کر جو رہ گئے وہ اسلام کا نظام لا سکے نا دھوکا بازوں کا راستہ روک سکے البتہ اپنے طور پر لوگوں نے اس ملک میں لوگوں کو دین کی دعوت میں جان کھپا دی۔ اللہ ایسے سب مسلمانوں کو اجر عظیم عطا کرے
پچھلے کئی دنوں سے خاصا مصروف رہا خاص تور پر پاکستانی ٹیم کی شاندار کامیابی نے مزید مصرف کردیا جس کہ لیے تمام احباب کو دلی مبارک باد قبول ہو اور ساتھ ہی دیر سے مبارک باد پہنچانے کی معزرت۔
اب موضوں کی طرف آتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی شخص کاآخری انجام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے اپنے یہاں کیا مرتبہ دیا، یہ دنیاتواتنی عارضی اور ناپائیدار ہے کہ پچاس ساٹھ کاعرصہ کب اور کیسے ختم ہوجاتاہے پتہ بھی نہیں چلتا۔
حدیث ہے کہ حادساتھی موت میں ہلاک ہونے والا شہادت کے رتبے میں آتا ہے پھر ایک اور حدیث ہے جس کے مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ کسی کے جنازے کی نماز میں کثرت سے لوگوں کی شرکت اس بات کی گواہی ہے اللہ نے اسے اپنے یہاں کیامرتبہ دیا۔
اس لحاظ سے میں ضیاءالحق اور بی بی دنوں کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں نہ جانے اللہ کو ان کی کیا بات پسند آئی ہو۔ البتہ محترم اجمل صاحب کے آخری جملے سے اختلاف ہے، سر یہ زیادتی ہے آپ ضیا کو میرے حساب ان دونوں سے فلحال تو اوپر ہی رکھیں اور پھر ان کا انجام خود ہی بتادے گا کہ اللہ کے یہاں کس کو شرفیت ملی۔ اعمال کا دارومدار خلوص نیت پرہے بناؤٹ اور دکھواے پر نہیں۔
جہاں تک فوج کا تعلق ہے کچھ باتیں اجمل صاحب کی درست ہیں، ہمارا سپاہی جذبئے شہادت لیے کر اس میں آتاہے جبکہ کمیشنڈ افسر کمانڈ اور شہادت دنوں جذبے کے ساتھ اس میں شامل ہوتاہے اور اسی طرح ان کو گرون اپ کیاجاتاہے۔
فوج کے آفیسر طبقے میں کچھ خرابیاں تھیں جن کو محسوس کیاجاتا رہاہے۔ ضیاءالحق نے جو کچھ کیاوہ ان پر ٹھوسنے کے مترادف تھا جبکہ اصل کام بندے کو اندر سے مسلمان بنانے کاتھا یہی وجہ ہے کہ ان کاموں میں سے چند میں مشرف موقع مناسبت سے تبدیلی لانے میں کامیاب رہا۔ مگر حقیقت میں فوج میں داڑھی رکھنے پر پابندی نہیں جس کی مثال مشرف دور میں بھی موجود ہے اور خودصاحب تحریر نے بھی اسے قبول کیاہے۔
“دہشت گردوں کیخلاف موجودہ جنگ میں جو داڑھیوں والے آفیسر ٹی وی پر نظر آتے ہیں کیا انہوں نے بھیس بدلا ہوا ہے؟“
بات دراصل یہ ہے کہ فوج ایک انتہائی ڈسپلن ادارہ ہے، اور اس کا بیرونی دنیاسے براہ راست ٹکراؤ ہے جو کہ اس کے ہر اکشن کا بغور مطالعہ کررہے ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے بڑے بڑے سکالر صرف اس کام پر بٹھاؤے ہیں۔ اور اگر اب وہ دنیا میں کسی سے خائف ہیں تو پاکستانی افواج سے۔
