وزیرِ دفاع چوہدری مختار کو بیرونِ ملک روانگی سے روکنے کی پاداش میں بیچارے سرکاری ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے اور وہ بھی بناں تحقیق کے۔ مانا کہ وزیر صاحب کو روانگی سے روک کر ملک کی جگ ہنسائی ہوئی مگر جن سرکاری افسران نے روکا ان کے پاس بھی تو ثبوت ہوں گے۔ یعنی ان کے پاس ای سی ایل یعنی ایگزٹ کنڑول لسٹ ہو گی جس میں چوہدری احمد مختار کا نام ہو گا۔ تحقیق تو یہ ہونی چاہیے کہ یہ ای سی ایل کس نے افسران کو مہیا کی۔
اگر انصاف سے کام لیا جائے تو محکمے کے سربراہ یعنی وزیرِ داخلہ کو برطرف کرنا چاہیے تھا یا اس جگ ہنسائی پر رحمان ملک کو خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ مگر انصاف نہیں ہوا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محکمے کا سربراہ اپنی غلطی مان کر استعفیٰ دے دیتا ہے مگر ہمارے ہاں چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے اس لیے بڑے لوگوں کی درگاہ میں ماتحتوں کی بلی چڑھا دی جاتی ہے۔
2 users commented in " اصل ذمہ دار کو کیوں برطرف نہیں کیا؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبابا آدم ۔۔۔
اردو میں عموماّ یہ لفظ بابا نہیں بلکہ “باوا“ آدم لکھا جاتا ہے۔
موضوع سے متعلق آپکا نتیجہ سو فیصد درست ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا۔ ایف بی آئی کے امگریشن اور پاسپورٹ سیل کے ان ملازمین کو شاباش دی جاتی جنھہوں نے ضوابط کے تحت کاروائی کرتے ہوئے ، کسی دباؤ یا ملک کے وزیرِ دفاع کے اتنے بڑے عہدے اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی میں چوہدری مختار احمد کے سیاسی قد کاٹھ کو صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف اور صرف اُس وقت اُن قواعد و ضوابط کے مطابق کاروائی کی۔ جس کا اُن اہلکاروں کا منصب اور فرض اُن سے متقاضی تھا۔
تحقیق تو یہ ہونی چاہئیے کہ اگر آئین و قانون اور تمام سرکاری ضوابط سے ہٹ کر کسی نے وزیرِ دفاع کا نام مشہورو معروف ایگزاسٹ لسٹ میں ڈالا ہے تو پھر اُس متعلقہ عہدےدار سے باز پُرس کی جائے۔
ائرپورٹ پہ ایف آئی اے کے ملازمین سے باز پُرس اُسی صورت میں کی جانی چاہئیے تھی اگر اُن کو وزیرِ دفاع سے ذاتی یا سیاسی مخاصمت ثابت ہوتی نیز اگر وزیرِ دفاع کا نام کسی بھی صورت میں ایگزیسٹ لسٹ میں شامل نہ ہوتا۔
ایسے فرض شناس سرکاری ملازمین کو بجائے شاباش دینے کہ الٹا انکے خلاف سخت ترین محکمانہ کاروائی کر کے ، پاکستان کے تمام اداروں اور سرکاری ملازمین کو جو کہ حکومت کہ نہیں بلکہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں۔ انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ قانون کے بول بالا کے بجائے حکومت وقت کے “بڑوں“ کو ہی قانون و قاعدہ سمجھیں۔
میری رائے میں اعلٰی عدلیہ کو ایسے سرکاری ملازمین کے حق میں سوموٹو طور پہ خود سے دلچسپی لینی چاہئیے تانکہ ابن الوقت بونوں کے چونچلوں کی بجائے قانون کی حکمرانی ہو۔ یا کم ازکم وکلاء یا شہری تنظیموں کو قانون کی خاطر کسی بھی حکمران یا عہدیدار کو خاطر میں نہ لانے والے سرکاری ملازمین کے تحظ کے لئیے آگے آنا چاہئیے ۔ نہیں تو پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور اچھی ریاست کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، ایسے معاملوں میں عام شہری کو بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہئیے کہ یہ سب کا معاملہ ہے۔
ورنہ ہر قانون و قاعدہ اور آئین سے ماورا ایک ہی غیر ملکی فون کال پہ بونے حکمران پاکستان کی قسمت بلکہ پاکستان کی سترہ کروڑ عوام کا فیصلہ کرتے رہیں گے۔
یہ واقعہ دراصل نیب اور وزارت داخلہ کے درمیان کورڈینیشن کے فقدان کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور اس واقعہ کا ردعمل حکومت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک اہلکار کی غلطی کا خمیازہ باقیوں کو بھگتانا انصاف نہیں۔
رہی بات مستعفی ہونے کی تو استعفی اور اس سے ہم آواز تمام الفاظ ہمیں اپنی ڈکشنریوں سے نکال دینا چاہیے۔
Leave A Reply