القاعدہ، پہاڑوں میں
اس باب میں پرویز صاحب نے اپنے قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کی ساخت اور پھر بعد ميں وہاں پر القاعدہ کیخلاف کاروائیوں کا ذکر کیا ہے۔ پرویز صاحب نے تین بڑی کاروائیوں کو ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوں اپنے اتحادی امریکہ کی طرف سے تکنیکی امداد بشمول رات کو اڑنےوالے ہیلی کاپٹروں کی نایابی کا بھی گلہ کیا ہے۔
پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے قبائلی علاقے سات قبیلوں پر مشتمل ہیں جنہیں ایجنسیوں میں منظم کیا گیا ہے۔ خیبر، باجوڑ، مہمند، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیاں۔ وہاں کی زمین انتہائی ناسازگار اور دشوارگزار ہے، چٹیل پہاڑ ہیں۔ وہاں کے موسم بھی سخت ترین ہوتے ہیں۔ فاٹا کا درجہ نیم خود مختار علاقے کا ہے اور اس میں تقریباً بتیس لاکھ قبائلی آباد ہیں۔ انگریز بھی اس نوآبدیاتی علاقے میں چند سڑکوں کے ذریعے آتے جاتے تھے۔ یہ علاقہ تقریباً 10600 مربع میل علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور روایتی طور پر اس علاقے میں عمل داری ملک یا قبائلی سرداروں اور بزرگوں کے ذریعے ہوتی ہے، جو قدیم قبائلی روایات کے تحت اپنےاپنے قبیلوں پر سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ قبائل مزہبی ہیں، لیکن ملا کا کردار مسجد تک محدود ہے۔ وفاقی حکومت کی نمائندگی پوليٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ہوتی ہے، جو نیم فوجی تنظیم اور علاقائی پولیس جسے خاصہ دار کہتے ہیں، کے ذریعے حکومتی امور کی نگرانی کرتا ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد قبائل کے درمیان سے گزرتی ہے اور ایسے لوگوں کو، جن کے بہت گہرے نسلی اور معاشرتی رشتے ہیں، منقسم کرتی ہے۔ 1893 کي ڈیورنڈلائن کے معاہدے میں، جو سابق ہندوستان اور اب پاکستان کو افغانستان سے علیحدہ کرتی ہے،ایک شق ہے جسے عموماً سہولیاتی حقوق کہا جاتا ہے، جس کے تحت برطانوی حکومت کی آخری دہائیوں میں قبائل تجارتی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر آزادی سے اور بغیر روک ٹوک کے سرحد عبور کرسکتے تھے۔ یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ اس تاریخی شہرت کے باوجود کہ وہ انتہائی نڈر جنگجو ہیں یا اپنے ہتھیار ساتھ رکھتے ہیں اور اپنے ذاتی اسلحے خانے بھی رکھتے ہیں، فاٹا کے قبائلی ہمیشہ سے پاکستان کے انتہائی محب وطن رہے ہیں۔ انہوں نے 1948 میں کشمیر کی جنگ میں بھر پور حصہ لیا اور بھارت کے ساتھ جنگوں میں افواجِ پاکستان کو مسلح قبائلی لشکر بھی فراہم کۓ۔ وہ انتہائی آزاد منش بھی ہیں۔ 2000 میں پہلی مرتبہ پاکستان آرمی کو تمام قبائلی ایجنسیوں میں سڑکیں بنانے اور اقتصادی ترقی شروع کرنے کیلۓ داخل ہونے دیا گیا۔ اس سب کے نتیجے میں، ہماری خواہش یہ ہے کہ سیاسی طور پر قبائلی علاقے صوبہ سرحد میں مدغم ہوجائیں۔
