پرویز صاحب چیف آف سٹاف کیسے بنے
پرویز صاحب چیف آف سٹاف بننے کی کہانی اپنی اس خواہش یا دعا سے شروع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ميں منگلا میں اپنے گھر میں اداس بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ “میں تو اپنی فوج ، قوم سے صرف یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ پوری دیانتداری، وفاداری اور دل و جان سے ان کی خدمت کروں گا”۔ اللہ نے میری دعا قبول کرلی۔ یہ 18 اگست 1988 کا دن اور میری سالگرہ تھی۔
حساب لگایۓ پرویز صاحب پہلے ہی اپنے ٹارگٹ پر نشانہ لگاۓ بیٹھے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا پہلے ہی سے سو فیصد ارادہ تھا کہ وہ نواز شريف کا تختہ الٹيں گے۔
بقول ان کے کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دو ماہ بعد ہی وزیرِ اعظم کا فون آگیا اور انہیں پرائم منسٹر ہاؤس بلایا گیا۔ یہاں پرانہوں نے صبح آنے کی بات کرکے پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فوجی چاہے بریگیڈیئر جنرل ہی کیوں نہ وہ سول ملازم یعنی وزیرِ اعثم سے برتر ہوتا ہے ورنہ کسی اور کی کیا مجال کہ ملک کا سربراہ آپ کو بلاۓ اور آپ کہیں کہ میں صبح آجاؤں گا۔
پرویز صاحب کو راستے میں ہی پتہ چل گیا کہ انہیں چیف بنایا جارہا ہے اور جنرل کرامت صاحب مستعفی ہوگۓ ہیں۔حيراني ہے کہ اس استعفے پر کسی فوجی بیرک سے احتجاج بلند نہ ہوا۔
اس خبر کو سننے کے بعد انہیں چند ماہ قبل ہونے والی کور کمانڈر کانفرنسوں کی روداد یاد آگئ۔ جس میں جنرل علی قلی خان تو مارشل لاء لگانا چاہتے تھے مگر انہوں نے مخالفت کی تھی۔ آخر میں جنرل جہانگیر کرامت نے بھی وزیرِ اعظم کا ساتھ دیا تھا۔ اس طرح صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد شاہ مستعفی ہوگۓ۔
لیکن اس کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ پرویز صاحب کو چیف کیوں بنایا گیا اور جنرل جہانگیر کرامت کیوں مستعفی ہوۓ اس بارے میں اس وقت اسلام آباد میں یہ افواہ پھیلی ہوئي تھي۔ کہتے ہیں جب پرویز صاحب منگلا میں تعینات تھے تو ان کے ایک اور افسر کی بیگم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ کسی طرح اس کی اطلاع ان کے کسی ساتھی افسر نے جنرل جہانگیر کرامت کو کردی۔ اب پرویز صاحب کو اس فسر پر غصہ تھا اسلۓ انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت سے کہا کہ اس افسر کا کورٹ مارشل کیاجاۓ کیونکہ اس نے اپنے صاحب کی غلط رپورٹ کی ہے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے اس افسر کا کورٹ مارشل تو نہ کیا مگر اسے ریٹائر کرکے باہر جانے کا موقع فراہم کردیا۔ اس بات کا پرویز صاحب کو غصہ تھا۔ جب کورکمانڈروں کی کانفرنس ہوئی تو انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کی محالفت میں نواز شریف کی حمايت کی۔ اس بات کی خبر جنرل ضیاالدین بٹ نے نواز شریف کو کردی اور کہا کہ صرف پرویز مشرف ایک ایسا آدمی ہے جو کورکمانڈروں کی کانفرنس ميں آپ کی حمائت کرتا رہا ہے۔ بس پھر کیا تھا نواز شریف نے پرویز صاحب کو چیف چن لیا۔
پرويز صاحب کے بقول وزیرِ اعظم نوز شریف ان سے ملے اور انہيں چیف آف سٹاف کا عہدہ پیش کردیا۔ پھر پرویز صاحب جنرل جہانگیر کرامت سے ملے اور انہوں نے انہیں بتایا کہ جنرلوں کو ریٹائر کرنے پر ان کا اختلاف ضرور تھا مگر اصل اختلاف کارگل کی جنگ پر تھا۔ حیرانی ہے یہ ساری باتیں پرویز صاحب کو جنرل جہانگیر کرامت نے رخصتی کے وقت بتائیں۔ پتہ نہیں وہ کورکمانڈروں کی کانفرنسوں میں کونسے مسائل زیرِ بحث لاتے رہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کارگل کا اتنا بڑا ایشو ہو کورکمانڈروں کو چیف آف سٹاف اطلاع نہ کرے اور اگر اطلاع کرے تو فوج اس مسلے پر ايک نہ ہو۔
بہرحال پرویز صاحب اپنی دعا کی بدولت فوج کے سربراہ بن گۓ تاکہ وہ اپنے عوام اور ملک کي خدمت کر سکيں۔
2 users commented in " ان دی لائن آف فائر – 9 "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپرويز مشرف کے چيف بننے پر اعلٰی فوجی اور سول آفسر سب حيران تھے کيونکہ موصوف کوئی خوبی نہ رکھتے تھے اور ان کے متعلق عجيب عجيب باتيں مشہور تھيں ۔
پرویز صاحب چیف آف سٹاف بننے کی کہانی اپنی اس خواہش یا دعا سے شروع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دن ميں منگلا میں اپنے گھر میں اداس بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ “میں تو اپنی فوج ، قوم سے صرف یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ پوری دیانتداری، وفاداری اور دل و جان سے ان کی خدمت کروں گا”۔ اللہ نے میری دعا قبول کرلی۔ یہ 18 اگست 1988 کا دن اور میری سالگرہ تھی۔
حساب لگایۓ پرویز صاحب پہلے ہی اپنے ٹارگٹ پر نشانہ لگاۓ بیٹھے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا پہلے
what the hell is this? mother fucker
Leave A Reply