اس وقت مثلحت کا تقاظا یہی ہے، اصل ایمان دل میں ہوتاہے ، وقت سے پھلے اس کا اظہار بعض اوقات نقصان دہ ہو سکتاہے، یہاں میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ میں فوج میں رہتے ہوئے داڑھی کا مخالف نہیں اور اس بات کی مخالفت کرتاہوں کہ اس بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جائے ۔ اور اگر ایسا کوئی قانون موجود ہے تو اسے ختم کیا جائے تاہم اگر اس میں اس وقت کوئی مثلحت ہے تو اس کا بھی احترام کیا جائے اور اس بات احساس بوقت ضرورت کیڈڈ کو کروادینا چاہیے۔
بیچارے عام مسلمان 🙂
رفتہ رفتہ نماز پر بھی پابندی لگے گی ، خواتین کا برقع پہننا اور پردہ کرنا بھی منع کر دیا جائے گا، مگر ایسی تمام حرکتوں کے باوجود باطل اسلام کی روشنی کو پھیلنے سے نہیں روک سکے گا
انفرادی فعل میں مغرب کو آپ سے کوئی سروکار نہیں، آپ چاہے داڑھی رکھو، نمازیں پڑہو، برقعہ مھنو، حج کرو عمرہ کرو۔
یہ کام ہم الحمداللہ 1400 سالوں سے کرتے آرہے ہیں مگر ان کو ہم اس وقت کھٹکنے لگتے ہیں جب ہم ان کو للکارنے کی پوزیشن اختیار کرنے لگتے ہیں، آپ اپنے ملک میں کچھ بھی کرو کسی اس سے کیا۔ مگر اصل مثلہ یہ ہے کہ نہ تو ہم روحانی طور پر اس مقام پر پہنچے ہیں کہ “خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضاکیا ہے اور نہ علمی طور اتنے طاقتور ہیں، بس جوش ہے کہ کلاشنکوف لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ایف 16 گرادیگیں۔
اللہ نے آپ کو عقل وسمجھ دی ہے اسے بھی استعمال کرو، ہر وقت جذبات سے کام نہیں چلتا۔ ۔ سونچو کہ جب مسلمانوں کا غلبہ تھا تو دوسری قوموں نے کس طرح اپنے آپ کو سکیور کیا اور آج وہ ہم پر غالب ہیں۔
میں صرف ایک بات کہوں گا کہ اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں ہے÷
چوہدری حشمت بات پتے کی کرتے ہیں،کچھ املے کی غلطیوں کو چھوڑ کر 🙂
آپ لوگ زرا جزباتیت سے نکل کر ان کی بات پر دھیان دیا کریں تو شائد آپ لوگوں کو خاصا افاقہ ہو 🙂
عبداللھ صاحب! یہ جو آپ نے ’’داڑھی میں اسلام نہیں‘‘ والی بات کی ہے اس سے واہیات خیال شاید ہی کوئی ہو۔ اور یہ بات آپ سے نہیں بلکہ کئی لوگوں سے سنی ہے جنھیں دین سے نام کی حد تک لگائو ہوتا ہے۔ کل کلاں یہ بات بھی مشہور ہو جائے گی کہ اسلام میں نماز ہے نماز میں اسلام نہیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے والی چیز یعنی موت کوئی ہم سے دور تھوڑی ہے۔ کل قبر میں آپ کے سامنے سب روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔
قدیرصاحب آپ کے تبصرے کسی قدر کم تعداد میں ہیں بہتر ہوتا کہ آٹھ دس اور کردیتے تو زیادہ وزن ہوجاتا بے چارے قدیر بھائ
نبی کے طریقہ کو اپنانا جزباتی بات ہے اور چھوڑ کر نبی کا دل زخمی کرنا آپ کے نزدیک کوئ بات نہیں جس کا ظاہر ہی اچھا نہ ہو اسکا باطن کیسے اچھا ہو جائیگا بھائیو خدا سے ڈرو آپ نے ڈاڑھی نہ رکھی نہ سہی اگرچہ اسکا گناہ ہوگا مگر ڈاڑھی جو کہ شعار اسلام ہے نبی کا طریقہ ہے اسکے بارہ میں یہ کفریہ خیالات ترک کردو ورنہ حوض کوثر پر سے محروم شفاعت نبوی سے محروم تو کہاں ٹھکانا لگے گا
