امریکہ میں نو گیارہ کا واقعہ پیش آیا، اس نے نہ صرف دہشت گردوں کے نام بھی معلوم کر لیے بلکہ ایک زندہ دہشت گرد کو سزا بھی سنا دی۔ اسی طرح ممبئی دھماکوں میں بھارت نے ملزم پکڑے اور ان پر مقدمہ بھی چلایا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان میں ہزاروں دھماکے ہو چکے ہیں لیکن کئی دھماکوں کے ملزموں کی شناخت کے باوجود نہ ابھی تک کسی کو سزائے موت ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے سرغنہ کا پتہ چلا ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے امریکہ نے اسامہ بن لادن کے سارے ساتھی پکڑ لیے مگر وہ ان سے یہ تک معلوم نہیں کر سکا کہ اسامہ بن لادن ابھی زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ پاکستان کے پاس سونگھنے والے کتے بھی ہیں، امریکی سپورٹ بھی ہے مگر اس کے باوجود ہماری پولیس اور فوج یہ پتہ نہیں چلا سکی کہ دہشت گرد کون ہیں اور ان کو سپورٹ کون کر رہا ہے۔ یہ معمہ ہم کئی روز سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر حل نہیں ہو پا رہا۔
10 users commented in " معمہ حل کریں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackزندگی ایک معمہ ہے، نہ سمجھنے کا سمجھانے کا۔
پاکستان میں کچھ لوگوں سمیت پاکستان مخالف قوتوں کے مقاصد جونہی پورے ہوئے تب سب حقیقتیں(جو اہلِ دانش کے لئیے اب بھی اتنی چھپی ہوئی نہیں) عیاں ہو جائیں گی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ تب ہمیشہ کی طرح سانپ گزر چکا ہوگا اور ہم بھی ہمیشہ کی طرح لکیر کو پیٹ رہے ہونگے۔ جس طرح ننگِ ملت مشرف پاکستان کو تیل دے کر امریکہ کو صاف نکل گیا اور پاکستانی قوم اب اس پہ مقدمے شقدمے کرنے کے در پے ہے۔
ہم ہمیشہ سایوں کا تعاقب کرنے میں ماہر ہیں۔
معمہ حل ہو چکا ہے:
دہشت گردی کرنے والے وہی ہیں جو انکو پکڑنے والے ہیں۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق،سنا ہے کہ لاہور کے نزدیک مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پہ دہشت گردوں کے پہلے حملے میں جس میں کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں تھیں۔ کسی ایک گورنمنٹ ملازم پہ اسکی ڈیوٹی دوران حملہ اکثر، ممالک میں ریاست پہ حملہ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر پہ نہ صرف گورنمنٹ کے ملازمین پہ حملہ ہوا بلکہ انکی قیمتی جانیں گئیں۔وہاں زندہ پکڑ لئیے جانے والے دہشت گرد کو عدالت نے دس سال سزا قید کی سزا سنائی ہے۔ اور دہشت گرد کو دس سال سزا جو وہ چار چھ سال بعد جیل سے باہر ہوگا۔قربان جاؤں عدالت کے بھی کہ کیا سزا دی ہے۔
بھائی عدالت ثبوت کی بنا پر سزا دیتی ہے۔ جیسے اپنے نسواری دس سال اندر رہے لیکن کسی نے ان کے خلاف ثبوت نہ دیا سو آج صدر بنے عیش کررہے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ باقیوں کا بھی ہوتا ہے 🙂
ہمارا مسئلہ یہ ہے
مدعی بھی وہی وکیل بھی وہی اور منصف بھی وہی جن کے ہم غلام ہیں ۔اگر مدہوش قوم جاگ اُٹھے تو شاید کچھ بن پائے
جاوید صاحب اور ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو انتے بھولے نہیں جانتے سب ہیں مگر مانتے نہیں کہ اپنے دل کی ڈوریاں ان ھی سے ملی ہوئی ہیں جو منافق ہیں ، ہر شیطانیت کے مین کردار
