ہمارے ایک دوست کو ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ خیال آیا کہ اگر اس کو کچھ ہوگیا تو اس کے بیوي بچوں کا کیا بنے گا۔ انہوں اپنی بیوی کو اپنی زندگی میں ہی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا ارادہ کیا اور اس کیلۓ ہوزری اور بوتیک کا کاروبار شروع کیا۔ انہوں نے بازار ميں کراۓ پر دکان لینے کی بجاۓ اپنے محلے ميں ہی اپنے گھر کی دکان میں ہوزری کا سامان رکھا تاکہ وہ مناسب قیمت پر اشیاء بیچ سکیں۔
ہمارے دوست کا مسٔلہ یہ ہے کہ اگر وہ اشیاء کی قیمت کم رکھتے ہیں تو لوگ گھٹیا سمجھ کر نہیں خریدتے۔ اگر وہ یہ اشیاء مقامی سمجھ کر سستی بیچتے ہیں تو پھر بھی لوگ امپورٹڈ مال دکھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر لوگوں کی ڈیمانڈ کے مطابق انہی اشیاء کو وہ امپورٹڈ کہ کر بیچتے ہیں تو پھر منافع بھی زیادہ ہوتا ہے اور سیل بھی مگر ان کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے گاہکوں سے دھوکہ کریں۔ بقول ان کے یہی مال لوگ امپورٹڈ بنا کر بیچ رہے ہیں اور کسی کو کوئی شکائت بھی نہیں۔ اب وہ ہم سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کونسی سٹریٹیجی اپنائیں کہ ان کی دکان بھی چل پڑے اور ایمانداری بھی قائم رہے۔
ہمارے ایک دوست جو امریکہ میں ہوتے ہیں اور آٹو انڈسٹری میں کام کرتےہیں انہوں نے ہمیں بتایا کہ امریکن ہمیشہ امریکن گاڑی کو جاپانی گاڑی پر ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاپانی گاڑي معیار میں اچھی اور پائیدار ہے مگر وہ مقامی انڈسٹری کی سپورٹ کیلۓ مقامی گاڑی ہی خریدتے ہیں۔ بقول دوست کے اگر کوئی امریکن جاپانی گاڑی پر کام پر چلا جاۓ تو لوگ اسے غلط نظروں سے دیکھتے ہیں اور بعض اوقات تو کوئی دل جلا گاڑی پر لکیریں بھی ڈال جاتا ہے۔ ابھی پچھلے مہینے کی بات ہے دوست کے مینیجر نے گاڑی خریدنے کا پروگرام بنایا اور دوست نے اسے جاپانی گاڑی خریدنے کا مشورہ دیا مگر اس نے یہ کہ کر دوست کا مشورہ ٹھکرا دیا کہ اسے اپنے کام کے سلسلے میں دوسری فیکٹریوں میں بھی جانا پڑتا ہے اور وہ جاپانی گاڑی لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ لوگ اس کا مزاق اڑائیں گے بلکہ اس کےکام میں بھی روڑے اٹکائیں گے۔
لیکن پاکستان میں بابا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم مقامی اشیاء کی بجاۓ امپورٹڈ پر فخر محسوس کرتے ہیں اور پھر شان سے دوست احباب کو دکھاتے پھرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بہت ساری چیزیں پاکستان میں ہی بنتی ہیں مگر انہیں امپورٹڈ کا لیبل لگا کر مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں حکومت بھی شامل ہے اور پچھلے کئ سالوں سے تمام حکومتوں نے ہر بجٹ میں امپورٹ ڈیوٹیاں کم کرکے درآمدات بڑھائی ہیں اور مقامی صنعت کا بیڑا غرق کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اب سوئی سے لے کر مشینری تک درآمد کر رہا ہے ۔ بلکہ اب تو لوگ پرزے منگوانے کی بجاۓ اشیاء اسمبل بھی چائنہ سے کروا کر اس پر اپنی کمپنی کا لیبل لگا کر بیچ رہے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے کی واشنگ مشینیں بنانے کی فیکٹری ہے اور وہ بھی اب اسی بات کا رونا رو رہے تھے کہ پاکستان کے مقابلے میں چائنہ سے بنوائی ہوئی مشين سستی پڑ رہی ہے اور لوگ صرف اس پر اپنی کمپنی کا ٹھپہ لگا کر بازار ميں بیچ رہے ہیں۔ یہ سب امپورٹ ڈیوٹی میں کمی کی وجہ سے ہورہا ہے۔