آپ جو بھی صاحب ہو محتلف ناموں سے تبصرے کیا کرتے ہو اس میں قطعا کوئی بات غلط نہ تھی مینے بڑے بڑے داڑھی والے پاپی بھی دیکھے ہیں اور بغیر داڑھی کے مومن بھی،آپ خود کو ہی دیکھ لو کیا آپ کی اخلاقیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقیات سے ملتی ہے؟
اور کیا منافقین کے مسجد نبوی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرنے سے ان کا اسلام ثابت ہوگیا تھا یا ان کے لیئے قرآن پاک میں وعید آئی تھی؟
ارے جناب غلطی ہوی آپ ولی آپ ابدال ہو کیونکہ آپکوڈاڑھی سے نفرت ہے اور ڈاڑھی والے منافق ہیں لگتا ہے آپ پر وحی نازل ہو نے ہی لگی ویسے ھمارا عقیدہ ہے کہ اب کوی نبی نہ آئگا مگر ھم تو منافق ہیں نا آپ کی نگاہ ناز میں عبداللہ (انجان) صاحب جب بھی آپ لوگوں کو کوی جواب نہیں بن پڑتا تو بس اس طرح کے اوچھے الزام لگا کر موضوع سے دھیان ھٹانے کی کوشش کرتے ہو کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا مصداق پہلے اپنے اصلی نام سے تبصرہ کریں پھر مجھ پر یہ الزام لگائیں اور عیاں کریں سب کے سامنے کہ ھم کن کن ناموں سے تبصرہ کرتے ہیں
Fifty seven air force personnel arrested in last two years, 6 given death sentence
– Dunya News
اب جبکہ اس موضوع پہ خاصی بحث ہوچکی ، تو ہمیں صرف اتنا سا عرض کرنا ہے ۔ مخصوص قسم کی وجوہات چھوڑ کر جن کا تقاضہ ہو کہ داڑھی نہ رکھی جائے (مثلا خفیہ مشنز پہ ایجنسیز کے ملازم و اہلکار وغیرہ ۔) ایسی قومی مصحلتوں کو چھوڑ کر پاکستان جیسے اسلامی ملک میں داڑھی رکھنے پہ کوئی قدغن یا ممانعت نہیں ہونی چاہئیے۔ قطع نظر اس بات کے غیر مسلم یا دوسرے ممالک آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ یہ اسلامی روایات ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ۔ اور اپنے ملک میں ہمیں اس بات کی مکمل آزادی ہونی چاھئیے ۔کہ ہم اسلامی اور قومی ثقافت پہ عمل کر سکیں۔ اور ممالک اور قوموں کی وجود میں آنے کی ایک بڑی وجہ انکا مذھب اور ثقافت بھی ہوتی ہے۔اور مذھبی آزادی اور مذھبی روایات پہ پابندی سے آزادی کا تصور دھندلا جاتا ہے۔
داڑھی رکھنا افضل ہے۔ سنت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہے۔ شرط یہ ہے کہ داڑھی اسلام کی خاطر رکھی جائے ۔ فیشن کے طور پر داڑھی نہ رکھی جائے۔
جو لوگ پاکستان میں داڑھی اور مولوی سے بدکتے ہیں ۔ ان میں کچھ لوگ واقعتا گمراہ ہونگے جو حقیقت میں شعائر اسلام کو اچھا نہیں سمجھتے ہونگے ۔ مگر زیادہ لوگ اپنی کم علمی اور کچھ کچھ باریش اصحاب اور مولویوں کی ذاتی اور ناپسندیدہ خصائل کی وجہ سے سے لاشعوری طور پہ داڑھی والوں سے الرجک ہوجاتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اسلام کے شیدائی مگر اکثریت اسلام ہی کیا ہر قسم کے علم سے بے بہرہ عوام میں داڑھی والے حضرات اسلام کی شیدائیوں سے داڑھی رکھے ہونے کی وجہ سے ترجیجی سلوک کا رویہ مت اپنائیں ۔ وگرنہ ہم داڑھی رکھتے ہوئے داڑھی سے بیزارگی میں اضافہ کا باعث بنیں گے۔ جس طرح اللہ کی عبادت ہم سب کا ذاتی فعل ہے کہ کون کتنے نفل پڑھتا ہے اس سے پڑھنے والے کو ثواب ہوگا ۔ اگر وہ اس کے بدلے معاشرے سے اچھے سلوک کا متمنی ہے تو اسکی عبادت بھی غارت گئی اور لوگ لمبی عبادات کرنے والوں کے بارے میں بھی مشکوک ہونے کی صورت میں مذھب سے دور ہوئے ۔ اسلیے ضرورت اس بات کی ہے ۔ داڑھی ہو ۔ یا مصلیٰ ۔ تسبیح ہو یا ورد ۔ یہ مسلمان کی شان ہیں مگر اسے بنیاد بنا کر معاشرے کے باقی لوگوں سے ترجیجی سلوک کی خواہش مت کریں۔
مسلمان فوج میں داڑھی رکھنے پہ پابندی نہیں بلکہ داڑھی نہ رکھنے پہ پابندی ہونی چاھئیے کہ اسلامی عادات ، خصائل۔ اور اسلامی شناختیں ہی ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اور اللہ پہ یقین مضبوط ہوتا ہے۔
عماد: آٹھ دس تبصرے اور بھی کر دیتا تو بھی فائدہ نہیں۔ کیونکہ یہاں ہر بندہ صرف اس چکر میں ہوتا ہے کہ کسی طرح اپنے مسلک اور اپنے خیالات کو ثابت کرے، اس لیے وہ ہر بات کے جواب میں صرف اپنا دفاع کرتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ اگلے کو چپ کرا دے۔ اگر کوئی نیوٹرل ہو کر اور سمجھنے سوچنے اور اپنی غلطی ماننے (اگر ثابت ہو جائے) کی نیت سے بحث کرنا چاہے تو بندہ کچھ بولے بھی صحیح۔ ورنہ بس مسکرایا ہی جا سکتا ہے 🙂 والسلام
قدیر صاحب
عماد پر برسنے سے پہلے اپنا طرز عمل دیکھ لو
یہی کام تم لوگ کرتے ہو کہ مسلمانوں کے فورم پر آکر اپنے باطل نظریات پھیلانا شروع کر دیتے ہو
ہمارے لیئے اتنا کافی ہے کہ اللہ اور اسکے رسول نے جو کہا سچ کہا اور کیوں کہا یہ ہمارا مسئلہ نہیں بکلہ کافروں اور رافضیوں کا مسئلہ ہے
ہمارا عرصے سے ارادہ تھا کہ اپنا الگ بلاگ بنائیں مگر مصروفیات سے وقت نہ نکال سکے انشاءاللہ جب بھی بنا رافضیت کا جنازہ نکلے گا اور سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے بلاگ کا استعمال انکے اپنے گلے پڑے گا
ایسے ابن یہود کو پہلے بھی راستہ دکھا چکے ہیں
مشورہ لے لو مرنے سے پہلے توبہ کرکے اس راستے پر آجاؤ جو راستہ اللہ کے نبی نے دکھایااور صحابہ اس راستے پر چل کر رضی اللہ بنے
agar koi pakistani fauji, indian soldier ka lebas pahen kar apne kernal ke pas jai aur kahe ke main pakistani fauji houn to kiya uska kernal ya chief usko chor dega ke jinab ye bhai to under se pakistani hai laikan lebas siraf indian ki hai , hargez nahi mere bahiou ise tara agar hamara zaheri shakal yahoud aou nasara ki tara hou aur kahin ki bhai hum to under se muselman hai to hamara ye bahana qabele qbool na hoga aur hamee sakht saza bhe de jaige.lehaza zaher aur baten ko chor ker jo allah ke ahkamat aur peyare nabi salaallah alhi wasalam ke tareqe hain use per hami amal karna chaihe na ke kise seyasetdan , ya kisi army chief ke order ko mudenazer rak kar allah aur uske rasool ke ahkamat se bagawat karin.