[پرویز صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ قبائلیوں کی وفاداری کا صلہ وہ ان بمباری کرکے اور ان پر اعتماد نہ کرکے دے رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو صدر کا یہ خواب کہ وہ سرخد میں مدغم ہوجائیں کبھی بھی پورا نہیں ہوگا]۔
911 کے بعد وہاں پر فوج بڑھا دی گئ اور معلومات کے حصول کیلۓ علاقے میں ایک تنظیم تشکیل دی گئ۔ تورا بورا کے واقعہ کے بعد جب القاعدہ اور طالبان کے بہت سے جنگجو پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہوۓ، اس وقت انہیں پکڑنے کیلۓ پرویز صاحب نے ایک منصوبہ بنایا۔
تورا بورا سے بھاگنے والوں کو پکڑنے کیلۓ بچھاۓ گۓ جال میں ہم نے القاعدہ کے 240 کارکن پکڑے جو 26 مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اکثریت افغانیوں اور عربوں کی تھی۔ 911 کے بعد دہشتگردی کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں میں، ایک ہی وقت میں اتنی بڑی تعداد کے گرفتار کۓ جانے کی یہ سب سے بڑي مثال ہے۔
اس کے بعد ہم نے متعدد چھوٹي بڑی کاروائیاں کیں۔ اخبارات میں ان کی خبریں سرسری طور پر آئی ہیں۔ ان کے پورے قصوں اور نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے جتنا زیادہ کام کیا، لوگوں کو اس کے بارے میںمعلومات کم ہیں۔
تورا بورا کے بعد پہلی کاروائی جو کازہاپنگا کے نام سے ہوئی، نے حکومت کی آنکھیں کھول دیں۔ جب فوج نے ایک احاطے کا حصار مکمل کرلیا تو بتایا گیا کہ احاطے میں دو آدمی اور چار خواتین ہیں اور فوجی جوانوں کو دھوکے سے اندر بلاکر تلاشی کی دعوت دی۔ جب فوجی اندر گھسے تو ان پر حملہ کردیا گیا اور دس سپاہیوں کو شہید کردیا گیا۔ اس کاروائی سے پتہ چلا کہ وہاں پر غیرملکی دہشتگرد چھپے ہوۓ ہیں۔
اس کے بعد امریکہ کے ساتھ ملکر ایک ہیلی کاپٹر سوار سپیشل آپریشنز ٹاسک فورس بنائی گئ مگر بعد میں جس امداد کا وعدہ کیا گیا وہ بروقت نہ ملی جس کی وجہ سے ہماری فوج کو اپنے سازوسامان پر بھروسہ کرنا پڑا اور ہمارا جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا۔ ان چھوٹی موٹی کاروائیوں کا کوئی نتیجہ بھی برآمد نہ ہوا۔
2002 میں سراغراسانی کا ایک جال بچھانے اور ایس او ٹی ایف کی عملی کارکردگی کو تقویت پہنچانے کیلۓ ہم نے انتہائی کاوشیں کیں۔ سراغرسانی کے معاملات پر کبھی کبھی پاکستان آرمی اور پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں کے مابین غلط اطلاعات فراہم کرنے کا الزام لگاتی تھی اور دوسرے طرف ایجنسیاں فوج کو اس کے سست ردِ عمل پر موردِ الزام ٹھراتی تھیں۔ دونوں دعووں میں حقیقت تھی۔
[ان غلط معلومات کی وجہ سے پاکستانی افواج کو نقصان بھی اٹھانا پڑا مگر پرویز صاحب نے اس نقصان کا ذکر نہیں کیا]۔
نوتشکیل شدہ ایس او ٹی ایف کی پہلی کاروائی آپریشن بغارچینا کے نام سے اکتوبر 2003 میں اسی نام کے علاقے میں کی گئ۔ ابھی حصار مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ دہشتگردوں نے گولیاں چلانا شروع کردیں۔ دن بھر اس وقت تک گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہا جب تک مزاحمت پر قابو نہ پالیا گیا۔ 8 دہشتگرد مارے گۓ جن میں ثمرقند نامی ایک اردنی جو القاعدہ کا ایک اعلیٰ رکن تھا اور جس کے سر پر پانچ ملین ڈالر کا انعام تھا اور حسن معصوم نامی ایک چینی جو مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کا لیڈر تھا، شامل تھے۔
