جنگ اخبار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں بلیوں کیلیے تیار کردہ جوس انسانوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ بلیوں کی مضرصحت خوراک سرعام بیچی جا رہی ہے اور حکمرانوں کو خبر تک نہیں۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کاروبار میں صاحب اقتدار بھی شامل ہوں گے۔
اب معلوم ہوا کہ ہم پاکستانیوں کی عادتیں بلیوں جیسی کیوں ہوتی جا رہی ہیں۔
اس مہنگائی اور دہشت گردی نے ہمارا جینا محال کر دیا ہے مگر ہم ہیں کہ بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔
سیانی بلی کھمبا نوچے گی تو پھر لوڈشیڈنگ تو کرنی ہی پڑے گی تا کہ بلی کو کچھ دیر کیلیے آرام مل جائے۔
بلی کے جب پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے بچے پاؤں کے نیچے رکھ لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں پر جب بھی مصیبت آتی ہے وہ عوام کو ڈھال بنا لیتے ہیں۔
بلی نے شیر کو پڑھایا اور شیر بلی کو کھانے آیا کے مصداق عوام حکمرانوں کو ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور وہی حکمران پھر عوام کی زندگی وبال بنا دیتے ہیں۔
امید ہے حکمران عوام کی نہیں بلکہ صرف اپنی بھلائی کیلیے بلیوں کا جوس بیچنا بند کر دیں گے کیونکہ اگر بلیوں کی تمام عادات انسانوں میں منتقل ہو گئیں تو پھر ان کی حکمرانی خطرے میں پڑ جائے گی۔ وہ جانتے ہیں بلی کو جب بہت زیادہ تنگ کیا جاتا ہے تو وہ پھر سیدھی چہرے پر وار کرتی ہے۔
5 users commented in " انسان اور بلی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبس کردیں افضل صاحب،صرف حکمرانوں کو کوسنے سے کچھ نہ ہوگا،کیابیچنے والوں کو حکومت نے مجبور کیا تھاکہ یہ جوس دکان پر رکھ کر بیچیں؟؟؟؟؟؟
عبداللہ صاحب
اگر لوگ قانون کے اتنے پابند ہوتے تو پھر پولیس اور عدالتیں دنیا میں نہ ہوتیں۔ انتظامیہ اور مقننہ کا کام ہی عوام کو غلط راہ پر چلنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اگر یہ کام بھی حکومتیں نہیں کر سکتیں تو پھر ان کا فائدہ کیا ہے۔
آپ کے پہلے جملے سے تو میں سمجھا کہ بلیوں کا جوس نکال کر انسانوں کو پیش کیا جارہا ہے
شکر ہے کہ ایسی کوئی صورتحال نہیں
لہذا کسی ٹینشن میں پڑنے کی ضورت نہیں
سب اچھا ہے
بات اتنی چھوٹی نہيں ہے ۔ يہ ليبل پاکستان ميں نہيں لگائے گئے بلکہ يہ سب کچھ اسی طرح درآمد ہوا ہے ۔ سنا گيا ہے کہ کسی ملک کا ايک باشندہ يا ادارہ اس انسان دشمن کھيل سے ارب پتی بن گيا ہے ۔ بغير تصديق کے ميں مُلک کا نام نہيں لکھنا چاہتا ۔ اتنا لکھ ديتا ہوں کہ يہ ملک نہ بھارت ہے نہ پاکستان نہ افغانستان ہے نہ کوئی عرب مُلک
آپ نے محاورے دلچسپ پيش کئيے
Leave A Reply