ہمارے گھر کے مسائل ہوں، خاندان کے يا پاکستان کے، ہم نے ہميشہ ہر بات ميں مثبت پہلو ہي تلاش کرنے کي کوشش کي ہے اور اس قول کو پلے باندھا ہوا ہے کہ ہميشہ اپنے سے نيچے والوں کي طرف ديکھو۔ يہ حقيقت ہے کہ اگر ہم اپنے سے اوپر والوں کي طرف ديکھيں گے تو کبھي خوش نہيں رہ پائيں گے۔
ليکن پتہ نہيں کبھي کبھي ہم پر ايسا دورہ پڑتا ہے کہ سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہيں اور ہم مايوسي کي اتھاہ گہرائيوں ميں غوتے کھانے لگتے ہيں۔ ايک طرف پاکستان کي سولہ کروڑ آبادي کے شب و روز ديکھ کر اگر مطمٔن ہوتے ہيں تو دوسرے طرف حکومت کي عوام کيساتھ لاتعلقي چين نہيں لينے ديتي۔ ہميں يہ بھي يقين ہے کہ پاکستاني اتنے گئے گزرے بھي نہيں کہ اپنے آپ کا خیال نہ رکھ سکيں اور ترقي نہ کرسکيں مگر دوسري طرف ميڈيا پر قتل وغارت، لوٹ کھسوٹ، حکومت کي بے حسي، عوام کي بيچارگي ديکھ ديکھ کر دل کڑہنا شروع ہوجاتا ہے۔ کھيل کا ميدان ہو يا کاروبا، صنعت ہو يا ذراعت، گھر ہوں يا بازار، ہر طرف بے ايماني اور دھوکہ بازي ہي نظر آتي ہے۔
سن رہے ہيں کہ پاکستان اب پہلے جيسا نہيں رہا۔ اب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بيٹھ کر نوکري کرنے والے کم ہوتے جارہے ہيں اور سب چھوٹے بڑے اپنے ہنر سے اپني ترقي کي راہوں پر گامزن ہيں۔ اب وہي پرائيويٹ سيکٹر ميں نوکري کرسکتا ہے جو کچھ کرکے دکھاتا ہے۔ حتيٰ کہ سرکاري اداروں کے بھي وطيرے بدل رہے ہيں اور لوگوں ميں شعور پہلے سے زيادہ رفتار سے بيدار ہورہا ہے۔ اس ترقي کو ديکھ کر دل بہت خوش ہوتا ہے۔ مگر جونہي حکومتي اقدامات کي طرف نظر جاتي ہے يعني حکومت کي خود غرضي کي مثاليں ديکھتے ہيں تو ساري خوشي غارت ہوجاتي ہے۔ جب سنتے ہيں کہ خواتين کے حقوق کے بل کے پاس ہونے کے باوجود خواتين کا استحصال پہلے کي طرح جاري ہے۔ اس کے باوجود کہ حکومت نے روشن خيالي کے دکھاوے کيلۓ وزارتِ خارجہ کي ترجمان ايک مااڈرن خاتون رکھي ہوئي ہے عورتوں کي بھلائي کيلۓ جو حکومت کو کرنا چاہئے تھا وہ نہيں کيا۔ اب بھي پاکستاني معاشرے ميں اگر کوئي سب سے زيادہ مظلوم ہے تو وہ عورت ہے۔
حکومت نے پوليس کے نظام کو درست کرنے کي کوشش کي مگر جرائم پر قابو نہيں پاسکي۔ حکومت نے بلدياتي نظام متعارف کروايا مگر جمہوريت عوام تک پہنچانے سے قاصر رہي۔ حکومت نے اسمبليوں کي مدت پوري ہونے کے دعوے تو کئے مگر قوانين ميں تبديلي اسمبلي کي بجاۓ آرڈينينسوں سے کرنے کو ترجيح دي۔ حکومت نے 2007 تک صاف پاني ہر شہر اور گاؤں تک پہنچانے کا چيلنج قبول کيا مگر چند جگہوں پر دکھاوے کے فلٹريشن پلانٹ لگا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئي۔ حکومت نے تعليم پر توجہ دي خاص کر حکومت پنجاب نے تعليم کو عام کرنے ميں اب تک دلي کوشش کي ہے مگر پاکستاني قوم کو سو فيصد تعليم يافتہ بنانے کيلۓ جو حکومت کو کرنا چاہۓ تھا وہ نہيں کيا۔
