جیو کی خبر کے بعد صدر زرداری کے مہمان خانے میں قائداعظم کی تصویر اس طرح آویزاں کی گئی کہ وہ مہمانوں کیساتھ ملاقات میں نظر آ سکے۔ اس کا ثبوت دو دن قبل ہونے والی صدر کی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے ملاقات میں نظر آنے والی قائداعظم کی رنگین تصویر ہے۔ مگر کل صدر کی وزیراعظم گیلانی اور چیف آف سٹاف کیانی سے ہونے والی ملاقات میں قائداعظم کی تصویر پھر نظر نہیں آ رہی۔
تصویر ہٹائے جانے یا اس کی جگہ بدلے جانے تاکہ یہ تصاویر میں نظر نہ آئے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ایک – شاید تصویر ہٹوانے والوں نے تصویر دوبارہ دکھائے جانے پر برا منایا ہو اور ان کی حکم عدولی کرنے کی جرات نہ پڑی ہو اسلیے کرسی بچانے کیلیے تصویر کی قربانی دے دی گئی۔
دو – شاید ٹرائیکا کی یہ ملاقات اتنی خفیہ ہو کہ انہیں شک ہو کہیں تصویر کی شکل میں قائداعظم کی روح ان کی باتیں نہ سن لے۔ یا پھر اس ملاقات میں ایسی باتیں کرنی ہوں گی جو قائداعظم کی تصویر کے سامنے کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہو گی۔
اس کے علاوہ اگر کوئی تیسری وجہ ہے تو وہ قارئین بتائیں۔
15 users commented in " قائداعظم کی تصویر پھر غائب "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکاش کہ ہماری قوم اپنی غنودگی سے نکل آئے اور اسے حقائق نظر آنے شروع ہو جائیں
آپ نے جو دوسرا وجہ بتایا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ آپ نے ان پر مزاقی جملہ بنبایا ہے یا واقعی قائد اعظم سن سکتے ہیں_ یا اس جملے کا کوئی اور مطلب ہے میری رہنمائی کیجئے؟
ضیا صاحب
ایسا طنزیہ لکھا ہے کیونکہ حکمران قائداعظم کے اصولوں کو جس طرح پس پشت ڈال رہے ہیں یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔
سیدھی سی بات ہے بات میڈیاپرآگئی، تصویرلگادی، میڈیاکی تسلی ہوگئی تصویر ہٹ گئی۔ اب میڈیاکا امتحان ہے دیکھتے ہیں آپ کے اعصاب اور یاداشت کب تک آپ کا ساتھ دیتے ہیں، ویسے جس نے اور جس طرح اس میڈیا نے آزادی لی اودی ایسی تیسی ، یہ میری نہیں موجودہ حکومت آنے والی حکومت اور اس کے بعد آنے والی حکومت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومت کی مشترکہ رائے ہے اور ہوگی۔
اب دیکھیں صدر صاحب، قائد اعظم کو مزار خالی کرنے کا نوٹس کب بھجواتے ہیں۔
زبردست کیا نظر ہے آپ کی ۔ شائد کچھ عرصے تک بے نظیر کی تصویر بھی غائب ہو جائے۔
اتنا شور مت مچائیں
ایوان صدر سے بیان آ جائے گا
ٕٔ“تصویر دل میں ہونی چاہئے “
زرداری کو خواب آیا ہے کہ قائد نے ان سے گزارش کی ہے کہ انکی تصویر ھٹا دی جائے کیوں کی جو کچھ تم کر رہے ہو مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔
پہلی وجہ ہی ہو سکتی ہے ورنہ دوسری وجہ قدرے محال ہے اور تیسری وجہ “شرم“ والی تو وہ انہیںکبھی نہیں آنے والی۔ شاید غالب نے ان کے لئے ہی کہا تھا ۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
یہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔
اگر یقین نہ آئے تو تب دیکھئیے گا ۔ جب بلاول زرداری بلاول بھٹو کے نام سے پاکستان کی مسندِاقتدار پہ بیٹھا ہوگا۔ اور تانگہ بان اسمبلیوں کے ممبر اور وزراء ہونگے۔
