لڑکپن کراچی میں
پرویز صاحب جب ترکی سے واپس کراچی آۓ تو لڑکپن کی حدیں پار کررہے تھے۔ ان کے والد دفترِ خارجہ میں نوکری کرنے لگے مگر ان کے عہدہ کیا تھا اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان کی والدہ کو ولندیزی جوڑے کی سفارش پر نوکری ملی نہ کہ اپنی قابلیت پر۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ لکھنؤ یونیورسٹی کی ایک ایم اے پاس عورت نے سیکریٹری کی نوکری کیوں کی۔ کیا وہ اس قابل نہیں تھیں کہ اس دور کی ایم اے پاس لڑکی کو اس سے اچھی نوکری ملتی۔ بہرحال سفارش پر نوکری حاصل کرنے کی مثال یہاں پر نہ دیتے تو اچھا تھا۔ پھر اس نوکری کا سب سے بڑا فائدہ یہ گنوایا گیا ہے کہ انہیں ایک اچھا سا ریڈیو سستے داموں مل گیا۔ جو خاندان اس وقت آسٹن کار رکھتا ہو کیا اس کیلۓ اس زمانے میں ریڈیو خریدنا اتنا ہی مشکل تھا۔
کہتے ہیں تیرہ سال کی عمر میں انہوں نے نویں کلاس میں داخلہ لیا۔ یہاں پر یا تو ان کی عمر کم لکھی گئ ہے یا پھر آٹھویں میں داخلہ لیا ہوگا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہونہار ہونے کی وجہ سے ایک درجہ ترقی مل گئ ہو۔
کہتے ہیں ناظم آباد کے ایک گینگ میں بھی شامل ہوگیا۔ اپنے محلے کے دوسرے گینگ کے لڑکےکو پیٹنے کی وجہ سے انہیں محلے میں “داداگیر” کہا جانے لگا۔ انہوں نے اس لڑائی سے یہ سبق سیکھا کہ غنڈوں کو شروع ہی میں پیٹ کر سیدھا کردو تاکہ وہ بعد میں آپ کے مقابلے پر نہ آسکیں۔ یہ سبق پرویز صاحب کو کمانڈو کی نوکری کے دوران بہت کام آیا۔ یہ سبق کس طرح کام آیا اس کی تشنگی رہ گئ ہے مگر ان کے حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے اس سبق سے جو فوائد حاصل کۓ ہیں اس کے سبھی گواہ ہیں۔ بدمعاش زرداری کو تب تک جیل میں رکھا جب تک اس نے ڈیل نہ کرلی۔ اپنے سب سے بڑے حریفوں نواز شریف اور بے نظیر کو جلاوطن کردیا اور منہ پھٹ جاوید ہاشمی اور یوسف گیلانی کو جیل بھیج دیا تاکہ وہ ان کے کاروبارِ حکومت میں رکاوٹ نہ بن سکیں بلکہ اس کے بعد چھ سو سے زیادہ لوگوں کو غیروں کے ہاتھ بھی بیچ دیا۔ پی پی پی پیڑیاٹ کے لوگوں کو نیب کا ڈراوا دے کر اپنے ساتھ ملایا ۔ شیخ رشید اور ڈاکٹر شیر افگن کو بھی لگتا ہے اسی سبق کی بنا پر اپنی حکومت میں شامل کیا تاکہ ان کی موشگافیایوں پر تالے لگاۓ جاسکیں۔ اس تربیت کی وجہ سے پرویز صاحب نے یہ گر بھی سیکھا کہ طاقتور کے آگے جھک جاؤ اور کمزور کی ہڈی پسلی ایک کردو۔ اپنے مفاد کیلۓ جتنے وفاداروں کی بھی قربانی دینی پڑے دو اور اپنے وعدوں کا پاس نہ رکھو۔
شکر ہے صدر نے اپنے اساتزہ کے احترام کا ذکر کیا ہے اور اپنے استاد کی سزا جو انہیں شرارت کرنے پر ملی تھی ابھی تک یاد رکھی ہوئی ہے۔ پتہ نہیں فادر ٹوڈ نے ابھی تک ان کے دورِ حکومت کے دوران کوئی مشورہ کیوں نہیں دیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ اب تو سیدھے ہوجاؤ ۔ لگتا ہے اب پرویز صاحب کو کسی کی مشورے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ خود جانتے ہیں کہ ان کیلۓ اچھا کیا ہے اور برا کیا۔
