کیری لوگر بل پر آج کل خوب لے دے ہو رہی ہے۔ حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے اور مخالفین اسے قومی حمیت کا سودا قرار دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بل پر ابھی بحث بیکار ہے کیونکہ یہ ابھی صرف سینٹ نے پاس کیا ہے۔ ان کی اطلاع کیلیے عرض ہے کہ اب کانگریس نے بھی اسے پاس کر دیا ہے اور صدر اوبامہ کسی بھی وقت اس پر دستخط کر سکتے ہیں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی صاحب اس بل کے زبردست حمایتی ہیں بلکہ یہ ماہرین تو حسین حقانی صاحب کو امریکہ میں پاکستانی ایمبیسی میں امریکی سفیر کہنا زیادہ مناسب سمجھ رہے ہیں۔
ہر ٹی وی ٹاک شو نے اس بل کو موضوع بحث بنایا اور اس کے تمام پہلو کھنگالے ہیں۔ نتیجہ یہی نکلا ہے کہ یہ بل امداد کیساتھ سخت پابندیاں لگاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس امداد کے بدلے فوج سیاست اور عدالت کیساتھ محاذ آرائی نہیں کرے گی۔ امریکی حکومت پاکستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکے گی۔ وغیرہ وغیرہ
تمام مباحث سننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے اور ممبران اس بل کا تفصیلی جائزہ لیں۔ اگر یہ بل ملکی مفاد میں ہو تو اسے قبول کر لیں اور اگر یہ ملکی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہو تو اس بل کی مد میں ملنے والی امداد ٹھکرا دیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری اسمبلی میں اتنی جرات ہے کہ وہ اس بل کو صدقِ دل سے پرکھ سکے اور ڈیڑھ ملین ڈالر سالانہ ملنے والی امداد اگر قومی حمیت کے سودے کے بدلے مل رہی ہے تو اسے ٹھکرا سکے۔
7 users commented in " کیری لوگر بل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاور یہ قومی اسمبلی میں پیش ہوگا نہیں کبھی بھی۔ ہم آپ ایویں پھاوے ہوئے جاتے ہیں تجاویز پیش کرکر کے۔ 😀
ہماری اسمبلی میں اتنی جرات ہوتی تو اب تک جو کام پاکستانی عوام کے مفاد کے خلاف ہورہے ہیںپاکستان میںان میںسے کسی ایک کو ہی رکوا دیتی
جس طرح بھوک اور کفر میں ایک باریک سی حد ہوتی ہے۔ اسی طرح مصلحت اور بے غیرتی میں میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے ۔ ہماری سیاسی اور مقتدر کلاس مصحلت کوش ہے یا بے غیرت۔ اسکا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ جس دوارن یہ ہماری ایلیٹ کلاس بشمول سو کال اسٹیبلیشمنٹ اور سیاستدان جسطرح کیری لوگر بل پر خوشیوں کے جشن منارہے ہیں۔ اس دوارن پاکستان میں بڑھتا ہوا افلاس اور غربت۔ عدم سہولیات، آٹا چینی اور خوراک کے مصنوعی بحرانوں سے غریبوں ( جو پاکستان کا اکثریتی طبقہ ہے) کی غربت کا بے رحمانہ مذاق۔ درمیانے طبقے کے لئیے ہر قسم کی ناپید ہوتی سہولتوں بلکہ بنیادی سہولتیں جیسے پانی۔ بجلی، تعلیم ۔ صحت ۔ کا مجرمانہ فقدان۔ عام شہری کی عزت نفس کو ہر جگہ پیسنے کا بڑھتا ہوا عام رواج۔ ہر قسم کا انصاف ناپید، پولیس کچہری تھانے سے عام عوام کے یقین کا اٹھ جانا اور خود ہی منصف و جلاد بننے کا تیزی سے بڑھتے ہوئے رحجان سے قانون کا اپنے ہاتھ میں لینا ۔ وغیرہ وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ یہ اُن اصل مسائل کی ادنٰی سی نشاندہی ہے۔ جو پاکستان کو پاکستان کے عام شہری کو درپیش ہیں۔جن مسائل کو ہنگامی اور انقلابی اقدامات کرت ہوئے حل کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ مگر حکومت اور حزبِ اختلاف آپس میں گٹھ جوڑ کئیے ، ایسے مسائل سے مجرمانہ تغافل برتے ہوئے اور پاکستان کی سابقہ حکومتوں کی روش پہ چلتے ہوئے، پاکستان کے عام آدمی کو درخودِ اعتناء نہیں سمجھ رہیں۔
