نظام کا قيام – آخری حصہ
پرويز صاحب نےبدنامِ زمانہ ایل ایف او آرڈينينس کے تحت قومي انتخابات 2002 ميں کراۓ۔ وہ کہتے ہيں ان کي جماعت مسلم ليگ ق نے قومي اسبملي ميں سب سے زيادہ سيٹیں حاصل کيں مگر حکومت بنانے کيلۓ اسے ايم کيو ايم کو اپنے اتحاد ميں شامل کرنے کے باوجود مزيد حمائت کي ضرورت تھي۔ سو انہوں نے طارق عزيز صاحب کي مدد سے پي پي پي کے قرض نادہندگان کو نيب کا ڈراوا دے کر توڑ ليا اور مسلم ليگ ق کي حکومت ظفرالللہ جمالي کي قيادت ميں بنالي۔
جن پي پي پي کے ممبران نے اپنا الگ بلاک بنايا ان کي اکثريت کووزارتوں ميں حصہ دے ديا گيا۔ انصاف کا تقاضا تويہ تھا کہ پي پي پي سے نکلنے والوں کو فلوکراسنگ کے قانون کے تحت نااہل قرار ديا جاتا اور وہاں دوبارہ اليکشن کراۓ جاتے۔ مگر جب اپنا مفاد عزيز ہو تو سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہيں۔
يہي کچھ سندھ ميں ہوا۔ پي پي پي کي اکثريت کے باوجود مسلم ليگ ق نے ايم کيو ايم سے ملکر سندھ میں بھي حکومت بنا لي۔ صدر چونکہ اس خدشے کا اظہار کرچکے ہيں کہ مہاجر ہونے کي بنا پر نواز شريف نے ان کيساتھ امتيازي سلوک کيا اسلۓ پرويز صاحب پر يہ شک بھي کيا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مہاجر ازم کے مشترکہ مفاد کي بنياد پر ايم کيو ايم سے اتحاد کيا۔
بلوچستان ميں حکومت نے ايم ايم اے کيساتھ ملکر حکومت بنا لي اور سرحد ايم ايم اے کے پاس چلا گيا۔ بلوچستان کي حکومت کي کھچڑي کي سمجھ آج تک نہيں آسکي۔ جب ايم ايم اے حزبِ اختلاف ميں بھي رہي، حکومت کي مخالفت ميں بھي پيش پيش رہي تو پھر بلوچستان ميں حکومت کا ساتھ دينے کا کيوں فيصلہ کرليا۔ اسي بنا پر لوگ ايم ايم اے پر دوغلے پن کا الزام لگاتے ہيں اور کہتے ہيں کہ ايم ايم اے حکومت کي اپني حزبِ اختلاف ہے۔ اس خدشے پر تب حقيقت کا گمان ہونے لگا جب ايم ايم اے نے حکومت کيساتھ معاہدہ کرکے ايل ايف او کو ايک ترميم کے بعد آئين کا حصہ بنا دیا اور 1973 کے آئین کا حلیہ بگاڑ کر دکھ دیا۔ حالانکہ ایم ایم اے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنا بڑا رسک اسلۓ لیا تاکہ پرویز صاحب وردی اتار دیں گے۔ مگر جب پرویز صاحب وردی اتارنے کے وعدے سے مکر گۓ تو ایم ایم اے کی سکیم فیل ہوگئ۔ اس سے تو يہ بھي شک پڑتا ہے کہ پرويز صاحب کا پہلے وردي اتارنے کا وعدہ کرکے وردي اتارنے سے انکار کہيں اسي معاہدے کا حصہ نہ ہو۔
پرويز صاحب کہتے ہيں کہ انہوں زباني وردي اتارنے کا وعدہ کيا جو بعد ميں ملک کے مفاد ميں پورا نہ کيا۔ اس پر عبدل قادر حسن نے بڑا خوبسصورت کالم بھي لکھا۔ وہ کہتے ہيں کہ پرويز صاحب نے زباني وعدے کا پاس نہ کرکے ان لوگوں پر کوئي اچھا اثر نہيں چھوڑا جن کا کاروبار ہي زبان پر چلتا ہے۔
پرويز صاحب وردي نہ اتارنے کي وجوہات کا تفصيل سے ذکر کرتے ہيں جو پہلي وجہ سے مختلف ہيں۔ اب تک وہ يہ کہتے آۓ تھے کہ چونکہ ايم ايم اے نے بھي اپنے وعدے کا پاس نہ رکھا اسلۓ وہ بھي اپنے وعدے سے مکر گۓ۔ مگر اب وہ یہ بھی کہتے ہيں کہ چونکہ ڈاکٹر قدير کا سکينڈل اور پھر انڈيا کيساتھ کشيدگي اور آرمي، جمہوريت اور بيوکريسي کي تکون کي خاص ترکیب کی وجہ سے وردي نہ اتارنا مناسب سمجھا۔