احمد بھای جزاکم اللہ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو یہ لوگ اسی پر اتر آتے ہیں دوسرے کے ناموں سےتبصرہ کرکے کنفیوزن پیدا کرتے ہیں بے چارے
میں نے آپ سے پہلے عرض کیا تھا اپنی سائٹ بناین ایک بار پھر عرض ہے کہ نیک کام میں دیری کیسی آپ اپنا ای میل پتہ عنایت فرمائیں یا میرا ایڈریس لے لیں پھراس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہیں اپنے ھوسٹ پر سائٹ بنانے کی صورت میں میرے پاس ورڈپریس 2.8 اردو شدہ موجود ہے
رافضیت 🙂
حضرت اشرف علی تھانوی رح کے خطبات کی کتاب میں ایک واقعہ درج ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ٹرین میں سفر کر رہا تھا ، سامنے والی نشست پر ایک صاحب انگریزی لباس پہنے اور ویسی ہی وضع قطع بنائے بیٹھے تھے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ بیچ میں نماز کا وقت آگیا، میں نے ان سے اجازت لی اور وضو کر کے نماز ادا کی، واپس آکر پھر گفتگو شروع ہو گئی۔ پھر نماز کا وقت آیا اور میں نماز پڑھ کر واپس آیا ۔ اسی طرح جب ایک اور نماز پڑھ کر آیا تو ان صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اتنے بڑے مولوی ہیں، میرا خیال تھا کہ آپ مجھے کہیں گے کہ میاں نماز کیوں نہیں پڑھتے، چلو نماز پڑھو، وغیرہ۔ لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ تو میں نے کہا کہ اگر میں آپ سے کہتا تو یقیناً آپ پر منفی اثر پڑتا اور آپ اسے محسوس کرتے، لیکن دیکھیے کہ اب آپ خود سوچنے پر مجبور ہوگئے ۔ ہر جگہ زبان کام نہیں کرتی، انسان اپنے عمل سے ہی بہت کچھ سکھا سکتا ہے۔ وہ صاحب اس حسنِ سلوک اور مثبت اندازِ تبلیغ سے اتنے متاثر ہوئے کہ اگلی نماز خود بخود تھانوی صاحب کے ساتھ پڑھی۔
کہنے کا مقصد یہ کہ اگر آپ لٹھ لے کر کسی کے پیچھے پڑ جائیں، اس کے کسی اعتراض پر غور کرنے کی بجائے اسے مختلف قسم کے القابات سے نوازنے لگ جائیں تو نہ صرف وہ شخص آپ سے متنفر ہوگا بلکہ آپ کے نامہ اعمال کے منفی خانوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ ایک عالم اور ٹھیکیدار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ عالم عقل استعمال کرتا ہے، جبکہ دین کا ٹھیکیدار صرف زبان چلانا جانتا ہے۔
آج اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں آ جائیں تو وہ کسی سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے نماز پڑھی یا نہیں، تمہاری داڑھی کتنے بالشت کی ہے ، یا تم کلین شیو کیوں ہو ۔ وہ سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کون شخص آج بھوکا سویا ہے ، کس ظالم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، کسے انصاف نہیں ملا ۔ کس کے حقوق کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں ۔ وہ یہاں آ کر مختلف مسالک کے ٹھیکیداروں کو چیلنج نہیں کر دیں گے، نہ کسی کو سنی، شیعہ، رافضی، کافر کہہ کر پکاریں گے۔ انہوں نے اپنی ظاہری زندگی میں کبھی کسی منافق کو بھی رسوا نہیں کیا ، کسی کے قتل کا فتویٰ اس بات پر جاری نہیں کر دیا کہ اس کی داڑھی نہیں تھی یا وہ نماز نہیں پڑھتا تھا ۔
اس عظیم انسان کا طرزِ عمل تو یہ تھا کہ ایک مشرک رات کے وقت ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے عمدہ کھانا کھلایا، سونے کے لیے اپنا بستر فراہم کیا۔ رات کو اس مشرک نے بستر ناپاک کر دیا تو صبح اٹھ کر اللہ کے رسول نے خود اس گندگی کو اپنے مبارک ہاتھوں سے دھویا۔ (یہ واقعہ شاید آپ نے ساتویں آٹھویں جماعت کی کتب میں پڑھا ہو)۔
آپ کے لیے کسی کو رافضی، کافر، سنی ، دیوبندی، بریلوی وغیرہ کہہ کر اس کی تضحیک اڑانا بہت آسان ہے، مگر شاید یہ آپ کے لیے ممکن نہ ہو کہ رات کو سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں۔ یہ دیکھیں کہ آج کے دن میں آپ نے کیا کیا، اللہ اور اس کے رسول نے جن بنیادی باتوں کا حکم دیا ہے کیا ان پہ عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ اقیموالصلوٰۃ لکھا ہے۔ پتہ نہیں آپ کو نماز قائم کرنے اور نماز پڑھنے کا فرق معلوم ہے یا نہیں۔ اگر معلوم کرنا ہو تو کسی عالم سے پوچھیے، دین کے ٹھیکیدار سے نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ طارق جمیل صاحب کے کسی خطاب میں آپ کو اس فرق کا مطلب معلوم ہو جائے ۔ اگر آپ کو اس فرق کا پتہ چل گیا تو عین ممکن ہے کہ آپ اس طرح کی حرکات سے توبہ فرما لیں ۔ کسی انسان پر اعتراض کرنے اور اس سے نفرت کرنے کی بجائے اس سے محبت کرنا سیکھ لیں ۔
جتنا وقت لوگ انٹرنیٹ پر اور عام زندگی میں اس طرح کی فضول بحثوں، فروعی مسائل میں ضائع کرتے ہیں، اگر اس وقت، بجلی اور فون کے سرمائے کو بچا کر کسی ضرورت مند کی مدد کرنے میں صرف کریں، کسی مثبت کام میں لگائیں تو نیکیوں میں کچھ اضافہ ہی ہو جائے۔
میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے، اب آپ جو مرضی لکھتے رہیے، میں جواب نہیں دوں گا میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ دیواروں سے محوِ کلام رہوں ۔ والسلام
عماد بھائی شکریہ
اگر آپ ساتھ دیں تو ہم تیار ہیں۔
ای میل آپکو افضل صاحب سے مل سکتا ہے
اب آتے ہیں قدیر ساحب کی طرف
پہلی بات تو یہ کہ ہم ان میں سے ہیں جو سب سے کم تبصرہ کرتے ہیں وہ بھی اس وقت جب دیکھیں کہ لوگوں کہ گمراہ کیا جارہا ہے
کبھی کبھی ویسے بھی وقت ہو تو افضل صاحب کو یادہانی کی بھی ایک آدھ بات کہ دیتے ہیں