پانچ ماہ بعد 16 سے 28 مارچ 2004 تک جنوبی وزیرستان ایجنسی کی وادی وانا میں بڑی کاروائی کی گئ۔ سب سے پہلے قبائلی سرداروں سے بات کی اور غیرملکیوں کو ہتھیار ڈالنے اور پرامن طور پر ادھر ہی رہنے کی پیشکش کی۔ قبائلیوں کا جواب مثبت تھا مگر غیرملکیوں نے بات ماننے سے انکار کردیا اس کا مطلب ہے کہ غیرملکی مقامی قبائلیوں کی بات بھی نہیں سنتے تھے۔ حکومت نے کاروائی کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو سپاہی ایک گھات کا شکار ہوۓ پھر دہشتگرد اونچائی پر تھے اسلۓ آرمی کو کافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر مزید کمک منگوائی گئ اور گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ ایک حصار سے بچ جانے والی پہاڑی سے دہشتگردوں نے گولے برسا کر آرمی کے 16 جوان شہید کردیۓ۔ اس پہاڑی پر بعد میں قبضہ کرلیا گیا اور وانا کو دہشتگردوں سے خالی کرالیا گیا۔ اس قبضے کے بعد پتہ چلا کہ وہاں پر الیکٹرونکس کے اعلیٰ معیار کے ایک ٹیلیفون ایکسچینج سے لیس سرنگوں کا جال تھا۔ اس کاروائی میں مجموعی طور پر 64 سپاہی شہید ہوۓ اور 63 دہشتگرد مارے گۓ۔
[يہ بات سچ نہيں ہے کہ جنوبي وزيرستان کے معرکے ميں حکومت کو مکمل فتح حاصل ہوئي۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ حکوت کو حد سے زيادہ مالي وجاني نقصان اٹھانا پڑا اور وہ پسپا ہوگئ۔ ناکامي کے بعد قبائيليوں کے ساتھ معاہدہ ہي اس کاروائي کا انجام قرار پاۓ گ]ا۔
اس کے بعد وانا اور افغانستان کی مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ کاروائیوں کے اگلے دو ماہ کے بعد فرار ہوتے ہوۓ کچھ غیرملکی دہشتگردوں نے شکیئ میں پناہ لی اور اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کردیا۔ 10 جون 2004 کی کاروائی ميں تین ہزار سپاہیوں نے اپنا حصار قائم کرلیا۔ پہلے پاکستان کی فضائیہ نے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی اور پھر پیادہ فوج نے حملہ کردیا۔ اس کاروائی میں 4 سپاہی شہید ہوۓ اور 50 سے زیادہ دہشتگرد مارے گۓ۔ اس کے بعد غیرملکیوں کی شکست ہونے کے بعد فرضی کہانیوں کا خاتمہ ہوگیا اور مقامی آبادی نے اپنے آپکو ان سے جدا کرلیا۔ اس کاروائی کے بعد مقامی قبائل نے حکومت کیساتھ شکیئ معاہدے پر بھی دستخط گۓ۔
ان کاروائیوں کو پرویز صاحب نے دوسری جنگ کے دوران بحرالکاہل میں ڈگلس میکارتھر کے جزیرے سے جزیرے پھلانگنے کی مہم سے تشبیہ دی ہے۔ پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ ہم نے دوجزیروں کا سفایا کردیا لیکن ہمارا پھلانگنے کا عمل ختم نہیں ہوا تھا۔