جیسے آج راجہ پرویز اشرف جیسے وزیر جنہیں کم ازکم اپنے محکمے کا تو پتہ ہی ہو گا کہ بجلی بڑھے گی یا کم ہوگی۔ مگر جھوٹ بول کر ۔۔اس دسمبر تک پاکستان میں بجلی بجلی کر دیں گے۔۔ جیسے بے تُکے اور بے سرے بیان دے کر ہم ان پڑھ ، جاہل اور گنوار قوم کو دہوکہ دے سکتے ہیں ۔ جس کے بدلے میں ۔ عوام گلے پھاڑ پھاڑ کر اور چیخ چیخ کر ۔۔زندہ باد۔۔ زندہ باد۔۔ کے نعرے آج لگا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ ان پڑھوں کا غول، جو پاکستان کی بدقسمتی سے ستر فیصد کی اکثریت ہے۔ یہ غول کل فخرِ ایشیا زندہ باد۔ قائد عوام زندہ باد۔ دخترِملت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا ہے اور آج حالات یہ ہیں کہ دوقوت کی روٹی نہ ملنے کے باوجود ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے لگاتا پھرتا ہے۔ تو پھر کل کو بلاول زندہ باد کے نعرے بھی گلا پھاڑ کر لگائے گا۔
زندہ بادوں کو ہر قسم کے تانگہ بان، وزیر شزیر مل جاتے ہیں جو پوری قوم کو اندھا ریوڑ سمجھتے ہوئے گھیر گھار کر جلسہ گاہوں میں کیھنچ لاتے ہیں۔ امریکہ جمہوریت اور ہر دلعزیزی کا سرٹیفیکٹ جاری کر دیتا ہے۔ اور پاکستان میں آج کل جیسے ہر طرف ۔۔۔بجلی بجلی ہو رہی ہے۔۔۔ اور ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر زندہ باد، زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔کل کو آج ملنے والی بجلی کی طرح، روٹی ملے نہ ملے۔ کوئی نیا وزیر شزیر (انھیں وزیر شزیر ہر صورت اور ہر قسم کے مل جاتے ہیں) روٹی روٹی کر دینگے کے نعرے لگا رہا ہوگا اور ہم بھوکوں پیٹ۔ زندہ باد ، زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہونگے ۔
سنتے آئے تھے ، کسی راجدہانی میں وزیر شزیروں نے رعایا کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ جب تک راجہ درشن نہ دیں سورج نہیں نکلتا۔ بے چاری رعایا اور کسان۔ مہاراجہ کے ایک درشن کے لئیے ، سخت سردی اور گرمی کے موسموں میں ، ساری رات محل کے باہر گزار دیتے تھے کہ کب صبح کو مہا راجہ جھروکے سے اپنے درشن دیں گےاور صبح ہوگی ۔ مبادا مہاراجہ درشن نہ دیں یا درشن دیکھنے والا کوئی نہ ہوا تو صبح ہی نہ ہو۔ اسلئیے ہمارے دلوں میں یہ شک پختہ ہوتا جارہا ہے کہ بلاول زرداری جو بھٹو بن گئے ہیں ۔ ریاست کے سربراہ نہ ہوئے تو مملکت کے امور کیسے چلیں گے۔
تو پھر کسے شک ہے۔ کہ پاکستان ایک اسلامی ریپبلک اسٹیٹ ہے؟
زرداری کو پتہ ہے کل کو یہی لوگ بھوکے پیٹ ، بلاول ہمارا ، سب پہ بھارا ۔۔ اور زندہ باد ، زندہ باد کے نعرے لگا رہے ھونگے۔ اور بے نظیر کے ساتھ زارداری کی تصویر ہوگی ۔ کہ ہم راجہ ابن راجہ وغیرہ وغیرہ ہیں ۔
قائد اعظم کی تصویر ہی نہیں ۔ فرمودات قائد کے ساتھ جاگیرداروں کا کوئی تعلق، کوئی رشتہ نہیں بنتا نا ۔ شاہی محل میں تو اپنے اجداد کی ہی تصاویر وہتی ہے نا۔!
کتنے بھولے ہیں یہ اپنے افضل صاحب اور چند مغز مارے پڑھے لکھے لوگ ۔
چھوٹے لوگ چھوٹی باتیں
زرداری سے ہم کیوںگلہ کریں؟
یا جیالوں سے کسی قسم کا شکوہ کیوں کریں؟
جبکہ ہم ان کے چھوٹے پن سے واقف ہیں
ویسے سناہے یہاںلیاقت باغ میں اب بی بی کی آخری پر شکوہ آرام گاہ کی تعمیر کی تیاریاں آخری مراحل میںہیں
لیاقت باغ اب بی بی باغ بننے والا ہے یا باغ جمہوریت
جس کے ساتھ بہتا لئی نالہ اپنی بھینی بھینی خوشبو سے مزار کو معطر رکھا کرے گا
جناب آپ زرا اس تصویر کو بھی دیکھ ہی لیں اور غور کریں ٹیبل پر پڑہی تصویر پر پھر سوچیں کہ کون ہمارے راہنما ہیں
http://www.pakistanviews.com/wp-content/uploads/2009/07/mqm.jpg
good observation……..
Leave A Reply