آخرکار حکومت نے ہار مان لی اور چینی کو اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس طرح ایک طرف چینی کی کمی ختم ہو جائے گی اور دوسری طرف بلیک کرنے والوں کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ اس سارے چکر میں اگر کسی کو فائدہ ہوا تو وہ شوگر مل مافیا تھا اور اس مافیا کے ارکان حکومت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد سپریم کورٹ شوگر مل مافیا کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور آخر تھک ہار کر خاموش ہو گئی۔
سیدھی سی بات ہے ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں جان بوجھ کر اس مسئلے کو لٹکاتی رہیں تا کہ ایک طرف شوگر مل مافیا بلیک سے منافع کما سکے اور دوسری طرف چینی 45 روپے کلو فراہم کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹي جا سکیں۔ مگر جب عوام کو سستی چینی سپلائی کرنے کی مہم ناکام ہو گئی تو حکومت نے اپنے ارکان یعنی شوگر مل مافیا کی مرضی کے مطابق چینی پر کنٹرول ختم کر دیا اور ان کو چینی کی قیمت خود مقرر کرنے کا اختیار دے دیا۔
یعنی اس سارے بکھیڑے میں ہر طرح سے جیت شوگر مل مافیا یعنی حکومتی اہلکاروں کی ہوئی اور عوام بیچارے چینی کو ترستے رہے۔ اسے کہتے ہیں چت بھی ہماری پت بھی ہماری۔
4 users commented in " چت بھی ہماری پت بھی ہماری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاور لوگ ابھی بھی نوازشریف اور پی پی کے گُن گائیں گے۔ 🙂
شوگر مل مالکان صرف حکومت ہی نہیں اپوزیشن میں بھی بیٹھے تھے۔ تبھی تو وہ عام کی دہائیں پر کان نہیں دھر رہے تھے۔
اپون مارکیٹ میں جانے کے بعد حکومت تو شاید پہلے کی طرح ہر قیمت پر چپ سادھ لے۔ لیکن شاید سپریم کورٹ کی طرف سے مافیا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ پیٹرول کی قیمتوں کے معاملہ پر بھی ٹانگ اڑا چکی ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف اور صرف عوام ہی نکال سکتی ہے۔۔۔ یا تو استعمال چھوڑ دیا جائے یا لوٹ لیا جائے۔۔ دوسرا حل تو تجویز نہیں کیا جاسکتا لیکن جب ہم فلاں ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں تو ایک دفعہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کی پراڈکٹ کا منظم بائیکاٹ کرکے دیکھ لیں وہ خود راہ راست پر آجائیں گے۔۔۔ویسے بھی شکر کوئی آب حیات تو ہے نہیں جس کے بغیر گزارا نا ہوسکے۔
میرا پاکستان صاحب آپکی پاکستانیت کے حوالے سے اجمل صاحب کی پوسٹ اردو اسپیکنگ پر ایک تبصرہ لکھا تھا جسے انہوں نے حسب عادت مٹادیا ہے کیونکہ سچائی انہیں ہضم نہیں ہوتی!
آپنے بھی کچھ فرمایا تھا اس لیئے وہی تبصرہ آپکی پوسٹ پر کیئے دے رہا ہوں!
کراچی میں لاشیں وہ گروا رہے ہیں جو پٹھانوں کو اسی طرح استعمال کررہے ہیں جس طرح ہندوؤں نے سکھوں کو استعمال کیا تھا!
اس حوالے سے میرے ذاتی تجربات تو میں بعد میں بتاؤں گا !مہر آپی نے اپنے حوالے سے جو بات بتائی تھی وہ کیونکہ تین نسلوں کا قصہ ہے اس لیئے بتا رہا ہوں، مہر آپی کی والدہ بتاتی ہیں کہ وہ جب ہندوستان سے آئیں تو بہت کم عمر تھیں وہ لوگ پنجاب میں آکر رہے جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو ہر لڑکی یہی سوال کرتی تم کون ہو کہاں سے ائی ہو جب بتایا جائے تو کہتیں اچھا تم لوگ ہندوستوڑے ہو ارے بھائی تم لوگ تو بھگوڑے ہو ! اور وہ شرمندہ ہو کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتیں ،شادی ہوکر وہ کراچی آگئیں یہاں مہر آپی پیدا ہوئیں اور جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو کسی نے نہیں مگر ایک پنجابی لڑکی نے ان سے یہ سوال کیا کہ تم کون ہو انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا پاکستانی وہ کہنے لگی پاکستانی تو تم بعد میں ہوگی ویسے تم کہاں کی ہو؟ کراچی کی، ارے نہیں بھئی کراچی کی نہیں پیچھے سے تم کہاں کی ہو؟اس سوال کا جواب انکے پاس نہ تھا اپنی والدہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ کیونکہ تم سندھ میں پیدا ہوئی ہو اس لیئے سندھی ہو جب اگلے دن پھر اس نے یہی سوال دہرایا تو انکا جواب سن کر اس نے زور سے قہقہہ مارا اور بولی سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتیں کہ تم ہندوستانی ہو،وہ اس سے جھگڑ پڑیں کہ نہیں میں پاکستانی ہوں ،اور ابھی چند سال پہلے پھر دو پنجابی خواتین نے الگ الگ موقعوں پر انہیں کہا آپ ہندوستانییوں میں ایسا ہوتا ہے ،آپ ہندوستانی تو ایسا کرتے ہیں،تو ان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے کہا میں اس ملک میں پیدا ہونے کے با وجود ہندوستانی ہوں اور میری اولاد بھی ہندوستانی ہے تو ہمیں کتنی نسلیں لگیں گی پاکستانی بننے میں؟
یہ ہے وہ تعصب کا ذہر جسے وطنیت کی شوگر کوٹیڈ گولی کی شکل میں اس ملک کے باقی مانندہ لوگوں کو کھلایا جارہا ہے عرصہ 62 سال سے،
یہ ہے تعصب کا وہ ذہر جسے وطنیت کی شوگر کوٹیڈ گولی کی شکل میں اس ملک کے باقی مانندہ لوگوں کو کھلایا جارہا ہے عرصہ ٦٢ سال سے!
اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہ غم صرف کچھ مخصوص پنجابیوں کو ہی کھائے جاتا ہے!
Leave A Reply