پہلي جنگِ عظيم کے بعد مسلمانوں کي سلطنت کو علاقائي بنيادوں پر تقسيم کرديا گيا اور مسلمان کچھ نہ کر سکے کيونکہ حکومت کے چسکے کي خاطر ہر حکمران مسلمانوں کي يکجہتي کي قرباني دينے کيلۓ تيار بيٹھا تھا اسي طرح جس طرح بھٹو نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر مشرقي پاکستان گنوا کر اپني حکومت پکي کرلي۔
۔پھر اسرائيل کي رياست مسلمانوں کے درميان کھڑي کر دي گئ اور علاقائي بنياادوں پر بٹے ہوۓ مسلمان کسي کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔مسلمانوں کي غيرت ايسے سوئي جيسے پيدا ہي بے غيرت ہوۓ تھے۔
اس کے بعد عرب دنيا ميں تيل نکلا تو يہ خطہ ساري دنيا کي نگاہوں کا مرکز بن گيا۔ مسلمانوں کے پاس تيل نکالنے کي ٹيکنالوجي تک نہ تھي۔ ان کا تيل نکالنے کا ٹھيکہ بھي غيروں نے لے ليا اور انہي کے تيل سے منافع کما کر دنيا کي گاڑي چلانے لگے۔
پاکستان کے مسلمانوں کو ١٩٦٥ اور ١٩٧١ کي جنگوں ميں شکست سے دوچار ہوۓ۔ اسي طرح عرب بھي دونوں جنگيں ہار کر اپنے کئي علاقے بھي گنوا بيٹھے۔ پہلي جنگ ميں اپنا قبلہء اول کھونے کے بعد آج تک واپس نہيں لے پاۓ۔ آپس کے اختلافات کي وجہ سے ان کے ملکوں کو ايک ايک کرکے نشانہ بنايا جانے لگا۔
ليبيا پر حملہ ہوا کسي نے مدد نہ کي۔
عراق کو پہلے کويت پر حملہ کرنے کيلۓ اکسايا گيا اور پھر اس کي آڑ ميں بغداد کي اينٹ سے اينٹ بجا دي اور مسلمان تماشا ديکھتے رہے۔
دوبارہ دنيا عراق پر ايک چھوٹے الزام کے سہارے چڑھ دوڑي اور ہم منہ ديکھتے رہ گۓ۔ بغداد کے بچے کچھے نشانات کو مٹا ڈالا گيا۔ عراق کو نسلي فسادات کي آماجگاہ بنا کر باہر کھڑے تماشا ديکھتے رہے۔ اب عراق ہو سکتا ہے تين ملکوں ميں تقسيم ہو جاۓ اور يہي غيروں کے فائدے ميں ہے کيونکہ اسطرح ان کو تيل کي دولت پر قبضہ کرنا اور آسان ہوجاۓ گا۔
فلسطينيوں کو پچھلے چند سالوں سے اکيلا مار کھانے کيلۓ چھوڑ دي گيا ہے۔ اب تو يہ حال ہے کہ روزانہ دس بيس شہيد ہوجاتے ہيں اور ہم اس کا قصور وار بھي انہي کو ٹھرانے لگتے ہيں۔
اب لبنان کي اينٹ سے اينٹ بجائي جارہي ہے اور نام نہاد مسلم دنيا ايک دوسرے کا منہ ديکھ رہي ہے۔
اب تک جتنے واقعات ہم نے گنواۓ ہيں يہ سب مسلمانوں کي تنزلي کي سيڑھياں تھيں۔ لبنان پر حملہ ابھي آخري سيڑھي نہيں ہے۔ اس کے بعد شام، پھر ايران ، پھر پاکستان اور اس کےبعد جو جو سر اٹھاۓ گا اس کي باري آتي جاۓ گي۔
حقيقت ميں اب مسلمانوں کي لاش ميں ايک قطرہ بھي خون کا نہيں رہا اور اب اس ميںجان پڑنے کے امکانات بلکل معدوم ہوگۓ ہيں۔ اس حقيقت سے اظہر الحق صاحب نے اپنے مضمون مسلمان يکجہتي کا انتقال پرملال ميں پردہ اٹھانے کي کوشش کي ہے۔ اسي طرح اب تک افتخار راجہ اور افتخار اجمل صاحب کے مضامين بھي مسلمانوں کي بے بسي کي منہ بولتي تصاوير ہيں۔
اب حالت يہ ہے کہ جہاں چاہے جس مسلمان کو چاہيں آپ پکڑ ليں کوئي آپ کا کچھ نہيں بگاڑ سکے گا۔ چاہے اسے اسي کے ملک ميں رکھيں يا پھر کہيں اور لے جائيں اسي کے بھائي آپ کي ہر طرح کي مدد کريں گے۔
لبنان کے واقعہ کے بعد ہماري مايوسي اپني آخري حدوں کو چھونے لگي ہے مگر اميد کي تھوڑي سي آس ابھي بھي قائم ہے کہ شائد کہيں سے کوئي تحريک اٹھے اور وہ مسلمانوں کو ايک جگہ پر کجا کر دے تاکہ وہ اپنا حق حاصل کرسکيں۔