اوپر بيان کردہ مسائل اور اس طرح کي دوسري باتوں پر جل جل کر اپني تو مزاح کي حس ہي مرگئي ہے۔ ايک وقت تھا يار دوستوں ميں بيٹھ کر ہنسي مزاح کي باتيں ہوتي تھيں اب سنجيدہ باتوں کے گھيرے سے نکنلے کيلۓ سپيشل التجا کرکے دوچار باتيں دل کو خوش کرنے والي سني اور سنائي جاتي ہيں۔
پتہ نہيں کيوں ہم اپنے آپ کو مايوسي کي طرف گرتا ہوا ديکھ رہے ہيں اور اتنے بے بس نظر آرہے ہيں کہ مرض جانتے ہوئے بھي اس کا علاج نہيں کررہے۔ ہماري ہر پوسٹ ديکھں دکھوں اور غموں کا نقضہ پيش کررہي ہوتي ہے۔ کبھي اس موڈ کو بدلنے کي کوشش بھي کي تو ايک آدھ دن سے زيادہ خوش نہيں رہ سکے۔ ہماري ہروقت يہي کوشش ہوتي ہے کہ خوش رہيں اور خوشياں بانٹيں مگر پتہ نہيں کيوں ہم اس کوشش ميں بار بار ناکام ہو رہے ہيں اور گھر ميں قيد ہوکر رہ گئے ہيں۔ کيوں؟ کيوں؟ اور کيوں؟
8 users commented in " کيوں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackویسے تو کیوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا مگر یہ حقیقت ہے کے بطور معاشرہ ہم شاید تنزلی کا سفر کر رہے ہیں گو کہ کئی چیزوں میں بہتری آئی ہے جیسا کے آپ نے بیان کیا ہے مگر مجموعی طور پر معاشرتی قدریں متاثر ہوئی ہیں۔ تحمل، برداشت اور صبر جیسی چیزیں تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں تعلیمی نظام آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کر رہا ہے جس سے معاشرے میں ایک بگاڑ کی صورت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ کرپشن میں ہم نے ان حدوں کو چھو لیا ہے جہاں اب یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا ہے کہ کیا اس چیز کو قانون شکل دی جاسکتی ہے یا نہیں ہم پہلے بھی کئی غیر قانونی چیزون کو قانونی شکل دے چکے ہیں جیسے کنڈے کی بجلی، قبضے کی زمینوں کو لیز اور فوجی حکومتوں کو نظر یہ ضرورت۔ جب سب سے بالائی سطح پر غیر قانونی کام نظر یہ ضرورت کے تحت کر لیا جائے تو پھر ہر جرم نظریہ ضرورت کے تحت جائز ہو جاتا ہے۔ موبائل چوری، ڈکیتی، ٹریفک لائٹ کی بے حرمتی اور کئی ایسی چیزیں۔ ہمارا اہم مسئلہ قانون نہیں اس پر عمل درآمد ہے اور کیونکہ نظریہ ضرورت کے تحت سب جائز ہے چناچہ عورت کے حقوق ہوں یا پولیس کا نظام سب قانون سے ماورا ہی چل رہا ہے اور یہ نظریہ ضرورت لے اڑا آپ کا اور میرا سکون کیونکہ انسان فطری طور پر بگاڑ نہیں چاہتا
Jinab Meray Pakistan sahib aap saaree dunya ko to naseehatain kartay rehtay hain, kabhee khud bhee koi achaa kamm kia hai ya siraf molvee kee tra fatway bazee kurtay hain? Dosroon pay criticise kurnay say ziada asaan kam koi nahain aur jo khud khuch achaa nahain kurtay wo doosroon ko bura keh kay time pass kurtay hain. Zara batayee kay upnay mohallay, apnay shehar, apnay Pakistan main zaatee tor pay aap nay khud konsay uchaay kam kiay hain?