[يہ عمل نہ برطانوي مکمل کرسکے اور نہ ہي حکومت کو اب تک جرأت ہوئي ہے کہ وہ اس علاقے پر کنٹرول کرسکے۔ اسلۓ حکومت بندر کي طرح جزيرے پھلانگتي ہي رہے گي اور کبھي بھي اس علاقے پر کنٹرول حاصل نہيں کرسکے گي۔ ہاں اگر وہاں پر کسي طرح تعليم شروع کردي جاۓ تو ہوسکتا ہے قبائلي سول ورلڈ کا حصہ بننے کيلۓ تيار ہوجائيں]۔
اس کے بعد فرار ہونے والے غیرملکی دہشتگردوں نے محسود قبیلے اور دلا خلا کے علاقوں ميں پناہ لے لی۔ 9 ستمبر 2004 کو یہاں پر فضائی حملہ ہوا اور 60 سے 70 دہشتگرد مارے گۓ۔ فوج نے بھی کاروائی کي اور اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے ميں 42 سپاہی شہید ہوگۓ اور 70 دہشتگرد مارے گۓ۔ جو بچ گۓ وہ پہاڑیوں میں فرار ہوگۓ۔
اس ساری کاروائی ميں مجموعی طور پر 350 دہشتگرد مارے گۓ اور 800 گرفتار ہوۓ۔ ہمارے تقریباً 300 سپاہی شہید ہوۓ۔
[کيا اتنا بڑا جاني نقصان کرکے اتحاديوں سے پکڑے جانے والے لوگوں کے بدلے کروڑوں ڈالر وصول کرنا ٹھيک تھا۔ اگر ہماري جگہ پر اتحادي ہوتے تو کبھي بھي ايسا نہ کرتے اور اپنے ايک ايک سپاہي کي جان کي حفاظت کرتے]۔
جنگ جاری ہے اور اب القاعدہ کي شمالی وزیرستان ایجنسی میں میرعلی اور میرانشاہ کے قصبوں میں موجودگی کی اطلاعات آئی ہیں۔ اب ہماری توجہ ان قصبوں کی طرف ہے۔
اس کے بعد پرویز صاحب اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہیں اور القاعدہ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
القاعدہ مالی طور پر مضبوط ہے۔ اس نے پاکستانی ہمدردوں اور معتقدین کو مزہبی نظریاتی جوش اورمالی فوائد کے لالچ، مع مقامی احاطوں کو بہت زیادہ کرایوں پر حاصل کرکے اپنی طرف مائل کیا ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ لوگوں کو ان سے تعاون کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ القاعدہ کے بارے میں اطلاعات جمع کرنا، اس کیخلاف کاروائیاں کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ تمام انسدادِ دہشتگردی کی کاروائیوں اور ان کی کامیابی کا دوارومدار سراغراسانی پر ہے لیکن اس مقصد کے لۓ شب وروز تیزی سے حرکت میں آجانا اور مؤثر اسلحے کا ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود ہمیں سراغرسانی کے لۓ جدید آلات وقت پر فراہم نہیں کۓ گۓ اور ہماری فوجی مہمات، امریکی ذرائع سے فراہم کی گئ تکنیکی اطلاعات کی محتاج ہیں۔القاعدہ کا اپنی تشہیر کرنے کا ایک انتہائی کامیاب آلہ یہ پروپیگنڈا رہا ہے کہ اس کے اراکین، اسلام کے سچے پیروکار ہیں اور پاکستان آرمی، امریکہ اور مغرب کے زیرِ اثر کافروں کی طرح کاروائیاں کررہی ہے۔ اس خطرناک اور زہریلے پروپیگنڈے کا جواب دینا انتہائی اہم تھا، کیونکہ القاعدہ کا پیغام غیرتعلیم یافتہ اور بھولے بھالے لوگوں کے لۓ بہت قابلِ یقین تھا۔ ہمارے فوجی کمانڈروں کو خود اپنے ماتحتوں پر ایسے پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کی نازک ذمہ داری اٹھانی پڑی۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارے فوجی افسران نے اپنے سپاہیوں کو ان کے اپنے مقصد سے نہیں ہٹنے دیا اور انہیں یہ سچ بار بار بتایا کہ وہ پاکستان دشمن عناصر سے برسرِ پیکار ہیں اور اس معرکے کا مزہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[سننے ميں تو يہي آتا رہا ہے کہ امريکہ نے پاکستان کو دہشتگردي ختم کرنے کيلۓ کروڑوں ڈالر کي امداد دي ہے اور اس کے باوجود يہ رونا دھونا کہ ہميں جديد آلات نہيں ملےغلاط لگتا ہے۔ اگر وہ رقم جديد آلات خريدنے کيلۓ استعمال نہيں کي گئ تو پھر کہاں گۓ]۔
یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مطلوبہ سعی نہیں کر رہا۔ لیکن یہ کہنے والے زمینی حقائق سے ناواقف ہیں۔ پاکستان نے سب سے زیادہ آرمی دہشتگردی کے خلاف استعمال کرتے ہوۓ سب سے زیادہ دہشتگرد پکڑے اور مالی اور جانی نقصان اٹھایا۔
پاکستان کیخلاف ایک اور الزام یہ ہے کہ دہشتگردی پاکستان کے علاقوں سے ہوتی ہے۔ یہ ایک منفی سوچ ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کو پناہ فراہم کرتا ہے۔ یہ سوچ افغانستان کے اندر پیدا کی گئ ہے۔ اس زہریلے اور منفی پروپیگنڈے کی حقیقت پر نظر ڈالنی چاہیۓ۔ پاکستان کا اپنا استحکام افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔ چہ جاۓ دوسروں کو الزام دینے کے، افغان حکومت کو خود اپنے ملک کے اندر حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیۓ۔
[اگر يہي صلہ دہشتگردي کيخلاف اپنا جاني اور مالي نقصان کرکے ملنا تھا تو پھر ايسي افغان حکومت کي حمايت کي کيا ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کي حکومت ختم کروا کے اپنے دشمن شمالي اتحاد کو حکومت دلوائي مگر ابھي تک وہ اپني سابقہ دشمني بھولنے کو تيار نہيں]۔
طالبان کا گڑھ جنوب مشرقی افغانستان میں قندھار ہے۔ اتحادی فوجوں کیخلاف دہشتگردی کی اکثر کاروائیاں، اندرونِ افغانستان میں ایسے مقامات سے کی جاتی ہیں، جو پاکستان کی طرف سے ناقابلِ عبور ہیں۔ سرحد کے اتنے زیادہ طویل، سنگلاخ علاقوں کے باعث اس چیز کو نہیں روکا جاسکتا کہ القاعدہ اور طالبان کے دہشتگرد، پاکستان کی طرف سے افغانستان میں چھپ چھپا کر داخل ہوجاتے ہیں لیکن اس کا تمام تر الزام پاکستان پر رکھنا، دروغ گوئی اور گمراہ کن کوششوں پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں، القاعدہ کے کارکن غیرملکی ہونے کی وجہ سے پہچانے جاسکتےہیں، لیکن طالبان افغان ہیں اور اسی نسل سے ہیں، جس سے پاکستانی پٹھان ہیں۔ جب تک کہ کوئی دشمنی ظاہر نہ کرے، دوست اور دشمن میں فرق کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دشتگردی کی اکثر کاروائیاں مقامی ہیں، جبکہ کچھ لوگ چپکے سے سرحد بھی پارکرلیتے ہیں، ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عفریت سے لڑنے کے لۓ، بجاۓ الزام تراشی کرنے کے اور اپنے مقاد کو کمزور کرنے کے،ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کریں۔