قوم کیا خوب جاگے جو راففضیوں کے بھای اور مودودیت کے مارے لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں ، اصل کھیل اور کرداروں پر پردہ ڈالتے رہیں ۔ آپ لوگوں کا کردار زرداری جیسا ہے جو بیوی کو مروانے کے بعد سوگ مناتا ہے اور ہر جگا تصویر لیئے پھرتا ہے ، خود ھی قاتل اور خود ہی متاثر
یہ احمد صاحب پتہ نہیں کس بات پہ مجھ سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ اسکی وجہ بیان کرتے۔صرف اتنا عرض کرونگا کہ اللہ تعالٰی سب کو ھدائت دے ۔ اور اگر ان کی کوئی ایک بات بھی میرے بارے میں درست ہو تو مجھ پہ خدا کی لعنت ہو اور اگر یہ صاحب مجھ پہ بہتان باندھ رہے ہیں تو اللہ انہیں ھدایت دے۔
نیز اگر اھمد کے پردے میں کوئی قادیانی چھپا بیٹھا ہے تو ایسی صورت میں خدا اسے مزرا مردود کے فتنے سے نجات دے اور اسے ختم نبوت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہ ایمان کی توفیق دے۔آمین
جناب جاوید صاحب
بجائے کہ آپ بات سمجھتے اور غور کرتے آپ یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم کو آپ سے کوئی خار ہے سبھان اللہ
ہم نے پہلے پہل آپ کی باتوں کی توقیر کی جب تک آپ کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں تھا بعد میں آپ کے نظریات سامنے آتے رہے۔ آپ آدھا اسلام اور آدھا کفر لعکعر چلتے ہیں
لعنتی مرزا قادیانی کے کفر کو آپ نے قابل ستائش طریقے سے سامنے لائے اور جتنے قادیانی ہیاں رافضیوں کی طرح اپنا مطلب نکال رہے ہیں ان کو جواب دیا، یہاں تک تو آپ سے اتفاق ہے ، اس لیئے آپ کا ہمارے بارے مین قادیانی ہونے کا شک کرنا گویا چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔ اس لیئے کہ آپ قادیانی نہ سہی رافضی بھی نہ سہی ، یہ ہم مانتے ہٰں مگر رافضیت کو اسلام سمجھتے ہیں ان کو پردہ مہیا کرتے ہیں اور لچھے دار شام غریباں والی تقریر کر کے لوگوں کو اس طرف نہین دیکھنے دیتے جہیاں سے سبائیت شروع ہوتی ہے
رافضی ہیاں آپ کے بھائی ہیں ان کی گمراہ چالاک عورتیں آپ کی بہنیں ہیں ۔ انسان اسکی کے ساتھ ہے جس سے محبت کرتا ہے
اور آپ کی مزید اطلاع کیلئے ہمارا نام احمد عثمانی ہے اور اردو بولنے والے ہیں جبکہ قادیانی اکثر پنجابی ہوتے ہیں اور ان کے نسلی نام وہی ہیں جو سکھوں کے ہوتے تھے، صرف پہچان کو بتا رہے ہیں
آپ اگر مسلمانوں سے مخلص ہیں تو مودودیت سے باہر نکلیں جو کہ شیعت کا ایک ایڈیشن ہے ۔ منافقوں سے الگ ہو کر صھابہ کے راستے پر چلیں ، انکے راستے پر نہیں جو ان کو کافر کہیں اور لعن طعن کریں اور انکو شہید کیا کرتے تھے
مگر ایسا ہوگا نہیں سب اپنے اپنے کام پر لگے رہیں گے ، مہربان واردات کرتے رہیں گے پردہ داری کرنے والے شام غریباں کے بین کریں گے اور مسلمان دونوں سے لٹتے رہیں گے
اب کس کو کس سے خار ہے اور دشمنی ہے یہ واضح ہے
اصلاح۔۔۔
سبحان اللہ
احمد صاحب۔ برا نہ منائیے گا مجھے تو آپ کی باتوں سے یوں لگتا ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوا باقی شاید یا تو مسلمان نہیں یا کمتر مسلمان ہیں۔