میرا خیال ہے کہ ان باتوں کا ادراک اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بڑا کام ہے۔ سچائی کو پہچاننا اور اس پر لکھنا بھی اتنا آسان نہیں جتنا محترم می صاحب یا صاحبہ نے سمجھ رکھا ہے۔ افضل صاحب نے کم از کم ایک فرد جو کے میں ہوں اس تک حقائق پہنچائے اور ایک فورم فراہم کیا جہاں میں کچھ اپنے خیالات بھی شیر کر سکتا ہوں ہر عمل سے پہلے ایک سیر حاصل گفتگو، مقاصد کا تعین اور مسائل کا ادراک ضروری ہوتا ہے۔ اور میرا خیال ہے افضل صاحب یہ کام بہت احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیںکے اگر افضل صاحب نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ اسکا چرچا کریں ؟ یا اسکی فہرست بنا کر تمام قارئین کو مطلع کریں؟ویسے بھی ایمان کے کم تر درجے میں برائی کو برائی جاننا بھی کافی ہے۔۔ اب جناب می یہ بتائیںکے کیا آپ نے اس درجہ میںبھی کچھ کوشش کی ؟
می صاحب
آپ کے اس سوال کا جواب واقعی ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم نے اب تک کیا کیا ہے۔ ہم نے تو آج جو کرنا تھا وہ نہیں کیا۔ ہماری کوشش ہے کہ خدا ہمیںتوفیق دے اور ہم وہ سارے کام اپنی زندگی میںکر جائیں جن کی حسرت دل میںہے۔
آپ کی جذبات کی ہم قدر کرتے ہیں اور آپ کی تحریر میں خلوص کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر آپ جیسے لوگ پاکستان میں رہتے ہیںتو ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ آپ اسی طرح ہم پر تنقید کرتے رہیں تاکہ ہم اپنے مقصد سے ہٹنے نہ پائیں۔
آپ کے تبصروں کا شکریہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کا بگاڑ ایک آدمی کی وجہ سے نہیں ہوتا لیکن قرینِ قیاس یہي ہے کہ بااختیار اگر بگاڑ پیدا کرے تو بے اختیار کی اچھائی کی کوشش رائیگاں جاتی ہے ۔
مجھے اُن لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو اجتماعی مسائل بیان کرنے والے کو خود اُس پر تنقید کر کے تنقید سے روک رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
Ajmal sahib agar siraf tanqeed karnay say koi masla hal hota to quaid e azam bhee siraf hinduoon pay tanqeed kur kay Pakistan bana laitay.
جناب می صاحب بلاگز صرف تنقید نہیں ہوتے، یہ ایک جگہ ہے جہاں بلاگز اور انکے تبصروںکی صورت میں چیزوںکو جانچا جاتا ہے ان پر علمی یا تنقیدی بحث کی جاتی ہے اور اسطرح رائے عامہ وجود میں آتی ہے۔ انقلاب لانے کے لیے انقلابی عمل کو تہذیب بنایا جاتا ہے نہ کے ہر آدمی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر یا بندوق لے کر نکل پڑتا ہے۔ ہر آدمی عبدالستار ایدھی نہیں بن سکتا نہ ہی بننا چاہیے بلکہ ایک آدمی نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے تو دسروں کا رول مختلف ہوگا کوئی مالی امداد کرے، کوئی مشقتی امداد کرے اور کوئی اس سلسلے میں لوگوںکو Motivate کرے۔ ہر شخص اگر ایک ایمبولینس خرید لے تو بہتر کام نہیںکرسکتا ۔ بلاگرز کا رول رائے عامہ ہموار کرنا ہے مثبت تنقید سے لوگوں کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ آتا ہے ورنہ معاشرہ برین واشنگ کا شکار ہوجاتا ہے۔
می صاحب
چلیں آپ ہی پیل کیجئے اور پہلے مسئلہ بیان کیجئے اور پھر اس کا حل تجویز کیجئے۔ اس کے بعد ہم ملکر سوچیں گے کہ کونسا بہترین طریقہ ہے باعمل ہونے کا۔
Leave A Reply