[ايک چيز کي سمجھ اب تک نہيں آئي کہ اتحادي جنہوں نے افغان حکومت کو قائم رکھا ہوا ہے کيوں اس پر دباؤ نہيں ڈالتے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشيوں کا سلسلہ بند کرديں۔ کيا يہ جان بوجھ کر خليج ڈالي گئي ہے تاکہ پاکستان آرام اور سکون ميں نہ رہ سکے۔ کبھي کبھي يہ معمے اپنے دماغ ميں نہيں آتے مثلأ افغاني يا عراقي حکومت قائم کرنا اور پھر بعد ميں کہنا کہ وہ خود مختار ہيں جو چاہيں کريں۔ عام سي بات ہے کہ اگر آپ ڈکٹيٹر يہ کہے کہ وہ بے بس ہے تو پھر وہ جھوٹا ہے يا آپ کو دغا دے رہا ہے]۔
ایک اور غلط فہمی، جس کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے قائدین، پاکستان سے کاروائیاں کررہے ہیں۔ یہ ایک اختراع کے علاوہ اور کچھ نہیں، جس کی نہ کوئی اصلیت ہے اور نہ ثبوت۔ سرحد پر پہاڑی علاقے میں چھپنے کے مواقع ضرور ہیں، لیکن یہی صورتِ حال سرحد پار افغانستان کی طرف بھی ہے کیونکہ دونوں طرف زمینی علاقہ ایک جیسا ہے۔ ہماری سرحد کی طرف ایک انتہائی مؤثر حفاظتی نظام موجود ہے، جبکہ افغانستان کی طرف ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ افںانستان میں بڑے بڑے علاقوں میں کوئی فوجی کاروائیاں نہیں ہورہیں۔ اس وجہ سے کسی کے لۓ بھی پاکستانی علاقے کی بجاۓ افغان علاقےمیں چھپنا زیادہ آسان ہے۔ ان سب الزامات، غلط بیانیوں اور اختلافات کے باوجود ہم دہشتگردی کے خلاف مشترکہ جنگ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان میں اپنے اتحادی شرکاء اور خصوصاً امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کے لۓ اچھے تعلقات پیدا کر رکھے ہیں۔ مؤثر مواصلاتی نظام اور رابطہ افسروں کی مناسب موجودگی کی وجہ سے اب ہماری کاروائیوں کی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ایک اہم سوال، جس کا جواب اب تک نہیں ملا، وہ ہے ایمن الزواہری اور اسامہ بن لادن کا اتا پتا۔ وہ کسی قبائلی ایجنسی میں مقامی ہمدردوں کی مدد سے چھپے ہوۓ ہوسکتے ہیں۔ لیکن اتنا ہی وہ افغانستان میں ملا عمر کے مہمان بھی ہوسکتے ہیں یا وہ چالاکی سے سرحد کے قریب اپنے ڈھونڈنے والوں کو الجھن میں ڈالنے کیلۓ پاکستان اور افغانستان آتے جاتے رہتے ہیں۔
[ اسامہ کے ديومالائي کردار کو زندہ رکھنا اتحاديوں کے فائدے ميں ہے اسي لۓ لاکھوں کو مارنے، شہروں کے شہر تباہ کرنے کے باوجود ايک آدمي نہ پکڑا جاۓ سمجھ سے بالا تر ہے]۔
پاکستان نےا س علاقے میں القاعدہ کی تنظیم منتشر کردی ہے اور اس کی مختلف کڑیوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ختم کردیا ہے۔ وہ اب مفرور ہے اور آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ کاروائیاں کرنے والی قوت کے طور پر ختم ہوچکی ہے۔ اب ہمیں اسے یکجا ہونے کا موقع دیۓ بغیر اس پر دباؤ برقرار رکھنا ہے۔ ميں پورے اعتماد کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں۔ مجھے اپنی فوج پر فخر ہے، جس کے افسروں اور جوانوں نے ملک کے دفاع کے لۓ ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے اور جیتی جاۓ گی۔
No user commented in " ان دی لائن آف فائر – 27 "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply