دنيا ميں جہاں کہيں بھي جنگ ہوئي ہے سب سے زيادہ نقصان اور اموات عام لوگوں کي ہوئي ہيں۔ پہلي جنگِ عظيم سے لے کر آج تک کي جنگوں کا ريکارڈ اٹھا کر ديکھ ليں ہر طرف آپ کو فوجيوں سے زيادہ سول لوگوں کي ہلاکتيں زيادہ نظر آئيں گي۔ افسوس کي بات يہ ہے کہ شکست خوردہ ملک کے سربراہوں اور جرنيلوں کو شکست کے بعد بھي کوئي آنچ نہ آئي۔ مرے صرف غريب عوام اور وہي ساري عمر شکست کا داغ اپنے سينے پر سجاۓ جينے پر مجبور ہوۓ۔
سول آبادي کے متاثر ہونے کي سب سے بڑي وجہ يہ ہے کہ فوج کو شکست دينے کي بجاۓ سول آبادي کو نقصان پہنچا کر جنگ آساني سے جيتي جاسکتي ہے۔ جب جنگ ميں عام لوگ مرنا شروع ہوتے ہيں تو وہ اپني ہي حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کرديتے ہيں جس کي وجہ سے حکومت کو وقت سے پہلے ہي ہتھيار پھينکنے پڑجاتے ہيں۔ دوسري جنگِ عظيم کو ديکھيں۔ کتنے سال جنگ فوجوں کے درميان لڑي جاتي رہي مگر تب تک شکست کسي نے تسليم نہ کي جب تک ہيرو شيما اور ناگا ساکي پر ايٹم بم پھينک کر مقامي آبادي کو مليا ميٹ نہ کر ديا گيا۔
جب بنگلہ ديش بنا تو اس جنگ ميں بھي سول آبادي کو بہت نقصان ہوا۔ اس جنگ کے بعد اب تک لاکھوں ہہاري وہاں مہاجرين کي زندگي گزار رہے ہيں اور انہيں نہ بنگلہ ديش اپناتا ہے اور نہ پاکستان واپس لاتا ہے۔ دوسري طرف جنگ کے اصل مجرموں کو حکومتيں بھي مليں اور جنرلوں کو مرنے پر اعزاز کے ساتھ دفنايا بھي گيا۔
ويتنام کي جنگ کي فلميں اگر آپ ديکھيں تو آپ کو ہرطرف عوام کي لاشيں ہي لاشيں نظر آئيں گي۔ ويتنام کي عوام اب تک اس جنگ کے اثرات سے باہرنکل نہيں پائي۔
اسي طرح بوسنيا، افغانتسان، فلسطين اور سوماليہ کي مثاليں ہمارے سامنے ہيں۔ ہر طرف عام لوگوں کي زندگي متاثر ہوئي اور حاکم مزے سے اپنے محلوں ميں بناں کسي شرمندگي کے عياشي کر رہے ہيں۔
عراق کي جنگ ميں عراقي فوج کو شکست ہوئي اور پھر شکست خوردہ فوج کو شکست کے بعد گھر بھيج ديا گيا۔ اس کے بعد جو ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اب تک اس جنگ ميں جتنے عام عراقي ہلاک ہوچکے ہيں اتنے صدّام حيسن نے بھي نہيں مارے ہوں گے۔ صدّام پر تو اس وقت عام لوگوں کو مارنے کا مقدمہ چل رہا ہے مگر جو اب ہلاکتيں ہورہي ہيں ان کا ذمہ دار کس کو ٹھيرايا جاۓ گا اور کس پر مقدمہ قائم کيا جاۓ گا۔
