جب سے گراؤنڈ زیرو کے قریب مسجد پروجیکٹ کی بحث چھڑی ہے امریکہ میں مسلمانوں پر نسلی حملے ہونے لگے ہیں۔ پہلے نیویارک میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو گورے نے پیٹا اور پھر کوئی کوین کی مسجد کی صف پر پیشاب کر کے بھاگ گیا۔ اسی ہفتے ہماری مسجد کے باہر کھڑے چھوٹے بچوں پر کارسوار گورے فقرے کس کر بھاگ گئے۔
ابھی اس نفرت کی آگ کو امریکی حکومت اور دوسری مسلمان تنظیمیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر ہی رہی تھیں کہ ایک چرچ نے نو گیارہ کی سالگرہ پر “قرآن جلاؤ” دن منانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے سب جانتے ہیں فیس بک پر ایک امریکی “ڈرا محمد ڈے” کا اعلان کر کے عیسائی اور اسلام دونوں مذاہب میں چپقلش کا باعث بن چکا ہے۔
یقین نہیں آ رہا ہے کہ یہ سب دنیا کے سپر پاور اور انتہائی ترقی یافتہ ملک میں ہو رہا ہے۔ مانا کہ سب یہاں پر آزاد ہیں مگر مادر پدر آزاد نہیں ہونے چاہییں۔ جہاں معاشرے کو کنٹرول کرنے کیلیے بہت سارے قوانیں موجود ہیں وہاں نفرت کا بیچ بونے والے کیلیے بھی لازمی قانون موجود ہو گا۔ کیونکہ ایسی کاروائیاں ملک میں نسلی اور مذہبی فساد ہی برپا کر سکتی ہیں اور کچھ نہیں۔
اس سے پہلے کہ مسلم ممالک میں اب دوبارہ احتجاج شروع ہو جائے امریکی حکومت کو اس چرچ کیخلاف ایسی ہی کاروائی کرنی چاہیے جیسی نوے کی دہائی میں ڈیوڈ کریش کیخلاف کی تھی۔ اس نفرت کو اگر یہاں پر ختم نہ کیا گیا تو پھر امریکہ میں مسلمانوں کا جینا بہت مشکل ہو جائے گا۔
13 users commented in " ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے شدت پسند "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب آپ کے خیال میں “قران جلاؤ“ والے ریورین یہاں پڑھے لکھے مانے جاتے ہیں؟ یا یہاں کے طالبان کے متبادل؟ رش لمبا، ہینیٹی اور گلین بیک جو اس تمام معاملے کو ہوا دے رہے ہیں وہ پڑھے لکھے مانے جاتے ہیں؟
سچ کہا
مسلمانوں کو اچھوت قرار دینے کی کاروائی کا آغاز بش سینئر سے شروع ہوا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کی انتاء بش جونئیر نے کی۔ چونکہ دونوں صاحبان نے امریکن ریاست کا کندھا استعمال کیا۔ اسلئیے امریکہ کا یہ فرض بنتا ہے کے وہ اس نفرت کی سلگتی آگ کو ٹھندا کرے۔ اور مجرم لوگوں کو پولیس گرفتار کرے۔ تانکہ امریکی مسلمانوں میں احساس تحفظ پیدا ہو۔
اگر امریکن کرتا دھرتا محض اس بناء پہ اس سارے سلسلے سے الگ ہوجاتے ہیں کہ یہ بھی آزادی اظہار رائے کا ایک طریقہ ہے جس کا جو دل چاہے کرے تو پھر امریکہ کے پاس دوسرے ممالک میں ایسے اقدامات کے جواب میں آنے والے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے سے امریکہ کی متاثر ساکھ مذید خراب ہوگی۔
ایسے واقعات پہ آزادی اظہار رائے کو بنیاد بنا کر اسے لوگوں کے مذھبی جزبات کے مجروع ہونے پہ ترجیج دینا ہماری رائے میں درست نہیں ۔کیونکہ جسطرح امریکہ کو ہر قسم کی دل آزاری پہ محض آزادی اظہار رائے عزیز ہے تو اپنے اپنے نظریات کو جواز اور بنیاد بنا کر ہر قوم اپنے ملک میں من مانی کرنے میں آزاد ہوگی ۔ امریکہ کے پاس وہ اخلاقی جواز ختم ہوجائے گا جس کی بنیاد پہ جن شدت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔ وہ بھی امریکہ کی آزادی اظہار رائے کی طرح اپنے اصولوں کو ۔۔عزیز۔۔ قرار دیتے ہیں۔
اسلئیے یہ انتائی ضروری ہے کہ امریکہ اپنے مسلمان شہریوں کے حقوق جن میں انکے مذھبی جذبات بھی شامل ہیں انکی دوسرے عیسائی اور یہودی امریکنوں کے حقوق کی طرح نہ صرف حفاظت کرے ۔ بلکہ انھیں احساس تحفط فراہم کرتے ہوئے دل آزاری کرانے والوں اور بین المذاھب نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کرے۔ اس سے مسلم دنیا میں امریکہ کا وقار بلند اور ساکھ بحال ہوگی۔
جاہلوں کی کمی نہیں غالب ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں!
