یاہو کی اس خبر نے تو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نیال فرگوسن کیمطابق امریکی سلطنت تنزلی کا شکار ہے۔ اس سے پہلے بھی لوگوں نے اس طرح کی پشین گوئیاں کیں مگر وہ غلط تھیں لیکن پروفیسر کہتا ہے “اب ایسا ہونے جا رہا ہے۔ اگر امریکہ نو ٹریلین ڈالر اپنے معاشی سسٹم کو بچانے کیلیے ادھار مانگ رہا ہے اور پہلے ہی آدھا ادھار دوسرے ممالک کا ہے تو پھر وہ سپر پاور کیسے رہ پائے گا”۔
پروفیسر نے موجودہ امریکی صورتحال کو سترہویں صدی کی سلطنت اسپین اور بیسویں صدی کی سلطنت برطانیہ کے برابر قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے سپرپاورز کبھی بھی اتنی زیادہ مقروض نہیں ہوتیں۔ 1900 میں برطانیہ کے مقابلے میں جرمن سلطنت ابھری تھی اور اب امریکہ کے مقابلے میں چینی سلطنت ابھر رہی ہے۔
پروفیسر کیمطابق چائنہ کی معیشت 2027 میں امریکہ کے برابر ہو جائے گی تب چائنہ نہ صرف معاشی لحاظ سے امریکہ کے ہم پلہ ہو جائے گا بلکہ سفارتی اور عسکری لحاظ سے بھی برابر آ جائے گا۔
پروفیسر کے بقول چائنہ کی نیوی بہت بڑی طاقت بننے جا رہی ہے۔ جس طرح سٹریٹفرڈ یونیورسٹي کے پروفیسر فریڈمین نے چائنہ کی نیوی کو بہت بڑا خطرہ قرار نہیں دیا اسی طرح تب برطانوی ماہر بشمول ونسٹن چرچل جرمن عسکری ترقی کو بڑا خطرہ قرار نہیں دیتے تھے۔
پروفیسر یہ نہیں مانتا کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے مگر وہ چائنہ کو ایک ابھرتی ہوئی عسکری طاقت دیکھ رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک دن چائنہ معاشی پارٹنر ہونے کی بجائے مقابلے پر آ جائے گا۔
یاہو کی اس خبر میں پروفیسر امریکی ڈالر کے ڈوبنے کا بھی اشارہ دے رہا ہے۔ وہ کہتا ہے بہت جلد امریکی ڈالر عالمی کرنسی نہیں رہے گا۔ بقول اس کے یہ ایک لمبا پروسیس ہے مگر جس طرح برطانوی پاؤنڈ نے عالمی کرنسی کا اعزاد کھویا اسی طرح ڈالر بھی عالمی کرنسی نہیں رہے گا بلکہ مستقبل میں ایک سے زیادہ عالمی کرنسیاں ہوں گی۔
ہمارا تبصرہ:۔
سوچنے والی بات ہے ہمارا کیا بنے گا جو امریکہ میں رہ رہے ہیں اور پاکستانی سیاستدانوں کا کیا بنے گا جن کی ساری انویسٹمنٹ ہی امریکی ڈالروں میں ہے۔ ہم تو ابھی تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ امریکہ جنگل کا شیر ہے اور جب جنگل کو آگ لگے گی تو سب سے پہلے بندر، گیدڑ اور لومڑ اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ آگ شیر کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دے گی۔
یہ خبریں پڑھ کر امید ہے پاکستانی حکمران اور حزب اختلاف دونوں مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں گے اور ابھی سے اپنے آقا بدلنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گے۔
20 users commented in " کیا واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہوگیا
کوئی نئی خبر نہیں، آخر کو امریکی بھی انسان ہیں کوئی خدا نہیں ہیں کہ ہمیشہ طاقت ور رہیں۔
ایک نمبر بننا مشکل ضرور هوتا هے ہے ناممکن نهیں ، لیکن ایک نمبر برقرار رهنا ناممکن هوتا هے
اس لیے هو گا کیا که امریکه کا ایک نمبر کا ٹایٹل چھوٹ جائے گا
ورنه “هاتھی مرا بھی سوا لاکھ کا” کے مترادف امریکه کا حال هم سا نہیںهوگا
جیسا که برطانیه آج بھی هم سے کہیں آگے هے اور سور آج بھی دنیا میں ایک کردار رکھتا ہے
جرمنی شکست کے بعد بھی منظم هے اور جاپان دوایٹم بم کھانے کے بعد آج کہاںکھڑا هے
وه جی کسی ملک کے زوال کا هونا اس ملک کا پاکستان بن جانا نہیںهے
اور پاکستان امریکه امداد کے باوجود تارکین کی کمائی کے باوجود کیا ہے ؟؟