اظہر الحق، افتخار راجہ اور افتخار اجمل صاحب کے مضامين ان لنکس پر کلک کر کے پڑھے جاسکتے ہيں۔
http://azharulhaq72. . . /Blog/cns!430EB3A9F3E8C6EF!152.entry
http://urduonline.blogspot.com/2006/07/blog-post.html
http://iftikharajmal.blogspot.com/2006/07/blog-post_20.html
4 users commented in " مسلمان قصّہء پارينہ ہوۓ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبس ایسے ہی چلتا رہے گا اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی آگے اور بھی رنج و ملال کی تحریریں لکھنی ہیں
مُسلمانوں کی سلطنت کے حصے بخرے پہلی جنگِ عظيم کے بعد کئے گئے تھے ۔ پڑھئے مندرجہ ذيل يو آر ايل پر انگريزوں کی عيّاری ۔ قبلہءِ اوّل پر يہوديوں کا قبضہ جون 1967 ميں ہوا ۔ پڑھيئے ۔ صيہونيوں کا توسيعی پروگرام پر عمل درآمد ۔
بظاہر تو ايسا ہی ہے جيسے آپ نے تحرير کيا ہے ليکن ميں علامہ اقبال کو فلسفی مانتا ہوں ۔ اُنہوں نے کہا
نورِِ خدا ہے کُفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے يہ چراغ بْجھايا نہ جائے گا
http://iftikharajmal.wordpress.com/818
اِس سے پہلے کہ آپ ہم سے ناراض ہوکر رابطہ ہی توڑ لیں، آپ ہی کے بلاگ پر اپنی صفائی پیش کرنا چاہتا ہوں ـ
آپ کی تحریروں سے ظاہر ہے آپ ایک باشعور اور قوم پرست انسان ہیں جس کی وجہ سے ہم آپ کی عزت کرتے ہیں ـ لیکن آپ یہ جو ہماری قسطوں سے ناراض ہیں مجھے اسکی پرواہ نہیں ـ چند جگہوں پر آپ نے لکھا کہ آپ کو خدا کے نام کا غلط استعمال سے دل آزاری محسوس ہوتی ہے، واقع ماننے کی بات ہے کہ ہر کسی مذہب پرست کیلئے یہ رنج اور غصہ کی بات ہے ـ مگر آپ تو سمجھدار انسان ہیں، آپ نے کئی فلسفیانہ انداز کی تحریریں پڑھی ہونگی اور کئی شاعروں کی بے باکی بھی پڑھی ہونگی اور آپ نے غالب، اقبال کو بھی مختلف انداز سے پڑھا ہوگا تو پھر آپ کو میری قسطوں میں خدا کے نام کا استعمال کیوں پسند نہیں؟ اسلئے کہ ہم غالب اور اقبال نہیں بلکہ آج کے آزاد خیال ہیں؟
ایک بات یاد رکھیں آپ جس خدا کا تصور کرتے ہیں ہم بھی اُسی خدا کو مانتے ہیں، آپ کی جان جس خدا کے قبضے میں ہم بھی اُسی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ـ اسکے باوجود ہم اپنی قسطوں میں خدا کا نام استعمال کرتے ہیں جس کا ہمیں ذرا بھی افسوس نہیں ـ اپنی گذشتہ تحریر میں صاف لکھا تھا اور یہاں دوبارہ لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے اُس شخص کو خدا کا خطاب دیا ہے جو خود کو خدا سمجھ کر دنیا بھر میں ہلّا مچا رہا ہے طاقت کے زور پر غریبوں کو ہڑپ رہا ہے ـ اور ہمارے لکھنے کا انداز بھی نرالا کہ جس کی سمجھ میں آئے وہ سمجھے اور جو نہ سمجھے نہیں سمجھے ـ
شعیب
‘لبنان کے واقعہ کے بعد ہماري مايوسي اپني آخري حدوں کو چھونے لگي ہے مگر اميد کي تھوڑي سي آس ابھي بھي قائم ہے کہ شائد کہيں سے کوئي تحريک اٹھے اور وہ مسلمانوں کو ايک جگہ پر کجا کر دے تاکہ وہ اپنا حق حاصل کرسکيں۔‘
لگتا ہے آپ بھی اسی طرف بڑھ رہے ہیں جس سمت آپ نے مجھے رکنے کا مشورہ دیا تھا کہ ہمت ہارنا گناہ ہے ہميں کوشش کرتے رہنا چاہيۓ اور نتيجہ اللہ پر چھوڑ دينا چاہيۓ۔
http://www.pkblogs.com/apnadera/2006/06/blog-post_09.html
Leave A Reply