اور دنیا کے ہر ملک میں ملتے ہیں!!!!!!!!!
اگر پاکستان میں کوئی کسی جگہ چرچ بنائے – کیا یہ ممکن ہے –
شیپر صاحب
آپ کا سوال تو اوپر سے ہی گزر گیا۔ پاکستان میں چرچ موجود ہیں اور نئے بن بھی رہے ہوںگے۔ اسی طرح آپ جانتے ہیں امریکہ میںبھی مساجد بن رہی ہیں۔ یہاں مسئلہ قرآن کو جلانے کا ہے۔ اس پر تبصرہ کیجیے۔
شیپر صاحب کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ نہ صرف بڑے شہروں میں بلکہ چھوٹے قصبوں میں بھی چرچ وغیرہ بنانے کی مکمل آزادی ہے۔ کھاریاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کھاریاں سے گلیانہ روڈ پہ جائیں تو بائیں ہاتھ گلیانہ روڈ پہ بر لب سڑک جدید ساخت کا ایک چرچ حال میں تعمیر ہوا ہے۔
آپ کے ذھن میں پاکستان میں مذھبی آزادی کے حوالے سے پتہ نہیں کونسا تصور ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہو کہ مغرب کے بہت سے ممالک سے بڑھ کر پاکستان میں غیر مسلموں کو اپنی عبادگاہیں بنانے کی اجازت ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان میںجن مذاھب کے ماننے والے مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے عبادگاہوں کی مناسب دیکھ بھال نہ کر سکیں۔ پاکستان کی اقلیتی امور کی وزارت اُن مذاھب کی عبادگاہوں کے لئیے فنڈ مہیاء کرتی ہے۔
“آپ کے ذھن میں پاکستان میں مذھبی آزادی کے حوالے سے پتہ نہیں کونسا تصور ہے۔“
Muslims Burn Christians Alive In Pakistan
http://www.youtube.com/watch?v=hSrpf5vRyuM
کچھ لوگ اپنے مذھبی فریضے یعنی ایک ۔۔مشن۔۔ کے تحت کوئی ایسا موقع ضائع نہیں جانے دیتے جس سے پاکستانی معاشرے اور خاص کر مسلمانوں کا منفی تصور سامنے آئے ۔جن میں سے کچھ انٹرنیٹ پہ تاڑتے رہتے ہیں کہ بات خواہ ۔۔بدو ملہی۔۔ کے روڑوں کی ہی کیوں نہ ہو وہ مسلمانوں کو بیچ میں کینھچ لانا اپنا مذھبی فریضہ سمجھ کر اسے ادا کرتے ہیں۔
موصوف اس لنک سے پتہ نہیں کیا ثابت کرنا چاہتے ۔ اگر لنک لنک کھیلنا ہے تو میں عیسائیوں کی بدمعاشی کے درجنوں لنک مہیاء کر سکتا ہوں ۔ مگر ایک مسلمان ہونے کے ناطے ایسا نہیں کروؤنگا کہ ایسا کرنے سے نٖرت پڑھے گی کم نہیں ہوگی جس سے فساد خلق خدا کا اندیشہ ہوگا۔ البتہ ان صاحب نے جو لنک دیا ہے ، اسے آدھا سچ اور آدھا جھوٹ میں سے اپنے مطلب کا مواد منتخب کرنا کہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ مذکورہ جگہ عیسائیوں کا اسٹر ونگ ہولڈہونے کی وجہ سے۔ وہاں عیسائیوں نے قرآن کریم کے بے حرمتی کی اور جب بستی کے مسکین مسلمانوں نے احتجاج کیا اور مجرموں کو ایسے گھناؤنے اقدام سے باز رکھنے کا مطالبہ کیا تو عیسائیوں نے انھیں وہاں کے کزور مسلمانوں کو مارا پیٹا اور بدمعاشی اور طاقت کے زور پہ مسلمانوں پہ رات بھر فائرنگ کرتے ہوئے انھیں حراساں کیا۔ یہ سلسلہ تین دنوں تک متواتر چلتا رہا حتیٰ کے بات سارے علاقے میں پھیل گئی ۔ جس پہ تین دن بعد علاقے کے مسلمان بھی مسلح ہو کر پہنچ گئے اور مورچہ بند ہوگئے۔ متواتر آٹھ گھنٹے کے لگ بھگ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اور عیسائی فریق کے پاس ایمونیشن ختم ہونے پہ ۔ بپھرے ہوئے اور مشتعل ہجوم نے انے اسٹرانگ ہولڈ پہ ہلہ بول دیا جس کے نتیجے میں وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ اور جس کی پاکستان کی حکومت اور مسلمانن عوام نے مذمت کی۔ اور ہم بھی مذمت کرتے ہیں ۔ مگر واضح ہو کہ عیسائیوں نے شرارت میں پہل کی اور اور اسلحے کے زور پہ متواتر تین دن تک مسلمانوں کو ہراساں کرتے رہے۔
بھپرے ہوئے ہجوم کا ایک واقعہ پچھلے دنوں سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے تشدد سے اموات کا ہوا جس کی پاکستان بھر نے مذمت کی ہے۔ جبکہ دونوں فریق اس میں مسلمان تھے ۔ اب کیا اسے بھی مذھبی رنگ دیا جائے؟۔ ہماری رائے اسطرح کے معاملات میں جن کا آپ نے لنک دیا ہے اس کا تعلق مذھبی آزادی سے زیادہ معاشرے میں رچی فرسٹریشن سے ہے ۔ جو عوام کے بپھرنے پہ خوفناک تشدد کا رُوپ دھار لیتی ہے۔ اور اسمیں پاکستان کے عیسائی بھی شامل ہیں۔
نیز آپ لوگ ہمیشہ وہ پہلو اجاگر کرتے ہیں جن سے پاکستان یا مسلمانوں کا منفی تاثر ابھرے ۔ پاکستان میں مسلمان رعایا کے ساتھ بھی غلط سلوک ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان میں عیسائیوں کے ساتھ عام مسلمان کی طرف سے بہت میانہ روای برتی جاتی ہے۔ پاکستان حکومت کرسمئس پہ عام تعطیل کرتی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستانی مسلمان عوام اپنے عیسائی ہمسائیوں اور شہریوں کو انکے تہواروں پہ مبارکباد دیتے ہیں ۔ اور انھیں ان کے کاموں سے چھٹی دیتے ہیں ۔ وغیرہ ۔ تو کبھی کبھار آپ لوگ ان باتوں پہ بھی غور کر لیا کریں ۔ نہ کہ قرآن کریم کی بے حرمتی اور مسکین مسلمانوں کو متواتر فائرنگ سے ہراساں کرنے پہ متشدد اور بپھرے ہوئے ہجوم کے افسوسناک اور قابل مذمت ردَ عمل کو مثال بنا کر ہر جگہ پیش کرتے رہنا۔آپ کے ساتھ پاکستان میں کچھ اچھی باتیں بھی ہوا کرتی ہونگی کبھی انکا بھی ذکر خیر کر لیا کریں۔ اس سے مفاہمت بڑھتی ہے اور عدم تشدد کو رواج ملتا ہے۔ ہر وقت شاکی رہنا بھی احسن عمل نہیں۔
جو اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے کچھ نہ جانتے ہوئے سب کچھ جانتے ہيں اللہ انہيں چشم بينا عطا فرمائے ۔ پاکستان ميں ہر شہر اور ہر قصبے ميں جہاں عيسائيوں کی کچھ آبادی ہے وہاں گرجے بنائے گئے ہيں اور ان ميں کبھی رکاوٹ نہيں ڈالی گئی