پاکستان کے حقیقی مسائل اور زمینی حقائق وہ نہیں جو ہماری حکومتیں ادہر ادہر سے کئیش کرواتی پھرتی ہیں۔اس دوران سوئی کی گھڑیاں مسلسل آگے کو سرک رہی ہیں۔ سترہ کروڑ عوام ایسے “خود کش بمبار“ بن رہے ہیں جو پھٹے تو کسی کاآشیانہ محفوظ نہیں رہے گا۔
صرف ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ کے لئے اتنی خوشیاں؟ چہ ارزاں فروختند
آخری سطور میں دئے گئے مشورہ قابل علم ضرور ہے لیکن اس پر عمل ہونا ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ موجودہ جمہوری دور حکومت ہی دراصل شخصی آمریت کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔ اور برائیوں کی جڑ ہی وہ خدا کا بندہ ہے جو خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں بھی جو جو فیصلہ فرد واحد نے کئے انہوں نے پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر کمزور کیا۔ اور موجودہ حکومت بھی اسی کو تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اس کام کو مزید وقت بخش رہی ہے۔
کیری لوگر بل کا متن گذشتہ دنوں مختلف اخبارات میں شائع ہوا۔ جس کے مطالعہ کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ امریکا نہ صرف پاکستان کے اندرونی و بیرونی معاملات میں دخل اندازی کررہا ہے بلکہ اس بل میں موجود سخت شرائط کے ذریعے ملکی دفاعی نظام کو بھی اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو امریکا کی ترپن وی ریاست سمجھتے ہوئے وہاں کے نصاب و قوانین کو اپنی مرضی کا بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ جس امداد کا لالچ پاکستان کو دیا جارہا ہے اس کا راستہ اتنا کٹھن اور مشروط ہے کہ پاکستان کی خودمختاری کو بذات خود خطرات میں رکھنا پڑے گا اور ایسا نہ کرنے پر مزید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
بالفرض اگر کسی طرح گھسیٹ پھسیٹ کر یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کر بھی دیا گیا اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اراکین اسمبلی نے اس بل کو رد بھی کردیا، تو بھی امریکی باز نہیں آنے والے۔ اُس قرارداد کا بھی وہی حشر ہوگا جو ڈرون حملوںکے خلاف والی پاس کی جانے والی قرارداد کا ہوا۔
افضل صاحب آپ کو امریکی معیشت کا اصول پتہ ہے یہاں کچھ مفت نہیں ہوتا بلکہ مفت کے ساتھ بھی ایک چھوٹا سا ستارہ بنا ہوتا جسے یہاں “کیچ“ کہتے ہیں۔ تو یہ سوچنا کہ امداد غیر مشروط ہوگی یہ تو نادانی کی بات ہے۔ پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں؛ امداد قبول کرے اور چپ چاپ تمام “کیچ“ نمٹائے یا امداد لینے سے انکار کرے اور اپنی آزادانہ پالیسی خود وضع کرے۔ موجودہ صورت حال میں کوئی امداد “مزید کرو“ کی فرمائش کے بغیر ناممکن بات ہے؛
قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی جلدی جلدی نچوڑنے کے کیری لوگر بل مل گیا ہے
Leave A Reply