پرويز صاحب کہتے ہيں کہ جب انہوں نے اقتدار سنبھالا وہ بيک وقت چيئرمين جوائنت چيف آف سٹاف کميٹي، چيف آف آرمي سٹاف، چيف ايگزيکٹو آف پاکستان اور صدرِ پاکستان تھے۔ پرويز صاحب کے بقول وہ صدر دو وجوہات کي بنا پر بنے۔ ايک تو پروٹوکول جو عالمي ليڈروں سے ملنے کيلۓ ضروري تھا اور دوسرے آنے والے 2002 کے اتخابات۔ وہ کہتے ہيں کہ بعد ميں چيف ايگزيکٹو کا عہدہ وزيرِ اعظم کيساتھ بدل گيااور چيئرمين چيف آف سٹاف کميٹي جنرل عزيز کو بناديا جو ان کے رشتہ دار تھے۔ بعد ميں ان کے پاس صدر اور آرمي چيف کا عہدہ رہ گيا اور چاروں صوبائي اسمبليوں، قومي اسمبلي اور سينٹ نے انہيں باقاعدہ صدر چن ليا۔ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ آرمي چيف کا عہدہ رکھنے کي وجہ سے لوگوں کو مجھ پر شک ہوا کہ ميں مکمل جمہوريت بحال نہيں کروں گا۔ وہ کہتے ہيں کہ جو ميرا دل کہتا ہے وہ ميں کرتا ہوں۔ نہ ميں دوسرے ملکوں کي بات سنتا ہوں اور نہ ميڈيا کا مختاج ہوں بلکہ وہي کرتا ہوں جس سے ميرے لوگ خوش ہوں۔
انہوں نے وزيرِ اعظم اور پارٹي ليڈر کے عہدے جو عموماً اکھٹے ہوتے ہيں الگ رکھتے ہوۓ چوہدري شجاعت کو مسلم ليگ ق کا صدر اور جمالي کو وزيرِ اعظم بنا ديا۔ بعد ميں جب پرويز صاحب کو محسوس ہوا کہ جمالي صاحب اس عہدے کيلۓ مناسب نہيں ہيں تو انہوں نے انہيں ہٹانے کا فيصلہ کرليا۔ وہ کہتے ہيں جب مسلم ليگ ق متبادل وزيرِ اعظم کے نام پر متفق نہ ہو پائي تو ميں نے مداخلت کي اور شوکت عزيز موجودہ وزيرِ خزانہ کو اس عہدے کيلۓ نامزد کرديا۔ انہوں نے جمالي صاحب سے کہا کہ وہ شوکت عزيز کو اگلے وزيرِ اعظم کے طور پر پيش کريں اور جب جمالي صاحب نے انکار کيا تو چوہدري شجاعت کو عارضي وزيرِ اعظم بنا ديا گيا۔ پھر شوکت عزيز کو دو حلقوں سے انتخاب لڑوا کر قانوني خانہ پوري کي گئ اور ايک ٹيکنوکريٹ کو سب سياستدانوں پر اوليت دے کر وزيرِ اعظم بنا ديا گيا۔
جمالي صاحب کي خصوصيات گنواتے ہوۓ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ وہ ميرے مخلص تھے اور میں نے ان کي شکل ميں ايک اچھا دوست پايا۔ بعد میں جمالي صاحب کيساتھ فيملي ڈنر کيا اور ان کي وفاداري کو خراجِ تحسين پيش کيا۔
آجکل جمالي صاحب اسي وفاداري کے صلےميں ہاکي فيڈريشن کے صدر ہيں۔ مگر حيراني ہے کہ اتنا بڑا سردار اتنے بڑے عہدے کو چھوڑنے کے بعد اتنے چھوٹے عہدے پر اکتفا کر بيٹھا۔
اس باب کے آخر ميں پرويز صاحب بہت ساري مسلم ليگوں کو اکٹھا کرنے کا کريڈت ليتے ہيں اور پھر چوہدري شجاعت کو اپني مسلم ليگ ق کا صدر منتخب کرتے ہيں جس پر کسي دوسرے ليڈر کو اختلاف نہيں ہوتا۔
پرويز صاحب پہلے کہ چکے ہيں کہ بڑي بڑي سياسي پارٹياں اپنے اندر تو انتخابات کراکے جمہوريت بحال کرتي نہيں اور کہتي ہيں کہ وہ ملک ميں جمہوريت قائم کريں گي۔ پرويز صاحب يہ بات بھول رہے ہيں کہ انہوں نے خود مسلم ليگ ميں انتخاب کي بجاۓ چوہدري شجاعت کو چنا اور بعد ميں بھي کبھي اس جماعت نے انتخابات نہي کراۓ اور نہ ہي آج تک مکمل رکن سازي کي ہے۔ حالانکہ وہ کہتے ہيں کہ قومي اور صوبائي سطحوں پرمسلم لیگ ق کے نمائندے منتخب ہوۓ مگر اعليٰ عہدوں پر نہيں۔
اس باب کے بعد انگريزي کتابوں کي طرز پر پرويز صاحب کي کہاني تصويروں ميں پيش کي گئ ہے۔ ان تصويروں ميں ان کي بيگم کي ماڈرن لباس ميں تصاوير شامل کرکے خود کو روشن خيال دکھايا ہے۔دنيا کے بڑے بڑے ليڈروں کےساتھ ان کي تصاوير بھي ہيں اور انہيں سپورٹسمين ثابت کرنے کيلۓ کھلاڑيوں کو انعام ديتے بھي دکھايا گيا ہے۔ ايک تصوير ميں وہ خانہ کعبہ سے باہر نکلتے ہوۓ دکھاۓ گۓ ہيں تاکہ اسلام پسندوں کو دوسری تصویروں پر اعتراض نہ ہو۔
No user commented in " ان دي لائن آف فائر – 18 "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply