16 دسمبر 1971 کو مشرقي پاکستان ہم سے جدا ہوا اور ہم نے اسے 1974 ميں تسليم کرليا۔ اس کےبعد ہم بھول ہي گۓ کہ بنگلہ ديش کبھي پاکستان کا حصہ تھا۔ نہ کسي نے مڑ کر بچھڑے بھائيوں کي خبر لي اور نہ ہي پرانے زخم سينے کي کسي نے کوشش کي۔ اس کے بعد جوبھي حکمران آيا اس نے بھارت سے دوستي کي باتيں کيں اور يہ ياد نہ رکھا کہ بھارت نے ہي ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کۓ تھے۔ ہم بھارت ياترا پر تو تواتر سے جاتے رہے ليکن کسي نے بنگلہ ديش کا دورہ کرنے کي ہمت نہ دکھائي۔
اب موجودہ حکومت کي مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس حکومت نے دنيا جہان کے ملکوں کي سير کي ہے سواۓ بنگلہ ديش کے۔ ہم بھارت کے آگے گوڈے ٹيک بيٹھے ہيں، کشمير کے موقف سے ہٹ چکے ہيں،، ليکن بھارت ہے کہ اپني ہٹ دھرمي پرقائم ہے۔ نہ ہي اس نے ہماري تجويز کو قابلِ غور سمجھا اور نہ ہي مثبت جواب ديا۔ ہم جانتے ہيں کہ بھارت کے اب بنگلہ ديش کے ساتھ بھي دوستانہ تعلقات نہيں ہيں اور پھر بنگلہ ديش ايک ابھرتي ہوئي اکانومي ہے۔ مگر ہم نے اسے بالکل نظر انداز کيا ہوا ہے۔ ہميں سو فيصد يقين ہے کہ اگر ہم اپنے بچھڑے ہوۓ حصے کي طرف ايک قدم بڑھاتے تو وہ دو قدم بڑھاتا۔ مگر ہم تو غيروں کے ہاتھوں کٹھھ پتلي بن چکے ہيں اور غير کبھي نہيں چاہيں گے کہ مسلمان کہيں بھي طاقت پکڑيں۔ يہي وجہ ہے کہ مشرقي پاکستان کو بچھڑے پنتيس سال ہوچکے ہيں اور ہمارے تعلقات ميں بہتري بالکل نہيں آئي۔
سواۓ دوچار دانشوروں کے جو اس موقع پر اخبار ميں کالم لکھ ديں گے، کوئي بھي اس دکھ بھرے دن کو ياد نہيں کرے گا۔ نہ حکومت کي طرف سے کوئي تقريب ہوگي اور نہ اپوزيشن اس سانحے پر غوروفکر کرے گي۔ ہم ابھي تک ان پاکستانيوں کو بنگلہ ديش سے واپس نہيں لاسکے جنہوں نے بنگلہ ديش کا حصہ بننے سے انکار کرديا اور ابھي تک کيمپوں ميں کسمپرسي کے دن گزار رہے ہيں۔
ہم نے اس سانحے کو اسطرح بھلايا کہ اپني تاريخ سے ہي اسے خارج کرديا۔ نہ اس سانحے پر کوئي پي ايچ ڈي ہوئي اور نہ ہي اسے سکولوں کالجوں کے نصاب ميں شامل کيا گيا۔ چليں مان ليا کہ ہماري غلطيوں سے ملک ٹوٹا ليکن کيا ہميں ان غلطيوں کے ازالے کے بارے ميں نہيں سوچنا چاہۓ؟ کيا ہم دوبارہ بنگلہ ديش کيساتھ بھائيوں کي طرح نہيں رہ سکتے۔ جو معاہدے ہم بھارت کے ساتھ کررہے ہيں کيا وہ بنگلہ ديش کيساتھ نہيں کرسکتے؟ کرسکتے ہيں مگر نہيں کريں گے کيونکہ اس سے مسلمانوں ميں محبت اور يگانگت بڑھے گي جو ہمارے بديسي آقاؤں کو منطور نہيں ہے۔
پرويز صاحب کي کتاب ميں سارے ممالک کيساتھ تعلقات کا ذکر ہے بلکہ بھارت پر تفصيل سے لکھا گيا ہے مگر پرويز صاحب نے مشرقي پاکستان کي عليحدگي کا ذکر تو کيا مگر ہم دوبارہ کيسے اچھے بھائي بن سکتے ہيں اس بارے ميں چپ رہے ہيں۔
اے موجودہ حکمرانوکم از کم تم تو ہوش کے ناخن لو اور بنگلہ ديش کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کي تدبير کرو۔ بہاريوں کو وطن واپس لانے کي فکر کرو اور اس سانحے سے سبق سيکھو۔
ہماري موجودہ حکومت اب بھي بلوچستان کے مسٔلے پر ملک کو اسي سمت ميں لے کر جارہي ہے جس طرف ايوب خان اور اس سے پہلے سربراہان لے کر گۓ تھے اور ملک دو ٹکڑے ہوگيا تھا۔
ہماری 1971 کی اس شکست پر جس میں ہم نے آدھا ملک گنوا دیا، عدیم ہاشمی نے ایک خوبصورت شعر کہا ہے۔
ہم ایک لاکھ تھے ہم نے تو سر جھکا ڈالے
حسین تیرے بہتر سروں پہ لاکھ سلام
2 users commented in " آدھا ملک گنوا کر ہم پھر سو گۓ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکسی کو چم پيارا ہوتا ہے اور کسی کو من ۔ ہمارے حکمران صرف اپنے من کو راضی رکھتے ہيں اور ان کے پيروکار بھی ہمارے ملک ميں بہت ہيں ۔
بھکاری ہمیشہ اپنے سے بڑے رتبے والوں سے معاہدے کرتے ہیں کہ کچھ تو ملے بنگلہ دیش سے معاہدوں کا مطلب ہے جیب سے جانا اور ملنا ان لوگوں کا جنکوں نہ بنگلہ دیش قبول کرتا ہے نہ پاکستانی حکومت اور وہ بیچارے بارڈر پر سڑ رہے ہیں۔
Leave A Reply