آپ نے بڑی ہوشیری سے ایک مرتبہ پھر گمراہ کرنا چاہا
ہم صرف 2 قوموں کو داد دیتے ہیں ان کی ہٹ دھرمی اور گمراہ کرنے کی خصلت کی ایک یہود اور دوسری ابن یہود
جو لوگ سامنے ہوتے ہیں ان کو دعوت عمل دی جاتی ہے اور بلاگ ہا ایسوں ذریعوں سے بات ھی کی جا سکتی ہے نا کہ اسکرین سے یکایک نمودار ہوجائیں
اور دوسری بات آپ کو کب دعوت دی؟ علماء فرماتے ہیں منافق مرتد کو دعوت نہیں بلکہ اسکے لیئے دعا کی جاتی ہے مرتد منافق کا مرض دعوت سے جانے والا نہیں
جن عالم کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ بھی بتا دیتے کہ رافضیت کے بارے میں ان کی تعلیم کیا ہے اور ان کا فتوی کیا ہے؟۔
مولانا طارق جمیل صاحب کی صحبت یا ان کے بیان سے آپ اسکا بھی زکر کر دیتے کہ وہ صبح شام صحابہ کے طریقے پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں ساری بات انکے کردار اور عظمت کے بیان پر کرتے ہیں
اب جو آدمی صحابہ کی بڑائی بیان کرے بھلا اسکا حوالہ ایک رافضی کیسے دے سکتا ہے؟۔ رافضی تو عبادت کے طور پر صبح شام صحابہ کو گالیاں دیتا ہے
لعنت اللہ علی الکازبین
دین کہتے ہیں رسول خدا کی پوری اتبا ع کرنے کو۔ جو باقی باتوں بھی اتباع نہیں کرتا وہ آپ کے سیاست دانوں اور دوسرے بے دینوں کی طرح ظلم ھی کرتا یے
ظالم ہونے سے وہی بچے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا اور اللہ کا خوف دل میں آئے گا جب سنت پر چلے گا
اور کسی کو کافر پکارا نہیں جاتا وہ خود اپنے عمل سے اور عقیدہ سے بنتا ہے
شیطان نے دعوی کیا تھا کہ میں انسانوں کی اکثریت کو بہکا لوں گا شاید اسکو علم ہو گیا ہو کہ ایک قوم پیدا کی جائے گی یہود اور اسکے ساتھ رافضی تب ھی اسکو حوصلہ ہوا ورنہ وہ اتنا بڑا دعوی کیسے کر سکتا تھا
اللہ پاک لوگوں کیلئے ہدایت آسان فرمائیں
یہ رافضی ہوتا کیا ہے؟ کافی تبصرے ایسے پڑھنے کو ملے جنمیں انکا ذکر ہے۔
قدير بھينس کے آگے بين بجانے کا کيا فائدہ- يہ ديوبندی من حيث الجماعت قيام پاکستان کے ہی خلاف تھے اور پھجا ڈيزلی کے ابا جعلی مفتی محمود تو اس بات پہ شکر کرتا تھا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ ميں شامل نہيں تھا- آجکل يہ ديوبندی طالبان کی شکل ميں ديوبندی رياست بنانے کی کوشش ميں لگے ہوئے ہيں- انکو آجکل غصہ زيادہ آتا ہے، مار جو پڑ رہی ہے-
e995544@yahoo.com احمد بھای آپ اس میل پر مجھ سے رابطہ کرلیں انشاء اللہ ویب سائٹ بنانے میں آپکی مدد کرکے ہمیں خوشی ہوگی
ameer اگر آپ مسلمان ہیں ہمارے بھائ ھیں مگر دیوبند سے اتنا خار کیوں پاکستانی طالبان کو دیوبند سے مت جوڑیں دیوبند نے انکے خلاف فتوی دیا ہے مسلمانوں کا ناحق قتل کرنے والے مسلمان نہیں یاد رہے پاکستانی طالبان !