تیرہ سال کی عمر میں نویں جماعت میں اور پندرہ سال کی عمر میں دسویں میں۔ کہیں حساب میں گڑبڑ ہورہی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کراچی آنے کے بعد پرویز صاحب نے نویں کلاس ميں دوسال لگاۓ ہوں۔
پندرہ سال کی عمر میں عشق کیا بات ہے۔ ہمیں معلوم ہےکہ یہ عمرلااوبالی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ اگر شادیاں کامیاب کرانی ہیں تو لڑکوں کی شادیاں پندرہ سال کی عمر میں کرکے دیکھو۔ اس وقت لڑکے یہ نہیں دیکھتے کہ لڑکی گوری ہے یا کالی بس انہیں لڑکی چاہۓ ہوتی ہے اور سو فیصد امید ہے کہ اس وقت انہیں اپنی بیوی سے عشق ہو جاۓ گا اور شادیاں ناکام نہیں ہوں گی۔ پرویز صاحب کو عشق ہوا اور انہوں نے اپنے بھائی اور نانی کو بطورِ قاصد استعمال کیا مگر یہ عشق ایک معمولی بات کی وجہ سے ختم ہوگیا یعنی گھر بدلنے کی وجہ سے۔ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ جب عشق ہو جاتا ہے تو پھر وہ کچھ نہیں دیکھتا۔ رانجھا ہیر کے پیچھے تخت چھوڑ دیتا ہے، سوہنی مہینوال کو ملنے دریا پار کر کے جاتی ہے مگر پرویز صاحب مکان بدلنے کے بعد عشق ہی چھوڑ بیٹھے۔ لڑکی کیا سوچتی ہوگی کہ کیسا کچا عاشق تھا جس نے دوری کا بہانہ بنا کر اس سے بیوفائی کی۔
پرویز صاحب کے والدین نے مکان بدلا تو پرویز صاحب نے محبوبہ بدل لی۔ یہ بھی لگتا ہے گینگ میں شامل ہونے کا نتیجہ ہو کہ اپنی خوہشیں پانے کیلۓ جان کو جوکھوں میں نہ ڈالو بلکہ شارٹ کٹ دھونڈو۔ اب پہلی محبوبہ کو ملنے کون بسوں اور ٹرینوں کے دھکے کھاتا۔ انہوں نے اچھا کیا کہ پڑوس میں ہی اس کا نعم البدل ڈھونڈ لیا۔ ہرجائی پن کی یہ عادت لگتا ہے پرویز صاحب کے ساتھ ہی ہے تبھی انہوں نے طالبان کو پہلے تسلیم کیا اور پھر ان کو ایسا ٹھینگا دکھایا کہ ان کی حکومت کا نام و نشان ہی مٹا دیا۔ وردی بدلنے کا وعدہ کیا مگر توڑ دیا۔ قرض نادہندگان کو پکڑنے کی بات کی مگر بعد میں ارادہ بدل لیا۔ اب آگے پتہ نہیں ان کا یہ ہرجائی پن کس کس کی قسمت کو ڈبوۓ گا۔
جب معاشقوں اور داداگیری کے چکروں میں پڑنے کے بعد تعلیم سے بیگانگی دکھائی تو میٹرک میں سیکنڈ کلاس آئی۔ اس کے بعد ان کی ماں نے فیصلہ کیا کہ ان کے بڑے بیٹے تو سی ایس ایس اور ڈاکٹری کریں گے مگر انہیں فوج میں بھیجا جاۓ گا۔ اور اس کی وجہ ان کا شرارتی پن بتائی گئ۔ ہم نے تو آج تک یہی دیکھا ہے کہ جو لڑکا انجنیئرنگ یا میڈیکل میں داخلے سے محروم ہوجاتا ہے وہ فوج میں کمیشن لے لیتا ہے۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ فوج والے نہ تو بہت ہی نالائق لڑکوں کو کمیشن دیتے ہیں اور نہ ہی بہت ذہین کو۔ ذہین لڑکوں داخلہ نہ دینے کی یہ وجہ ہوتی ہے کہ وہ ہر بات منطق سے کرتے ہیں لیکن فوج میں تو صرف سینیئرز کا آرڈر چلتا ہے اسلۓ اس ادارے میں اس آدمی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جو عقل سے کام لے۔ پرویز صاحب نے اس حقیقت کو چھپانے کیلۓ اپنے شرارتی پن کو موردِ الزام ٹھرایا ہے ۔ یہ جواز کچھ کمزور سا لگتا ہے۔ ایک اور بات کی سمجھ نہیں آئی کہ میڑک کے بعد ہی یہ فیصلہ کیوں کرلیا گیا اور ایف ایس سی تک کیوں انتظار نہیں کیا گیا۔ پرویز صاحب چاہتے تو کالج میں زیادہ محنت کرسکتے تھے کیونکہ کالج کے زمانے میں انہوں نے کوئی عشق نہیں کیا اور ایف ایس سی میں اچھے نمبر لے کر اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح ڈاکٹر یا انجنیئر بن سکتے تھے۔
پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ انہیں لاہور پڑھائی کیلۓ اسلۓ بھیجا گیا کہ کراچی کے کالجز اچھے نہیں تھے۔ حالانکہ کراچی وہ شہر ہے جہاں سب سے زیادہ پڑھےلکھے مہاجر آکر آباد ہوۓ اور ان کی اولادوں نے بھی کراچی سے تعلیم حاصل کرکے کامیابیاں حاصل کیں۔ کراچی اس وقت ملک کا دارالخلافہ تھا اور وہاں پر تعلیم کا نظام بہت اچھا تھا۔ اس دور میں جب کراچی روشنیوں کا شہر تھا اسے چھوڑنے کا یہ بہانہ کرنا کہ وہاں کے کالجز اچھے نہیں تھے یہ ٹھیک نہیں لگتا۔
5 users commented in " ان دی لائن آف فائر – 2 "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپرویز مشرف کی والدہ کی سیکریٹری کی نوکری کرنا کوءی اچھنبے کی بات نہیں۔ اس زمانے میں عورت کتنی ہی تعلیم یافتہ ہو وہ صرف چند جاب ہی کر سکتی تھی۔ استانی، نرس اور سیکریٹری اور شاید ایک دو اور۔
ان تحریروں کیلئے آپ کا شکریہ ـ امید ہے آگے کا سلسلہ بھی پڑھنے کو ملے گا ـ
ذکریا صاحب
ہمیں یہ اعتراض نہیں ہے کہ انہوں نے سیکریٹری جیسی عام سی نوکری کیوں کی۔ ہمارا مطلب یہ تھا کہ 1958 میں اگر لڑکی ایم اے پاس ہوتی تھی تو اسے کسی کالج میں لیکچررشپ آسانی سے مل جاتی تھی یا کسی بھی آرگنائزیشن میں اچھی جاب تلاش کرنا مشکل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اگر پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والدین روشن خیال اور ترقی پسند تھے تو پھر ان کی عورتوں کیلۓ نوکری کرنا یا ڈھونڈنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونی چایۓ تھی۔
شعیب صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ
شاندار جرح کر رہے ہیں ۔ بہت خوب
کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ پرويز کے والد اہلِ خانہ سميت 1955 يا 1956 ميں کراچی ميں سکونت پذير ہوئے ۔ اُس زمانہ ميں ايم اے پاس عورت کو سيدھی کالج ميں ليکچرر کی ملازمت ملتی ۔ اس زمانہ ميں بہت کم عورتيں بطور سيکريٹری نوکری کرتی تھيں اور وہ عيسائی يا پارسی ہوتی تھيں ۔ مسلمان عورت کيلئے يہ ملازمت اتنی ہی بُری سمجھی جاتی تھی جتنا کہ ماڈل گرل ۔
ناظم آباد کراچی کے گينگ ميں صرف آوارہ اور بدچلن لڑکے شامل ہوا کرتے تھے کيونکہ اُن دنوں ناظم آباد ميں رہنے والوں کی اکثريت شريف لوگ تھے ۔
مزيد اس زمانہ ميں تعليم ميں لاہور کے بعد کراچی تھا اور پاکستان کے باقی شہر بعد ميں آتے تھے ۔
Leave A Reply