کامیاب ہفتہ بلاگستان کا آخری موضوع ٹیکنالوجی ہے۔ امید ہے سب لوگ اظہارِ خیال کریں گے کیونکہ اس موضوع پر ہمیں بہت سا مواد مل جائے گا۔ جہاں تک ہم ہیں تو ہم ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان اور مسلمانوں کے حصے پر اظہارِ خیال کریں گے۔
جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہمارے عالمِ دین اور حکمران ہمیشہ یادِ ماضی پر اظہارِ خیال کر کے خود بھی خوش ہوتے رہے ہیں اور سامعین کو بھی خوش کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو نبی پاک صلعم کے دور سے ہوتے ہوئے پہلے چار خلفائے راشدین اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے پر بات ختم کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور مسلمانوں کا دنیاوی ترقی میں حصہ کہیں نظر نہیں آتا۔
پاکستان کی تاریخ کی اگر بات ہو تو ہم قائداعظم اور لیاقت علی خان سے آگے بڑھ نہیں پاتے۔ اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو پاکستان کا کہیں بھی نام نہیں آتا سوائے ایٹم بم بنانے کے لیکن یہ بھی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ ویسی ہی چرائی ہوئی ہے جیسے امریکہ نے جرمنی کے سائنسدان کو امریکہ شفٹ کرا کے ایٹم بم بنایا تھا۔
پچھلے دو سو سال میں ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی ہے اتنی ترقی نوعِ انسانی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ اس ساری ترقی میں کہیں بھی مسلمانوں اور پاکستانیوں کا حصہ نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں نے بس اتنا کیا ہے کہ جو تیل ان کے علاقوں سے نکلا وہ یورپ کو اونے پونے داموں بیچ کر اسے ترقی کرنے کے قابل بنا دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تیل بھی یورپی ٹیکنالوجی سے نکالا جا رہا ہے۔ اگر آج یورپ اپنی ٹیکنالوجی واپس لے لے تو عرب پھر صحرانوردوں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس تیل کی دولت کو عربوں نے ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے کی چنداں کوشش نہیں کی۔ بس عرب دنیا میں محلات اور بڑی بڑی بلڈنگیں بنوائیں۔ تیل کی اس دولت کو نہ انہوں نے تعلیم پر خرچ کیا اور نہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر۔ عربوں کی آج حالت یہ ہے کہ وہ اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کا مقابلہ مل کر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اسرائیل کے مقابلے میں عرب ٹیکنالوجی میں صفر ہیں۔ اگر عرب مسلمان تھوڑے سے بھی باشعور ہوتے تو تیل کی طاقت کے بل بوتے پر آج دوسری سپر پاور ہوتے۔
ہم مسلمانوں بشمول پاکستانیوں کا صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ یورپ کی ایجادات کو استعمال کریں اور نئی ایجادات کا انتظار کرتے رہیں۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ چھلانگ اگر لگائیں گے تو موجودہ ٹیکنالوجی کو کاپی کر لیں گے اور بعض اوقات تو عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے اس کاپی شدہ ٹیکنالوجی کو ایجاد کا نام دے دیں گے۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں الیکٹرونکس کی ترقی نے دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا ہے مگر مسلمانوں کا حصہ اس میں صفر کے برابر ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ سستی اور کاہلی ہے یعنی عوام نشئی لوگوں کی طرح حال مست اور مال مست ہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے حکمران کس طرح ان کے مفادات بیچ رہے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ حکمرانوں کی غلامی اور بے حسی ہے۔ مسلمان دنیا کے حکمران صرف اپنے پیٹ کی فکر میں پڑَ ہوئے ہیں انہیں مستقتبل کی فکر نہیں ہے۔ انہیں فکر ہے تو صرف اپنے اقتدار کی چاہے اس کیلیے انہیں اپنی ماں بہن، عوام اور اس سے بڑھ کر اپنے وطن کو ہی بیچنا پڑ جائے وہ بیچ دیں گے۔
تیسری بڑی وجہ مسلمان دشمن دنیا کا مسلمانوں کو پستی میں رکھنے کا مشن ہے اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی ہیں مگر ہم انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ وہ جو بھی کر رہے ہیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے کر رہے ہیں۔ مجرم تو مسلمان ہیں جو ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور زیادہ تر ابھی بھی تھرلڈ ورلڈ یعنی ترقی پذیر دنیا میں رہ رہے ہیں۔
10 users commented in " یومِ ٹیکنالوجی – ہفتہ بلاگستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے مسلمانوں کے علمی عروج کا رابطہ بہت پہلے توڑ دیا۔۔ اندلس کے زوال تک ایک عظیم تاریخ موجود ہے لیکن اس کے بعد درست ہے کہ رفتہ رفتہ علم دوستی ماند پڑتی گئی۔ بالکل تاریکی تو نہیں کہہ سکتے کہ جگہ جگہ چراغ جلتے رہے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی امت پر جمود رہا ہے اور جو کوئی کچھ کرتا بھی گیا اس کو کافر قرار دے دے کر امت سے خارج کردیا گیا تاکہ اتحاد امت پارہ پارہ نہ ہو۔
پاکستان میں جگہ جگہ آپ کو ڈھونڈنے پر ایسے افراد مل جائیں گے جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کوئی نیا خیال پیش کیا، یہ کوئی چیز بنائی تو مالی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اور حکومت کے کسی فرد کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے وہ چیز وہیں ٹھپ ہو گئی، کچھ عرصہ بعد یہی صلاحیتیں امریکیہ اور یورپ کے کام آ جاتی ہیں، اسی طرح پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبا بھی جلد امریکہ سدھار جاتے ہیں، یا بلا لیے جاتے ہیں، اسکا ایک ہی سبب ہے سیاستدانوں کی عدم توجہی اور نظام کی کمزوری
راشد بلاگی فرماتے ہیں
جو کوئی کچھ کرتا بھی گیا اس کو کافر قرار دے دے کر امت سے خارج کردیا گیا تاکہ اتحاد امت پارہ پارہ نہ ہو۔
ذرا وضاحت فرما دیں اور حوالہ دیں ایسے واقعیات کا
معلومات میں اضافہ ہوگا
دو سقوط مسلمانوں پہ بھاری گزرے ہیں۔ ایک سقوط بغداد دوسرا سقوط اندلس یا سقوط غرناطہ۔ اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
پچھلی دو یا تین صدیوں میں مسلمانوں کا دنیا کی سائینسی ترقی میں کوئی خاص کردار نہیں رہا۔ مگر اس میں محض مسلمان قوموں کا قصور نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک علم و تحقیق کا پلڑا مسلمانوں کے حق میں بھاری رہا ۔ مسلمانوں نے بلا تمحیص تمام مذاہب کے علم کے شیدائیوں اور عالموں کے لئیے جماعات کے در وا کئیے رکھے۔ اندلس کی علمی جامعات میں یوروپ کے دوسرے ممالک سے آئے غیر مسلم اسکالروں اور طلباء کو ہر قسم کی مفت سہولیات مہیا کی جاتیں تھیں۔
مگر جب علم کا پلڑا دوسری قوموں کے حق میں بھاری ہوا تو انہوں نے اسی علم و تحقیق کے بل بوتے پہ مسلمانوں سے اپنے پرانے تعصب کا اہتمام پورا پورا کیا اور غیر مسلم ریاستی اتحادوں میں اس بات کا پورا اہتمام کیا جاتا تھا کہ کسی بھی صورت میں مسلمان قوم کے مرد وذن کو کسی قسم کا کوئی ریلیف یا سہولت نہ ملے۔
آج بھی یہ وہی پرانی خواہیشیں پھر سے نئے الفاظ پہن کر عود کر آئیں ہیں۔ برطانیہ سے پاکستانی طلبہ پہ نام نہاد دہشت گردی کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دینا طلبہ جوجائزطور پہ ویزا کی ساری شرائظ پوری کر کے آئے تھے اور قانونی طور پہ برطانیہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کر رہے تھے۔ بعد ازاں الزامات کے درست نہ ہونے پہ بجائے اس کے کہ ہوم ڈپارٹمنٹ ان سے معافی مانگتا الٹا انہیں ملک بدر کر کے ان کے تعلیمی کئیرر کو ختم کر دیا۔ اب آپ بتائیں انکی اس دوران دو تین سال کی محنت کس کھاتے گئی۔ اور جو مشقت اور مصائب انہیں بھگتنے پڑے۔ وہ الگ سے ہیں ۔ ایسے میں کون کون اپنا سرمایہ لٹا کر برطانیہ جا کر صبر آزما حالات میں چار یا پنس سال کی ڈگری کی خواہش کرے گا ۔ جب کہ پاکستان کی ایک اوسط کلاس فیملی کی جو مالی استعاعت ہوتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ بر طانی اور انگریز جو اپنے آپ کو شائستہ اطوار اور تہذیب یافتہ کہلواتے نہیں تھکتے۔ جہاں جمہوریت جمہوریت کا جاپ دن رات جاپا جاتا ہے۔ مگر پاکستان کے بڑے مجرموں کو پورے پروٹوکول اور ٹھاٹھ باٹھ سے نہ صرف رکھا جاتا ہے بلکہ پاکستان کے آئیندہ کہ ایسی قومی مجرموں کی نا صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ انہیں پاکستان میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستان کے قومی مناصب پہ پہنچانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جبکہ چند بے گناہ غریب پاکستانی قوم کے اسٹوڈنٹس سے ان کے ظرف اور اخلاق کا اور غیر انسانی برتاؤ کا یہ عالم ہے۔ کہ نہ ان کے اور نہ ہی دنیا اور پاکستان میں قائم قسم قسم کی رنگ برنگی انسانی حقوق اور طلبہ کے حقوق کے کانوں پہ جوں رینگی ہے۔ جبکہ کہ پاکستان میں ایک چڑیا کے بھی ناحق مارے جانے پہ یہ قومیں اور پاکستان کی اندرونی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں این جی اوز چیخ چیخ کر سر آسمان پہ اٹھا لیتی ہیں۔ اور سازش یہ ہے کہ نہ آپ میں ۔ نہ عوام میں اور نہ ہی ہمارے قومی ادروں بشمول حکومتِ پاکستان میں یہ جراءت ہے کہ وہ پاکستان کے اندر ایسی نام نہاد این جی اوز سے اس دو رخی اور دوغلی پالیسی کا حساب مانگ سکیں۔
یہ تو صرف جدید تہذیب یافتہ اور اول دنیا کے ایک انگریز ملک برطانیہ اور تاج برطانیہ کا تیسری دنیا کے ایک غریب مسلمان قوم کے چند مسلمان اسٹوڈنٹس کے ساتھ اکسویں صدی میں غیر اخلاقی اور کم ظرف برتاؤ کا عالم ہے۔ اب آپ باقی ممالک کا مسلمان قوموں کے ساتھ تعلیمی برتاؤ دیکھ لیں۔ آپ امریکہ میں غالبا مکینکل انجنئر ہیں آپ ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی خواہش کریں گے تو آپ کے بھی پر کاٹ دئیے جائیں گے۔ امریکہ نے کھربوں ڈالر کی بھیک خیرات اور امداد کے نام پہ مسلمان ملکوں پہ سودی قرضہ کا بوجھ لاد دیا ہے ۔ مگر کبھی کوئی یونیورسٹی یا علم تحقیق کے لئیے کسی مقامی منصوبے میں مدد نہیں کی جس میں مکمل طور پہ مقامی قوم کو فائدہ ہوتا ہو ۔ ہاں البتہ جہاں اسے روپے میں سے چودہ آنے کا اپنا مفاد نظر آیا وہاں اس نے دلچسپی ظاہر کی ۔ یہ اکیسویں صدی کی باتیں ہے جو میڈیا یا کسی اور وجہ سے ہم تک کچھ نہ کچھ پہنچ پاتی ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں پچھلی صدیوں میں ان غیر قوموں نے کیا کیا جبر ہم پہ مسلط نہیں کیا ہوگا۔ کل کی نوآبادیات اور آج کی عراق افغانستان جنگ اور پاکستان اور عرب دنیا سے بدمعاشی و بلیک میلنگ اور پتھر کے دور میں پہنچا دئیے جانے کی دھمکیاں ذہن میں رکھیں۔
کسی قوم کے پڑھے لکھے ہونے اور علمی و تحقیقی میدان میں ترقی یافتہ ہونے میں خاصہ فرق ہے ۔ اور علمی و تحقیقی میدان میں آگے بڑھنے کے لئیے ایک پوری قوم کا انتہائی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تا کہ ان میں شعو رو آگہی کا وصف اعلیٰ معیار پہ ہو اور وہ پوری قوم ایک ہی رفتار سے ترقی کر سکے اور علم و سائینس میں نام پیدا کرسکے ۔ اس کے لئیے محاول کا سازگار پرسکون اور پر امن ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ جسے سیاسی مالی اقصادی استحکام کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ آپ اپنے اردگر نظر ڈالیں این قوموں نے مسلمان قوموں کے جو حالات پچھلی دو تیں صدیوں سے کر رکھے ہیں کیا ان حالات میں مندرجہ بالا اسباب پیدا کئیے جاسکتے ہیں۔
آپ ہمیشہ ہر بات مین مسلمانوں کو قصور وار ٹہرا کر عربوں کے تیل پہ ختم کر دیتے ہیں۔ کہ انہوں نے تیل بیچا اور ترقی نہیں کی۔
محترم جس دن جس عرب ملک کے حکمرانوں نے امریکہ کی پٹھو گیری چھوڑ کر ترقی کر اپنے ملک کی ترقی کے خواب دیکھے اسی دن سے امریکہ عراق اور عراق کے صدام جیسے انجام سے انہیں دوچار کرنے کا آگاز کر دے گا۔ آپ کے خیال میں عراق میں ترقی نہیں ہوئی تھی کیا۔؟ لوگ کہتے ہیں صدام ڈکٹیٹر تھا اسلئیے اسے پھانسی چڑھا دیا گیا ۔ تو مشرف کیا تھا اسے کیوں ابھی تک امریکہ و بر طانیہ اتنے پیار سےاپنی چھاتی سے لگائے پھرتے ہیں۔ ساری دنیا نے امریکہ اور بش کذاب کے جھوٹ کا مشاہدہ کیا کہ کہ عراق سے اجتماعی تباہی کےہتیاروں کا واویلا جھوٹ پر مبنی پروپگنڈا تھا مگر کسی کو یہ جرائت نہ ہوئی کہ امریکہ سے کہتے کہ اگر عراق میں سے اجتماعی تباہی ہتیار (جو امریکہ کے پاس ساری دنیا سے بڑھ کر ہیں) برآمد نہیں ہوئے تو اب آپ عراق کی جان چھوڑ دیں کیونکہ صرف صدام اور امریکہ کا جھگڑا نہیں بلکہ ایک پوری قوم اور ملک ہے۔ مگر نہیں صاحب عرب ممالک کو اتحاد اور ترقی کے خواب دکھانے والے اور عرب ممالک میں سے اس وقت تک سب سے ترقی یافتہ ملک عراق کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجادی گئی ہے مگر اب تک امریکہ کے ظلم کو صبر نہیں آرہا۔
آپ ایک سوال کا جواب دیں عراق کو واپس اسی جگہ پہ پہنچنے کے لئیے اور اس دوارن انسانی اور قومی المیوں کے گھاؤ بھرنے کے لئیے کتنی نسلیں درکار ہونگی ۔؟ تب تک غیر مسلم اقوام تعلیم و تحقیق کے میدان میں کتنی ترقی کر چکی ہونگی؟ کیااب بھی آپ کے خیال میں مسلمانوں کی ترقی روکنے اور تعلیم و تحقیق سمیت ملکی سیاسی مزھبی، اقتصادی استحکام کو ختم کرنے میں آپ کو غیر مسلم اقوام خاص کر امریکہ و برطانیہ کا ہاتھ نظر نہیں آتا،؟
