کسی کی چھیڑ تبھی بنتی ہے جب وہ کسی بھی وجہ سے خار کھائے یا چڑ جائے اور چپ کرنے کی بجائے واہی تباہی بکنا شروع کر دے۔ جہاں نام پڑنے کی ایک وجہ حلیہ بھی ہوتا ہے وہیں انسان کی خاص عادت بھی اس کا نام بگاڑنے کی وجہ بنتی ہے۔ چھیڑ کے موضوع پر بلاگر ڈفر اپنے خیالات کا اظہار یہاں اوریہاں کر چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری پوسٹ ان کی تحاریر کا چربہ ہی لگے۔ اسی طرح بلاگر خاور صاحب نے چند ماہ قبل ایک لوگو میں تمام بلاگرز کی شخصیات کو سامنے رکھتے ہوئے نام دیے تھے۔
پچھلے چند ماہ میں کچھ بلاگرز جب بہت جذباتی ہونے لگے تو تبصروں میں ان کی چھیڑ بھی پڑنے لگی مگر بلاگرز کی اچھی عادتوں کی وجہ سے یہ چھیڑ ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ آن لائن چھیڑ سے بچنے کیلیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے نقطہ نظر پر ایک حد تک زور دے اور بات بات پر کسی بلاگ پر اپنے تبصروں کی لائن نہ لگا دے۔ چھیڑ سے بچنے کا ایک اور کارگر نسخہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں خواہ مخواہ لچ تلنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ہمارے ایک کلاس فیلو بہت بولتے تھے اور زبردستی بولتے تھے اسلیے ان کی چھیڑ بن گئی “پہونکا”۔
ایک بوڑھا دیہاتی روز بازار سے کھوتی پر چارہ لے کر جایا کرتا تھا۔ ایک دن کسی نے اسے پوچھا “بابا کھوتی سوئی آ”۔ یعنی کھوتی نے بچہ دیا ہے۔ اس کو اس بات پر تپ چڑھ گئی اور وہ گالیاں بکنے لگا۔ اس کے بعد جب بھی وہ بازار میں کھوتی کے ساتھ نظر آتا کوئی منچلہ فقرہ کس دیتا “بابا کھوتی سوئی آ” اور وہ کھوتی کو چھوڑ منچلے کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا۔
ایک بوڑھی عورت انتہائی چمکیلے کپڑے پہنا کرتی تھی۔ ایک دن کسی نے اسے مائی کبوتری کیا بلایا اس نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کے بعد لوگ اسے مائی کبوتری کے نام سے چھیڑا کرتے اور اس کی گالیاں سن سن کر ہنسا کرتے۔
ہمارے ایک کلاس فیلو کو کچھ زیادہ ہی خلوص جتلانے کی عادت تھی۔ وہ جس سے بھی ملتے اسے گلے ضرور ملتے۔ پھر کیا تھا ایک دن ان کے نام کیساتھ “جپھا” کا لاحقہ لگ گیا۔
ایک کلاس فیلو کا سر بہت بڑا تھا اور سب نے ان کے نام کیساتھ “کٹا” لگا دیا۔
دو کلاس فیلو آپس میں بہت گہرے دوست تھے اور یونیورسٹي میں ہمیشہ ایک ساتھ نظر آتے۔ ان میں جو ذرا زیادہ خوبصورت تھا اس کا نام “ہیر” پڑ گیا۔
ہمارے ایک پروفیسر نئے نئے بھرتی ہوئے۔ شروع شروع میں انہیں طالب علموں کے سوالات کے جوابات دینا بہت مشکل لگتا تھا اور وہ اپنی کمزوری کو چھپانے کیلیے طالبعلم کو جھاڑ دیا کرتے تھے۔ پھر کیا تھا ان کے نام کیساتھ “ڈنگر” کا اضافہ ہو گیا۔
8 users commented in " چھیڑ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackچھٹی کی جماعت میں ہمارے دینیات کے استاد بہت کمزور واقع ہوئے تھے اور ہم سب نے انکا نام “سر ڈنڈی“ رکھ دیا تھا!