جو کہ اسلام کے چوغے میں ھندو یہودی …خیر بڑی تفصیل ہے وقت ہے نہیں آپکو مولا نامحمود حسن اور دیوبند کو گالی دینے کچھ خیرحاصل نہ ھوگی بلکہ اس میں نقصان اپنا ہی ہے اسی آپسی منافرت نے ہی پاکسان کو بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کیا ہے مگر آپ تو خوش ہو رہے ہیں
کسی کی بے کسی کو مسکرا کردیکھنے والے
تجھے تقدیر اس منزل پہ لے آئ تو کیاھوگا
افضل صاحب، داڑھی سے متعلق اسی قضیے کو کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے بلاگ کا موضوع بنایا تھا تو آپکا خیال تھا کہ شاید یہ میری ہی کمزوری ہے۔ یہ تو جناب ہمارے معاشرے میں پھیلا ناسور ہے۔ میں دہشت گرد اور وہ آؤٹ آف ڈیٹ بھی نہیں ہوں، نہ ہی وہ عبداللہ بھائی اور کئی دوسرے نوجوان، سر جی لکھ رکھیں کہ ہم نوجوان جو چہرے پر داڑھی سجاتے ہیں کوئی نالائق بھی قطعاً نہیں ہیں۔ یہ بھی بتا دوں کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ضیاءالحق اور دوسرے کیا گل کھلاتے رہے ہیں، مجھے تو اعتراض یہ ہے کہ ہمیں اپنے ہی ملک میں برملا اساتذہ کرام، دوست، گاڑی کا کنڈیکٹر اور وہ دکاندار دہشت گرد، بنیاد پرست اور ناجانے کیا کیا کیوں کہتے ہیں؟ وہ فرانس کے سارکوزی اور ہمارے ائیر فورس کے جرنیلوں میں کیا فرق ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے عہد کے نوجوان تو شاید اسے سہہ لیں، لیکن بتا دوں کہ اگلی نسل بڑی اتھری اور ظالم ہو گی اس معاملے میں۔
تازی اور کراری بھی سن رکھیں، لمز جو کہ ایک بڑا ادارہ شمار ہوتا ہے نے بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور بڑی مچھلیوں کے بچوں کو انٹری ٹیسٹ اور انٹرویو کے ٹنٹے سے مستثنٰی قرار دے دیا ہے، واہ رے
بنگش صاحب
ہم معذرت خواہ ہیں اگر آپ کو وہ تبصرہ برا لگا ہو مگر خدا گواہ ہے ہم نے آپ کو خلوص دل سے مشورہ دیا تھا اور کوئی مذاق نہیںکیا تھا اور نہ ہی تنقید کی تھی۔ ہم نے وہ تبصرہ دوبارہ پڑھا ہے ہمیںتو اس میںداڑھی کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں لکھی بلکہ داڑھی کو سنوار کر رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ ثبوت کے طور پر تبصرہ دوبارہ یہاں کاپی کر دیتے ہیں۔
“اس کا مطلب ہے کہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ میں کیا کیا خرابیاں ہیں مگر آپ پھر بھی ان کی طرف دھیان نہیں دے رہے۔ یہ اچھے آدمیوں کا شیوہ نہیں ہے۔
ہمارے خیال میں اگر ان سب قباحتوں سے بچنا ہے تو خود کو بدلیے۔ کھانا چھری کانٹے سے کھانا سیکھیے، پینٹ شرٹ ضرور پہنیے اور داڑھی کو بھِی سنوار کر رکھیے۔ کہتے ہیں کھاو من بھاتا اور پہنو جگ بھاتا۔ ویسے بھی اپنے آپ کو وقت کیساتھ ساتھ پرانی وضح قطع بدلنی چاہیے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ موبائل اسلیے استعمال نہ کریں کہ یہ پہلے نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح اپنی چال کو بھی درست کرنے کی پریکٹس کیجیے۔ لباس بدلنے یا رہن سہن بدلنے سے آدمی کافر نہیں ہو جاتا“۔
Jo shaks dari ko bora samje who kafir he
ksi b sunnat ka mazak karna kufar he aur nikah khatam hojaega
Fatwa k liye is numbe par rabta karu
03148011122
Daarhi sirf sunnat hi nahi balke wajib hai q ke kiss b rasool ya nabi ne daari na mundwayi…….
Aur lanat hai us par Jo is ki muhalifat krta hai.
بلکل صحیح کہا ایس جے احمد بھائی کہ داڑھی رکھنا واجب ہے آجکل پتا نہیں یہ کہاں سے شوشہ آگیا ہے کہ داڑھی صرف سنت ہے رکھو چاہے نہ رکھو ۔ جبکہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا حکم واضح ہے کہ داڑھیاں بڑھاو اور مونچھوں کو کٹواو ۔۔ لیکن لوگوں کی نفسانیت کی بھی کوئی حد نہیں ایک چیز ہے اگر آپ کو اس پر عمل نہیں کرنا نہ کریں کم سے کم اسکا حکم تو تبدیل نہ کریں ۔
Leave A Reply