انڈیا بھی اب اسی راہ پر چل پڑا ہے۔ مگر سرد جنگ کے دنوں میںجب انڈیا میں گاڑیاں امپورٹ کرنے پر پابندی تھی اس کی مقامی ماروتی کار کی صنعت نے کافی ترقی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ماروتی کار کی صنعت امپورٹڈ گاڑیوں کا مقابلہ کررہی ہے۔ اگر انڈیا بھی مقامی صنعت کو تحفظ نہ دیتا تو آج اس کی اپنی گاڑی مارکیٹ میں نہ ہوتی۔
ہم نے دوست کو بتایا کہ اس کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں۔ ایک آسان راستہ ہے اور وہ ہے باقی لوگوں کی تقلید کرتے ہوۓ مقامی اشیاء کو امپورٹڈ بناکر بیچنے کا جس میں منافع بھی زیادہ ہے اور محنت بھی کم۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی دھن میں لگے رہو اور ایک دن آۓ گا جب لوگ امپورٹڈ کی بجاۓ آپ کے نام سے چیزیں خریدا کریں گے۔ یہ راہ کٹھن اور لمبی ہے مگر ناممکن نہیں۔
دوست نے ایک اور آسان حل تلاش کیا ہے۔ وہ اپنے کاروبار کو بند کر نے لگا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اسطرح بیوی کی خواری سے جان چھوٹ جاۓ گی اور دھوکے فریب کا کاروبار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کا اپنا ہومیوپیتھک کا کلینک اچھا چل رہا ہے اور وہ اسی پر قناعت کرے گا۔ مرنے کے بعد بال بچوں کا کیا ہوگا یہ سب خدا پر چھوڑ دیا ہے۔
3 users commented in " مقامی بمقابلہ امپورٹڈ مال "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے پاکستانی معاشرے میں پنپنے والی انتہا آہم اخلاقی بیماری پر سے پردہ اٹھایا ہے ۔
روم ایک دن میں نہیں بنا تها ـ معیار اپني جگه بنا لیتا هے ـ اگر ان صاحب کا کلینک چل رہا هے تو اور بهی اچها هے که ان کو منافع میں دیر اثر نہیں کرے گي ـ
ان کو چاهیے که ایک معیار بنا لیں اور اس پر قائم رهیں ـ لیکن بہت ضروری چیز یه هے که ان کو صاحب کو پته هونا چاهییے که معیار ہوتا كیا هے ؟
میں نے بہت سے پاکستانیوں کو دیکها هے که ان کو معیار کا هي پته نہیں هے ـ
میں ایک غریب آدمی ہوں مگر کپڑے پہنتا هوں کرسچن ڈیور ـ ورسیچ ـ بوس ـ آرمانی ـ لیوی بیٹون ـ پیرکارڈن ـ ڈن هل ـ جیسي بڑي بوتیکوں کے ـ
یقین کریں که آچ تک کوئي پاکستانی ان کپڑوں کي پہچان نہیں کر سکا ـ مگر تهوڑا یا ذیاده ذوق رکهنے والے یه ضرور کہتے هیں که ـ ـ پته نہیں کیوں تم جو بهی کپڑا پہنتے ہو تمہیں جچتا بہت هے ـ ـ
اور ان کو بتانے کے باوجود بهی کم هي سمجھ لگتی هے ـ
میں رالف لاؤرن کي ایک شرٹ اٹهانوے سے لے کر دو ہزار پانچ تک پہنتا رها ہوں ـ
مجهے یه کپڑے سستے پڑتے ہیں ـ
باقی جب میں پاکستان میں ہوتا هوں تو صرف لٹها پہنتا ہوں ـ
لٹھے دي گل ای ہو اے جي ـ
آگر آپ کے یه دوست کوشش کریں تو پاکستان میں معیار کي بارش کا پہلا قطره بهی بن سکتے هیں ـ
امریکہ میں امریکن گاڑیوں کی زیادہ فروخت بجائے جاپانی گاڑیاں پسند کرنے کی دو وجوہات ہیں، ایک کم قیمت اور کم انشورنس، دوسرا باڈی پارٹس عام مل جاتے ہیں اور وہ بھی سستے ہیں، اور سب سے بڑی بات امریکی گاڑیوں کا اپنا سٹائل ہے جِسے آپ امریکن سٹائل کہہ سکتے ہیں کہ گاڑیاں بڑی ہوتی ہیں، جبکہ جاپانی گاڑیاں چھوٹی
Leave A Reply