یہ ایک اچھی تحریر ہے۔
کیا ایسا رواج امریکہ میں بھی ہے؟ کیونکہ یہاں جرمنی میں میں نے نوٹ کیا کہ ایسا کوئی نہیں کرتا۔۔اس سے ھر ایک کو آزادی ملتی ہے اور جس کا دل جو چاہے وہ کرتا ہے ۔۔میرے خیال میں یہ برصغیر کی ایک بری خصلت ہے۔
فارغ صاحب
آپ کی بات درست ہے یہ خصلت برصغیر کی ہے۔ امریکہ میں چھیڑ پڑنا تو دور کی بات کبھی کسی کو ویسے بھی چھیڑتے ہوئے نہیںدیکھا۔
فارغ صاحب، اسلامی نکتہ ء نظر سے بھی یہ بات انتہائ بری تصور کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہےجس کے الفاظ مجھے اس وقت صحیح سے یاد نہیں آرہے ہیں۔کسی اور کو یاد ہو تو ضرور بیان کرے۔ میں نے ذاتی طور پہ لوگوں کی ایسی چھیڑیں کبھی نہیں رکھیں۔ باقی لوگوں کی مرضی ہے اور آزادی۔
ہمارے ایک محلے دار تھے گنجے، ان کے سامنے اپنے بالوں میںہاتھ پھیرنا اپنے گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف ہوتا تھا ۔۔۔
محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے چھت پر کھڑے ہو کر ان کو بالوں میں ہاتھ پھیر پھیر کر چڑایا کرتے تھے۔ پھر ہم نے ان کی مشکل آسان کی۔۔۔
اور ان کوایک عدد باقاعدہ چھیڑ گنجے دت کے نام سے عنایت کی!!!
مغربی ممالک میں چھیڑ تو نہیں البتہ عرب ممالک کی طرح عرفیت ضرور رکھی جاتی ہے۔ مثلا فلاں موٹا۔ چھوٹا ۔ پستول۔ کِلر۔ توپ، سوہنا، ڈانسر وغیرہ۔ اور جن میں عرفیت رکھنے کا رواج ہے، عام طور پہ ایسے لوگوں کا تعلق نچلے طبقے سے یا پھر گانے بجانے والوں وغیرہ سے ہوتا ہے۔
پاکستان وغیرہ میں چھیڑ رکھنے کی اصل وجہ وقت کی فراوانی ، جائز اور مناسب تفریحات کی کمی۔ اور سماجی طور پہ اُن پختہ اور راسخ عادات جن کی وجہ سے ہم سوائے اپنے یا اپنوں کے باقی سب کو قابلِ احترام جاننے کی بجائے۔ الٹا ہر دوسرے فرد کو حقیر سمجھتے ہیں۔
بچے بڑوں سے یا ماحول اور معاشرے سے سیکھتے ہیں جو ان کے بڑوں نے تشکیل دے رکھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عموما دیکھا گیا ہے کہ اسطرح کی چھیڑوں پہ بجائے بچوں کو روکنے یا سمجھانے کے بلکہ ان کی چھیڑوں سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے جس سے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ غالبا وہ ایک اہم کام کر رہے ہیں۔
ہمارے چھیڑ۔ غیبت۔ غرور، تکبر، چسکا، حسد، اپنے آپ کو عالم فاضل قرار دینا اور اسکے علاوہ بھی انگنت خرابیاں ہیں۔ اگر صدق دل سے کوشش کی جائے تو یہ خرابیاں ہم رفتہ رفتہ ختم کر سکتے ہیں۔ اسمیں وقت لگ سکتا ہے مگر یہ ناممکن نہیں۔
حدیث تو صھیح ستہ سے ہی آئیں گی ان کو بیان کرنے والے اگر آپ کی نظر میں مرتد ہوگئے تھے تو حدیث کی بات رہنے دیں فیس میکنگ سے چہرہ بد نما بھی ہوجاتا ہے
ہاں واہیات مجموعات سے اگر آپ کے ہاں کسی کا کوئی کا کوئی ڈھنگ کا قول موجود ہو تو بیان کردیں
Leave A Reply