لبنان ميں جو جنگ ہورہي ہے يہ بھي پرانے اصولوں پر لڑي جارہي ہے۔ جب اسرائيل نے ديکھا کہ وہ آمنے سامنے آکر حزب اللہ کو شکست نہيں دے سکتا تو اس نے فضائي برتري کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ گاؤں اور شہروں پر بمباري کرکے عام پبلک کو اذيت پہنچانا شروع کردي تاکہ لوگ اپني حکومت پر دباؤ ڈال کر حزب اللہ کو شکست تسليم کرنے پر مجبور کرسکيں۔ اسي طرح حزب اللہ کو بھي معلوم ہے کہ اس کے پاس اتني طاقت نہيں ہے کہ وہ اسرائيلي فوج پر حملہ کرسکے اس لۓ وہ بھي اسرائيل کے شہروں کو نشانہ بنارہے ہيں۔
اسرائيل لبنان کي اس جنگ کا بھي يہي حال ہے۔ مقامي آبادي اسرائيل کے ساتھ ملنے پر تيار نہيں۔ ميداني جنگ میں اسرائيل کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جس کي وجہ سے حکومت کو اپنے عوام کے برہم ہونے کا ڈر ہے۔ فضا سے گوريلوں کي منتشر فوج کو دو چار گولے برسا کر ختم کرنا ناممکن ہے۔ اس لۓ اسرائيل مقامي آبادي کو ہلاک کر کے لبنان کو گھٹنے ٹيکنے پر مجوبور کرنے کي کوشش کر رہا ہے۔ اب نہ ان سول ہلاکتوں کو جرم کا درجہ ديا جارہا ہے اور نہ کوئي شرم محسوس کي جارہي ہے۔
پرانے زمانوں ميں جنگيں اسي لۓ شہروں سے باہر کھلے ميدانوں ميں لڑي جاتي تھيں تاکہ عوام اس جنگ کا ايندھن نہ بنيں۔ اکثر تو پہلے انفرادي طور پر مقابلہ ہوتا تھا اور اس کے بعد فوجيں آپس ميں لڑائي شروع کيا کرتي تھيں۔ وہ زمانہ غيرت کا زمانہ تھا اور يہ زمانہ بے غيرتي کا زمانہ ہے۔ اس وقت پيچھے سے وار کرنا بزدلي سمجھا جاتا تھا اور پيچھےسے وار کرنے والے کي معاشرے میں کوئي عزت نہيں ہوا کرتي تھي۔ اب راتوں رات بمباري کرکے سوۓ ہوۓ لوگوں کو ان کے بيوي بچوں سميت ہلاک کرنا ايک فن مانا جاتا ہے۔
دنيا نے جہاں ٹيکنالوجي میں ترقي کي ہے وہاں اخلاقيات ميں اپنا جنازہ بھي نکالا ہے۔ اب آپ سامنے ميدان ميں نہيں آتے اور اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کيلۓ وہ وہ حربے استعمال کرتےہيں جو کبھي بزدل اورڈرپوک لوگ کيا کرتے تھے۔ اب ورغلا کر جال ميں پھنسانا ايک پيشہ بن چکا ہے۔ اب جنگيں اس اصول پر لڑي جاتي ہيں کہ جنگ اور پيار ميں سب جائز ہے۔
کيا ہي اچھا ہو اگر اب بھي پراني جنگوں کے اصول دوبارہ اپنا لۓ جائیں۔ دونوں فريق ايک کھلے ميدان ميں اپنے اسلحے کيساتھ آمنے سامنے جمع ہوجائيں۔ سب سے پہلے دونوں اطراف کے بہادر آپس ميں ماقابلہ کريں اور اس کےبعد اگر چاہيں تو باقاعدہ لڑائي لڑ ليں۔ اس طرح عام لوگ بھي جنگ کے اثرات سے محفوظ رہيں گے اور بہادراور طاقتور کون ہے اس بات کا بھي پتہ چل جاۓ گا۔ مگر اب ايسا کرنا ناممکن ہے وہ اسلۓ کہ آج کا انسان بہادر نہيں رہا بلکہ چالاک اور مکارہوگيا ہے۔
No user commented in " جنگيں اور عوام "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply