جب اپنے بچوں کو روزوں میں نڈھال ہوتے دیکھتے ہیں اور کئی دفعہ وہ تراویح کیلیے مسجد نہ جانے کے حیلے بہانے تراشتے ہیں تو ہمیں اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔ پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ جیسا باپ ویسی اولاد۔ ابھی کل ہم افطاری کیلیے مسجد بچوں سمیت تشریف لے گئے مگر مجال ہے جو ہمارے بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا ہو۔ کہنے لگے کھانا ٹھنڈا ہے اور مزیدار بھی نہیں ہے۔ ہم جب اپنا موازنہ اپنے بچوں سے کرتے ہیں تو انہیں بہت بہتر پار کر سارا کریڈٹ ان کو ماں کو دے کر مطمن ہو جاتے ہیں۔
ہمارے بچپن میں اکثر لوگ کھانے کیلیے چاول مسجد بھیجا کرتے تھے اور جو امیر ہوتے وہ پھل فروٹ، روح افزا اور مٹھائی کا بھی اضافہ کر دیتے۔ افطاری کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے کھجور سے روزہ کھولتے، پھر مشروب پیتے اور جو بھی کھانے کیلیے ہوتا کھا کر نماز باجماعت پڑھتے۔ ایک دن کسی امیر آدمی نے افطاری کا بندوبست کیا اور بہت سارے لوازمات کا اہتمام کیا۔ کھانا چونکہ زیادہ تھا اسلیے امام مسجد نے حکم دیا کہ آج جماعت کے بعد کھانا تناول فرمایا جائے گا۔ سب نے کھجور سے روزہ کھولا اور مشروب پی کر نماز باجماعت پڑھنا شروع کر دی۔ ہم میں سے ایک ہمجولی کو شرارت سوجھی اور ہمارے گروپ نے تمام کھانا اٹھایا اور مسجد کے پچھواڑے میں چلے گئے۔ پہلے پیٹ بھر کر کھایا اور جو بچ گیا اسے وہیں چھپا کر نماز میں آ شامل ہوئے۔ نماز کے بعد جب کھانے کی باری آئی، تو کھانا غائب۔ ابھی نمازی لڑکوں کی چھترول کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ سب لڑکوں نے جوتے بغل میں دبائے اور دوڑ لگا دی۔
تراویح کے دوران موج مستی لڑکوں کیلیے عام سی بات تھی۔ اکثر لڑکے رکوع جانے سے پہلے جماعت میں شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو دھکے مارنا تو معمول تھا۔ کبھی کبھار ہنسی کا ایسا دورہ پڑتا تھا کہ مار کے ڈر سے سلام پھیرنے سے پہلے ہی ہم سب لوگ غائب ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دن ہم سب نے اتنا اودھم مچایا کہ ہماری خوب چھترول ہوئی۔ سب لڑکوں نے چھترول کا بدلہ لینے کیلیے اجلاس بلایا اور طے یہ ہوا کہ تمام نمازیوں کے جوتے وضو کی جگہ پھینک کر اوپر ٹوٹیاں چلا دی جائیں۔ سردیوں کے دن تھے اور اس وقت گرم پانی کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ پھر کیا تھا ہم لوگ تراویح کے اختتام تک ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جونہی نمازیوں نے اپنی بھیگی جوتیاں دیکھیں، انہوں نے رمضان کے مبارک مہینے کا خیال کیے بغیر وہ زبان استعمال کی کہ شیطان بھی توبہ توبہ کرنے لگا ہو گا۔
ایک دن کسی نے بہت ساری جلیبیاں افطاری کیلیے مسجد بھجوائیں۔ امام صاحب نے سب کو ایک ایک ٹکڑا بانٹا اور باقی حجرے میں رکھوا دیں۔ بھلا افطاری کے وقت ایک ٹکڑے سے چڑھتی جوانیوں کا کیا بنتا تھا۔ ہم لوگوں نے نماز چھوڑ کر حجرے کا رخ کیا اور جلیبیوں کا ٹرے ایک منٹ میں صاف کر گئے۔ ایک منچلے نے خیال پیش کیا کہ ٹرے میں پتھر رکھ دیے جائیں اور پھر امام صاحب کا تماشا دیکھا جائے۔ نماز کے بعد امام صاحب نے ایک شاگرد کو جلیبیاں لانے کا حکم دیا۔ جب ٹرے سے کپڑا اٹھایا گیا تو اندر سے بجری نکلی۔ یقین کریں یہ منظر دیکھ کر ساری محفل کشت زعفران بن گئی۔
4 users commented in " بچپن کا رمضان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاب اگر منافقت سےکام لیں تو دوسری بات ہے ورنہ همارا بھی کچھ اس سے ملتا جلتا هی حال تھا ، کچھ پاؤ چھٹانک کم کر لیں ـ جن لوگوں کا بچپن بہت صالح اور پرەیز گار کزرتا ہے ناں جی وہ یا تو جھوٹ بول رهے هوتے هیں یا پھر بزدل هوا کرتے ہیں۔ بچوں کا بچپن هوتا ہے ـ
ایک کک هوتی تھی جو سجدے کی حالت میں هی دوسرے کی پیٹھ پر رسید کردی جاتی تھی ـ
اور پھر کھی کھی کر کے ھنسنا ، اور اب یہاں جاپان مين هماری تاتے بیاشی والی مسجد میں بچے شراتیں کرتے هیں لیکن بڑی بے ضرر سی که صرف شور مچاتے هیں ـ
اگر کوئی ان کو منع کرے تو میں اس کو منع کرتا هوں که ناں کہو ، هم بھی ایسا کرتے کرتے هی مسجد سے ” یوزٹو ” هوئے تھے ان کو بھی هو لینےدو ـ ورنه یه ناں هو که هماری نسل کے بعد جاپان کی مسجدیں نمازیوں سےمحروم هو جائیں ـ
میں خاور صاحب کی بات سے متفق ہوں کہ بچوں کو نماز یا مسجد وغیرہ میں کبھی روکنا ٹوکنا نہیں چائیے۔ خاصکر اپنے ممالک یا گھروں سے دور کیونکہ ورنہ وہ مساجد سے بدل ہوجاتے ہیں۔
میرے ایک کزن تھے۔ انھوں نے چھترول پہ سخت سردیوں میں تمام نمازیوں کے جوتوں میں کچی مٹھی بھر کے اُن میں پانی ڈال دیا تھا ۔ اور یہ بات حقیقت کہ نمازیوں نے اپنے جوتوں میں کیچڑ بھرا دیکھ کر کرنے والی کی شان میں اکثر نے وہ کچھ بیان کیا کہ وہ ضبط تحریر میں نہیں آسکتا۔
مان باپ لاکھ سمجھا کر گھروں سے باہر بھیجیں یہ عمر ہی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اور عموما سب ہی دبی مسکراہٹ سےمعمولی سرزنش کر کے چھوڑ دیتے تھے۔
پچھلی صفوں پہ بچہ پارٹی شاید ابھی بھی وہی ہڑبونگ مچاتی ہوگی۔
دن سہانے دن۔ یادیں سنہری یادیں۔
یہ تو جی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک مشترکہ طریقے کے بچپن پر لکھا ہو۔ اور خاور صاحب اور جاوید صاحب نے درست کہا کہ بچوں کو سرزنش کرنے یا سمجھانے کا طریقہ ایسا ہو کہ وہ مسجد سے بددل نہ ہو۔
ایک چیز جس پر بچپن میں بہت غصہ آتا تھا وہ کہ انتہائی دیر سے آنے والے نمازی بچوں کو بازووں سے پکڑ کر پیچھے کھینچ دیا کرتے تھے حالانکہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں بلکہ اس سے بھی کہیں پہلے بچوں کو نماز کی بڑی حد تک سمجھ آجاتی ہے۔۔ دینی مسئلے بھی اس معاملے میں بیان کیے جاتے ہیں لیکن بچپن کی بات کریں تو اس وقت یہ بہت ناگوار احساس تھا۔
واہ واہ واہ کیا واقعات بیان کئے ہیں
اور راشد صاحب کی بچوں کو پیچھے کرنے والی بات سے واقعہ پوری طرحمتفق ہوں
ہمارے نمازی آخر میں آ کر پہلی صف میں نماز پڑھ کے جنت کے قفل کھلوانے کے بڑے شوقین ہیں
Leave A Reply