آپ کا مضمون بہت احتیاط سے پڑھنے کے بعد ميں يہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امريکہ کے بارے میں آپ کو بہت سی غلط فہمياں ہيں۔ حاص طور پر اس بات پر ميں بلکل اتفاق نہيں کرتا ہوں کہ “اس نفرت کو اگر یہاں پر ختم نہ کیا گیا تو پھر امریکہ میں مسلمانوں کا جینا بہت مشکل ہو جائے گا”۔
سب سے پہلے ميں آپ کو اور تمام با عزت دوستوں کو يہ يقين دلانا چاہتا ہوں کہ گراؤنڈ زیرو کی مسجد ايک منفرد مقدمہ ہے یقینا گراؤنڈ زیرو کے قربت کی وجہ سے مجوزہ اسلامی مرکز کی جگہ پر تنازع ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسامانوں کو حکومت يا کسی اور گروہ کی مداخلت کے بغير مساجد تعمير کرنے اور مذہبی عبادات اپنی خواہشات کے مطابق کرنے کی اجازت ہے۔ عام طورامريکہ کے لوگ اور ان کی حکومت اسلام اور مسلمانوں کی بڑی عزت و احترام کرتے ہيں۔
اب مجھے امريکہ ميں نفرت کے جرائم کے بارے ميں جواب دينے کی اجازت ديں۔ امريکہ نے اس مسلے کو حل کرنے کے ليے سخت اقدامات کيے ہيں۔ گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی محکمہ انصاف کے سول حقوق کے ڈویژن نے مسلمانوں، سکھوں، عربوں، جنوب ایشیائی نژاد اور ايسے لوگ جو ان قوموں کے ساتھ منسلک سمجھے جاتے ہوں کے حلاف رونما ہونے والے امتیازی جرائم جيسے واقعات کے حلاف قانونی کاروائی کو اولين ترجيح دی ہے۔
ابھی تک کل 48 مدعا علیہان کے حلاف وفاقی الزامات لاۓ گے جن میں سے 44 کو سزا دی گئ ۔ دریں اثناء سول حقوق ڈویژن سے تعلق رکھنے والے وکيلوں نے 150 غیر وفاقی مجرمانہ مقدمات چلانے میں رياستی اور مقامی وکلاء کی بھر پور مدد کی۔
جن میں سے کچھ مقدمات مندرجہ زيل ہیں،
تين افراد، جونیتھن ایڈورڈ سٹون، مائیکل کورے گولڈ ن اور ایرک ایئن بیکر کو مذہبی جائیداد کی توڑ پھوڑ اور اسلامک مرکز کو دھماکہ خیز مواد استعمال کرکے جلانے کے جرم ميں قصور وار ٹھہرايا گیا۔ 2009 ميں گولڈن کو چودہ اور بيکر کو پندرہ سال سزا سنائ گئ۔ اور 22 اپریل 2010 ء کو سٹون کو اس جرم پر چھ سال سے زائد عرصے کے ليے جيل بيجھا گيا۔
13 ستمبر 2001 ء ميں جيمز ہيرک کو ايک پاکستکنی امريکن کے ريسٹورنٹ کی ديوار پر تيل ڈالنے اور عمارت کو آگ لگا کر تباہ کرنے کے جرم ميں قصور وار پايا اور 7 جنوری 2002ء کو 51 ماہ سے زائد سزا دی گئ۔ امریکہ میں, جہاں قانون کی بالادستی ہمارے قانونی نظام کا ایک بڑا حصہ ہےجو کوئ بھی جرم کا ارتکاب کرے چاہے جرم کسی بھی نوعیت کا ہو، اسے فوری طور پربہت شفاف طریقے سے انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ کو شايد معلوم ہو کہ میئر مائیکل بلوم برگ نے ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ہونے مبینہ نفرت کےجرم کی مذمت کی ہے۔ اس فرد کو اقدام قتل، نفرتی جرم، اور بہت سے ايسے الزامات کا سامنا ہے۔
زوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
Leave A Reply