استعمار کے شکنجے میں اورمزے کی بات یه هے که کسی کو اس بات کا احساس بھی نهیں ہے
آپ فکر ناں کریں امریکه کچھ بھی هو جائے پاکستان جیسا بے وقعت اور تباھ حال نهیں هو گا
معاشیات کی بجائے اقوام کی عادات کا دیکھیں که اکر یه قوم اخلاقی طور بر اچھی ہے تو اس کے غریب هوجانےکا تو احتمال هو سکتا ہے اس کے زوال کا نهیں
خاور صاحب کی باتوں میںواقعی وزن ہے۔ یہ تو آپ نے کمال کی بات کہ دی “ اخلاق یافتہ قوم غریب ہو سکتی ہے زوال پذیر نہیں“۔
خاور صاحب نے تو پوری انسانیت کی تاریخ ایک پیراگراف میں بیان کردی۔۔ واہ واہ۔۔ قوم کا غریب ہونا اور قوم کا زوال پذیر ہونا۔۔واقعی ہمیں بغلیں بجانے سے پہلے ان چیزوں پر غور کرنا چاہیے۔
جی خاور صاحب کی بات بالکل درست ہے
انبیاء بھی قوم کی اخلاقی حالت ہی سدھارنے آتے تھے
معاشی حالت نہیں۔۔۔
ہر عروج کو زوال ہے سوائے اس ذات کے جو اکیلی ہی سب کی مالک ہے۔ ایسی خبریں اور پیشن گوئیاں تو عرصے سے چل رہی ہیں۔ تاہم چین کے ریزروز بھی ڈالر میں ہی ہیں۔ اور سنا ہے کہ وہ بھی اپنے ریزروز ڈالر کی بجائے کسی اور چیز، جیسے سونے یا یورو میں کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت میں اسلحہ سازی کافی اہمیت کی حامل ہے اور امریکہ دیگر ممالک میں جنگیںچھڑوا کر اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
خاور صاحب کی بات ٹھیک ہے، لیکن روس کو بھی نظر انداز مت کریں، روس ٹوٹنے کے بعد کیا سے کیا ہو گیا۔
امریکہ اور برطانیہ کے حکومت کرنے کے طریقہ کار میں بہت فرق ہے، برطانیہ نے جہاں بھی حکومت کی اس نے وہاں لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کیا، برطانیہ برصغیر میں آیا تو اس نے یہاں ریلوے کا نظام بچھایا، نہری نظام بنایا، بے شک اس نے اپنی حکومت کے دشمنوں کا قلع قمع بھی کیا لیکن اس نے ان علاقوں میں ترقیاتی اقدامات بھی کیے۔ برطانیہ نے ہانگ کانگ پر قبضہ رکھا تو اسے حکومتی لحاظ سے، اقتصادی لحاظ سے بلند ترین رتبوں پر پہنچا دیا۔ امریکہ کو دیکھیے، یہ جہاں بھی اترا وہاں بدامنی اور لوٹ مار مچائی، اپنا فائدہ سمیٹا اور اپنے وفا داروں کے ہاتھ اقتدار تھما کر اپنی راہ لی۔ میرے خیال سے امریکہ کا حال بھی روس سے مختلف نہیں ہو گا۔ شاید اس سے بھی برا ہو۔
شیخ سعدی رح نے فرمایا تھا “ہر عروجے را ذوالے”
انگریز کے مقابلہ میں امریکی گھٹیا ہے اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ برطانیہ اور یورپ کے کچھ بدمعاش آسٹریلیا میں آباد ہوئے تھے باقی امریکا میں
امریکا کے تنزل کے بنیادی سبب دو ہیں ۔ ایک ۔ منافقت + تکبر ۔ اور دوسرا ہوس ملک گیری
برطانیہ کو تکبر اور ہوس ملک گیری نے تباہ کیا ۔ ہٹلر دنیا کا بادشاہ بن جاتا اگر تکبر نہ کرتا
یاسر صاحب آپ تاریخ کہاں سے پڑھتے ہیں؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی یورپ کی تعمیر نو کس نے کی ہے؟ اور امریکہ نے کس ملک کو برطانیہ کی طرح براہ راست کالونی بنایا ہے اور اسے تباہ حال چھوڑ آیا ہے؟۔ حیرت ہے کہ جو قوم ہمیں سو سال غلام بنا کر ذہنی طور پر اپاہج کرگئی آج صرف امریکہ کی دشمنی میں لوگوں کو وہ عمدہ نظر آرہی ہے۔اور اجمل صاحب کا یہ استدلال نا معلوم کہاں سے آیا ہے کہ اگر کسی کا باپ بدمعاش ہے تو بیٹا بھی لازمی بدمعاش ہوگا۔۔۔
راشد صاحب
تاریخ سکول میں ہی پڑھی تھی۔ امریکہ نے جن ملکوں کو تباہ وبرباد کیا ہے، ان میں ویت نام عراق، افغانستان شامل ہیں، اب پاکستان اپنی باری بھگت رہا ہے۔ اور اپ تاریخ کی جتنی مرضی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں جتنا خون امریکہ کے ہاتھ پر نظر ائے گا، شاید ہی کسی اور قوم نے اتنا خون بہایا ہو۔ مجھے برطانوی عمدہ نظر نہیں ارہے، برطانویوں نے بے شک بیشتر ممالک پر ناجائز طور پر حکمرانی کی لیکن وہاں کے عوام کی بھلائی کے کچھ پہلو بھیمد نظر رکھے، جو کہ اتنے نمایاں تو نہیں، بہر حال امریکہ سے بہتر ہی ہوں گے۔