آپ نے یہ بات کس قدر آرام سے کہہ دی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام چوری پہ مبنی ہے۔ مجھے آپ کی معلومات پہ حیرانگی ہوتی ہے۔آپ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں وہی زبان استعمال کی ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے دشمن بھارت ، اسرائیل اور امریکہ سمیت دیگر ممالک استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اپنی سر توڑ کوششوں سے بھی وہ یہ الزام پاکستان پہ ثابت نہیں کر سکے۔ آپ کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ پاکستان کے موجودہ ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر قدیر کے پاکستان آجانے کے بعد ڈاکٹر صاحب پہ تب ہالینڈ میں اپنی جاب کے دواران کچھ معلومات کی چوری کاجھوٹا الزام لگایا گیا تھا اور جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے سامنا کیا اور اس مقدمے کو جھوٹا ثابت کیا ۔ اور آج آپ کتنے آرام سے پاکستان پہ چوری سے ایٹم بم بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس الزام کے پیچھے آپ کے درپردہ مقاصد (اگر کوئی ہیں تو) سے میں لاعلم ہوں مگر یہ بات آپ کو زیب نہیں دیتی۔
آپ نے اگر اپنی آنکھوں سے پاکستانی جوہر قابل کو نہیں دیکھا تو اسکا مطلب ہی نہیں کہ ُ ُ عقل و علم“ صرف امریکہ و برطانیہ کی وراثت ہے۔ پاکستان پہ چوری کر کے ایٹمی طاقت بننے کا الزام درست نہیں۔
میری ذاتی رائے میں ستر سالہ بوڑھے صدام حسین کو امریکہ نے اس لئیے پھانسی نہیں چڑھایا تھا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر یا ظالم قاتل تھا۔ یہ بات نہیں تھی کیونکہ اگر ایک ایسے بوڑھے شخص کو جو کتنا بھی ظالم ہو اور وہ شروع جوانی سے مطلق العنان حکمران رہا ہو اور اس کے خاندان کے سب افراد کو چن چن کر ختم کر دیا گیا ہو۔ اس کا ملک اس سے چھین لیا گیا ہو۔ اسکی جی بھر تذلیل کی گئی ہو۔ اسکے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا دی گئیں ہوں ۔ ایسے بوڑھے شخص کو خواہ کسقدر ہی قاتل کیوں نہ ہو ۔ اسے ھندؤستان کے آخری بوڑھے مغل تاجدار بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ کئیے گئے سلوک کی طرح اس کے باقی خاندان کو اسکے سامنے قتل کرنے کے بعد صرف اسلئیے گوآنتاناموبے میں قید کر کے سسک سسک کر مرنے کے لئیے لے جایا جاتا تو صدام اتنے پے در پے صدمات کے بعد شاید ہی دوچار سال جی پاتا۔ مگر اسے پھانسی چڑھانا اور اسکی پھانسی کی غیر ضروری طور پہ تشہیر کرنا اسلئیے ضروری قرار دیا گیا۔ کہ مسلمان ممالک کا باقی بکاؤ مال جس طرح ننگ ملت مشرف وغیرہ کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ اگر ہمارے مفادات کی تکمیل میں ذرا سی بھی چون چرا کی تو کل کو تمھاری باری بھی بعین اسی طرح آسکتی ہے۔
مگر صدام کی وہ پھانسی ایک پروی مسلم دنیا کے نوجوانوں میں پھانس بن کر اٹک گئی ہے۔ وہ اسے ایک ڈکٹیٹر کی بھانسی کی بجائے مسلمان قوم کی تذلیل کے طور پہ سمجھتے ہیں۔
اس لئیے یہ الزام دینا کہ تعلیمی ترقی کے لئیے مسلمان سوئے ہوئے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں جس دن بھی کسی بھی مسلمان قوم نے دلجمعی سے ترقی اور تحقیق کی کوشش کی اسے عراق و صدام کے انجام سے دوچار کیا جائے گا۔ اور پقوی ایک قوم کی ترقی کے بغیر مسلمان اکا دکا انجنئیر یا سائنسدان پیدا کرتے رہیں اس سے اقوام بالا کو مسلمانوں کی تہذیبی اور علمی غلبے کا کوئی خطرہ نہیں۔ مسلمانوں تبھی علمی و تحقیقی ترقی کر سکتے ہیں جب تک وہ غیر اقوام سے اقتصادی ، معاشی، دفاعی نیز ہر قسم کی آزادی حاصل نہیں کر لیتے۔ اور اپنے افرادی، معاشی ، دفاعی وسائل کو ترقی دینا اور ان پہ انحصار کرنا نہیں سیکھتے۔
ایٹمی ٹیکنالوجی والی بات سے اتفاق کرتا ہوں جاوید صاحب، اسکے علاوہ ہتھیاورں، طیارہ سازی وغیرہ وغیرہ میں پاکستان چاہے چاینہ کی مدد سے ہی، لیکن بھارت سے بہت آگے ہے،
معذرت کے ساتھ افضل صاحب سے گزارش کروں گا، کہ امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے بنیادی نظریات بہت خراب ہو چکے ہیِں
یاسر عمران صاحب بنیادی نظریات خراب نہیں ہوئے بلکہ آنکھیں کھل چکی ہیں اور جو حقائق پاکستان میں رہ کر نظروں سے اوجھل تھے اب نظر آنے لگے ہیں۔ اگر آپ اس موضوع پر اپنے بلاگ پر کچھ لکھیں تو ہم بھی جانیں آپ کے دل میں کیا ہے؟
جاوید صاحب۔ آپ کی باتوں سے اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ میں نے تو امریکہ میںپڑھا بھی اور رہتا بھی ہوں۔ 911 کے دن بھی امریکہ میںتھا اور اس کے بعد بھی۔ مجھے تو ایسا کچھ نہ دیکھنا پڑا جس سے میں امریکہ کو متعصب سمجھ سکوں۔ یورپ کا حال البتہ دوسرا ہے کہ وہاںمختلف تعصبات عام ہیں۔ مسلمانوںکے زوال کی وجہ و خود ہیں۔ اور کسی کو کیا پڑی ان کے فائدے کی سوچے جب انہیں اپنے فائدے کی خود ہی پرواہ نہیں؟
خُرم محترم!
یہاں کسی ایک فرد کی تعلیم پہ بات نہیں ہورہی بلکہ بہ حثیت ایک مذہب اور تہذیب مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا اور متواتر پیچھے رہ جانا زیر موضوع ہے۔ میں نے اپنے تبصرے میں بھی ان الفاظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پوری ایک قوم کی ترقی کے بغیر مسلمان اکا دکا انجنئیر یا سائنسدان پیدا کرتے رہیں اس سے اقوام بالا کو مسلمانوں کی تہذیبی اور علمی غلبے کا کوئی خطرہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔یہاں ان وجوہات پہ بات کی جارہی جن وجہ سے مسلمان علمی و تحقیقی میدان میں پیچھے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ آپ نے کس موضوع میں اور کیا اسٹڈی کی ہے۔ مگر اس بات کا علم نہ صرف مجھے بلکہ بہت سے لوگوں کو بھی ہے کہ امریکہ میں مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے محقیقین اور سائنسدانوں کو کچھ مخصوص قسم کی اعلٰی ٹیکنالوجی سے غیر متعلقہ رکھنے کے بارے میں ان اداروں کو پینٹا گون کی کچھ مخصوص ایڈوائسز ہیں۔
مجھے آپ کی اس بات سے کسی حد تک اتفاق ہے کہ ۔۔۔۔اور کسی کو کیا پڑی ان (مسلمانوں) کے فائدے کی سوچے جب انہیں اپنے فائدے کی خود ہی پرواہ نہیں؟
جب کسی قوم کو سیاسی غلبہ حاصل ہوتا ہے تو دنیا جہاں کے دانشور اور سائنسدان ادھر کا رخ کرتے ہیں کہ انھہیںاپنے کام کا قابل قدر صلہ ملتا ہے۔
عروج بغداد کے دوران بھی دنیا بھر کا علمی سرمایہ ادھر کی جانب رواں رہتا تھا آج کل مغرب کا رخ کرتا ہے۔
رہ گئی بات تو اس پر طویل بحث ہو سکتی ہے کہ سیاسی غلبہ کے لئے پہلے علمی اور تکنیکی ترقی کی ضرورت ہے یا سیاسی غلبہ حاصل ہو جانے کے بعد علمی اور تکنیکی ترقی شروع ہو جائے گی۔
تاہم دونوں صورتوں میں دیانت دار قیادت کی شرط اول ہے۔
Leave A Reply