برادرم دنیا مسلمانوں کے بارے میں کیا کیا کھیل کھیل گئی ہے اسے جاننے کے لئیے امتِ مسلمہ میں مسالک اور پنجابی سندھی اردو عراقی افغانی افریقی عربی عجمی کی تقسیم سے باہر نکل کر دیکھیں شاید پھر آپ کے جزبات اپ سے متفق ہونے والوں کے بارے میں اس قدر تلخ نہ ہوں۔
اپنے بارے میں بتا دوں الحمداللہ مجھے اپنی مسلمانی پہ فخر ہے اور یہ اللہ کا ہی خاص کرم ہے ۔ بھائی آپ کیا جانیں کہ کون کسقدر اپنے دین کی خاطر مسائل سے گزرا ہو۔ ہم نے بڑے بڑے دعواے کرنے والوں کو پتہ نہیں کیسے دیکھا ہے۔۔۔
میں مسالک کی بنیاد پہ امتِ مسلمہ میں خون خرابے یا تشدد کو ایک جرم تصور کرتا ہوں۔ آپ کے شاید علم میں نہیں ہوگا کہ غیر مسلم ادارے پاکستان اور امت مسلمہ میں مسالک یا کسی بھی قسم کی تقسیم کے لئیے اپنے افراد کی خصوصی تربیت کرتے ہیں۔ چونکہ آپ پاکستان میں ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں مسالک کی بنیاد پہ انسانی جان سے کھیلنا کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا اسلئیے شاید آپ اسے معمول کی بات سمجھتے ہوں ۔مگر میرے نزدیک امتِ مسلمہ کو آپس میں لڑانا اسلام سے غداری کے مترادف ہے۔
طاقت کے بل بوتے پہ آج تک مسالک کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ کون درست کہہ رہا ہے ۔تو کیوں نہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ہر کوئی اپنے مسلک کے تحت پرامن زندگی گزارے۔؟ بلکہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو بھی ذمی ہونے کے ناطے عزت اور سکون کی زندگی گزارنے کی آذادی ہونی چاہئیے۔ اگر ہمیں قادیانیوں یا احمدیوں سے اختلاف رائے تو وہ بھی نبی کریم رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان کے بارے قادیانیوں کے شاتم ہونے کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے نام وغیرہ بدل ڈالیں اور اسلام سے ملتی جلتی عبادات نہ کریں یعنی اپنے آپ کو واضح لکھیں بیان کریں کہیں تا کہ امت مسلمہ ان سے دہوکہ نہیں کھائے۔ اور اسطرح کی چند باتیں ہیں اگر وہ ختم کر دیں تو ہمیں انھیں بھی پاکستانی شہری کے حقوق دینے چاہئیں۔
میں چونکہ پنجابی ہوں تو پنجابی کی ایک مثال دے رہا جس کے معنی کچھ یوں بنتے ہیں کہ “ جتنی مرضی کوشش کر لیں دیوار میں ڈنڈہ نہیں گھُستا“ اسلئیے اسوقت ہمیں مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کے لئیے پہلے اپنے اخلاق بحال کرنے ہونگے۔ آپ دیانتداری سے بتائیں کیا آپ کے اردگرد جتنے بھی مسالک ہیں کیا وہ سبھی اپنی روزمرہ زندگی میں اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں؟۔ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو میں سمجھتا ہوں ہمارے پاس تو اسقدر کرنے کو ہے کہ جس میں مسلکی یا صوبائی اور لسانی تقسیم کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں ہونا چاہئیے۔ بہرحال اللہ ہم سب کو درست طریقے ست سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہوسکتا ہے مجھے آپ کا نقطعہ نظر سمجھے میں فرق لگا ہو۔ آپ اپنی بات کھل کر بیان کیا کریں۔ بہتان تراشی اور دشنام طرازی کو احسن کام نہیں جسکی ساتئش کی جاسکے۔
Leave A Reply