حضرت آپ نے فرمایا ہےکہ
“برطانیہ نے جہاں بھی حکومت کی اس نے وہاں لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کیا،“
ٹھنڈے دل سے غور کریں تو مسلم دنیا میں آج جتنے رستے زخم آپ کو نظر آرہے ہیں ان میں سے اکثر تاج برطانیہ کے لگائے ہوئے ہیں؛ لوٹ مار تو انہوں نے ایسی کی ہے کہ تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے۔۔ میں پھر عرض کروں گا کہ امریکہ نے کسی ملک کو کالونی نہیں بنایا جس کو تباہ حال چھوڑ آیا ہے جن جن ملکوں کے آپ نے نام لکھے ہیں وہاں امریکہ جنگ لڑنے گیا ہے اور جنگ سے تباہی ہی آتی ہے اور بات کے لیے آپ سے قصور وار ٹہرائیں نوآبادیات کا جنگ سے کیا تقابل ہے؟
دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں-
راشد صاحب، آپ کو اگر کوئی ذاتی پرخاش ہے تو میں معذرت چاہوں گا، میں اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھا سکوں گا۔ میں نے اپنے دوسرے تبصرے میں یہ بات واضح کی ہے کہ برطانیہ نے کچھ پہلو عوامی فلاح کے بھی ضرور مد نظر رکھے ہیں، اب آپ نے پہلے والے تبصرے کے الفاظ کو پکڑا ہوا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے خیال سے اگر کوئی میری بات کا مفہوم سمجھنا چاہے تو آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔نو آبادی کیا، جنگ کیا اور تباہی کیا۔ میں ان باریکیوں میںنہیںپڑ رہا، صاف بات ہے کہ امریکہ ایک اینٹی پاکستان، اینٹی اسلام طاقت ہے ، برطانیہ نے مسلمانوں کے لیے زیادہ برا کیا یا کم، کسی صورت میںامریکہ کی تعریف کا کوئی پہلو نہیں نکلتا.
آپ فرما رہے ہیں کہ میں نے امریکہ کی دشمنی میں برطانیہ کو عمدہ بنا دیا تو میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ امریکہ کی محبت میں غلط کو غلط نہیں کہہ رہے، بلکہ آپ کا سارا زور پاکستان کو براپیش کرنے میں لگتا ہے۔
نہیں یاسر مجھے آپ سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں۔۔ اگر آپ پوری بحث میں کوئی ذاتیات نکال دیںتو میں فوری طور پر معافی مانگ لوںگا۔۔ جب آپ پبلک فورم پر گفتگو میں حصہ لیںگے تو آپ کے تبصروں سے متضاد رائے رکھنے والے آپ کی بات پر جراح کریں گے؛ اس سے دوسرے پڑھنے والوں کے سامنے بھی کچھ ایسے پہلوں آئیں گے جو ان کے لیے نئے ہوں۔ اگر اس چیز کو آپ ذاتیات سمجھتے ہیں تو اپنے آپ کو پبلک فورم سے دور رکھیں۔ میں صرف آپ کے تبصرے پر بات کررہا ہوں آپ کی ذات پر نہیں۔
بھائیو!
برداشت بہت اچھی چیز ہے۔ آج جس شئے کی پوری قوم کی بہت کمی ہے۔ وہ ہے برداشت۔ تحمل۔ بُردباری۔
جاوید صاحب۔۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔۔ میں یاسر صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اگر کسی جگہ کسی بات سے انہیں تکلیف پہنچی ہے۔
جاوید صاحب ۔۔ بلاگنگ میں آج کل انٹرنیٹ کے حوالے سے ٹیگ کا سلسلہ چل رہا ہے۔ گو کہ آپ باقاعدہ بلاگر نہیں ہیں لیکن پھر بھی میں نے آپ کو نتھی کردیا تھا؛ اگر مناسب جانیں تو کسی بھی بلاگ پر بلکہ افضل صاحب نے ہی یہ سلسہ شروع کیا تھا تو اسی بلاگ پر اپنے خیالات سے بھی آگاہ کریں۔
راشد صاحب
جائیے معاف کیا آپ کو ،کیا یاد کریں گے کس سخی سے پالا پڑا تھا۔
🙂
یعنی کہ ابھی سے تنخواہ کو ڈالروں کی بجائے یورو میں کنورٹ کرنا شروع کر دوں
یا فور یوآن میں
Leave A Reply