جب سے جنرل پرویز صاحب کی حکومت آئی ان کے کارناموں کی فہرست میں دہشت گردی کے بعد صحاف کی آزادی سر فہرست رہی ہے اور ان کی حکومت کے ہر وزیر نے صحافت کی آزادی کا کریڈٹ لینے کی کوشش ہر پلیٹ فارم پر کی ہے۔ ہم اس کے جواب میں پہلے کئی بار لکھ چکے ہیں کہ یہ صحافت آزاد تب تک ہی ہے جب تک فوجی حکوت کیلیے خطرناک نہیں ہے۔ جس دن حکومت کو صحافی برادری اور آزاد میڈیا سے خطرہ محسوس ہوا اس دن ہم حکومت کے اس دعوے کو پرکھیں گے۔
صحافت کی آزادی کا ڈھونڈرا اس قدر پیٹا گیا کہ جنرل صدر پرویز صاحب نے اپنی کتاب “سب سے پہلے پاکستان” میں ایک صحافی کی نواز حکومت کے دور میں گرفتاری کی نہ صرف مزمت کی بلکہ اس کی رہائی کا کریڈٹ بھی لیا۔
آج جب حکومت نے دیکھا کہ جیو ٹی وی حکومت کے سیاہ کارناموں کو براہ راست دکھا رہا ہے تو اس نے اس کی نشریات کو زبردستی بند کرنے کیلیے اس کے دفتر پر دھاوا بول کر اپنے آزاد میڈیا کے کریڈٹ کا بیڑہ غرق کرلیا۔ حکومت اس سے پہلے اندرون خانہ جیو کیساتھ مک مکا کرنے کی کوشش کرچکی تھی۔ ایک دن قبل جیو کی نشریات وقتی طور پر روکی گئیں۔ پھر کامران کے شو پر پابندی لگائی اور آج جب پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیلوں کی بمباری جیو نے براہ راست دکھائی تو حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
حکومت کی اس غلطی پر سیاستدانوں کو بھی اپنی دکان چمکانے کا موقع مل گیا اور جو لوگ آج کے احتجاج کا حصہ نہیں تھے انہیں بھی جیو پر حملے کی مزمت کرنی پڑی۔
اتنے بڑے سانخے کو حکومت ہضم نہ کرسکی اور سوائے معافی مانگنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ صدر مشرف جو میڈیا کی پہلے کئی دفعہ خبر لے چکے ہیں، انہیں بذات خود حامد میر سے معافی مانگنی پڑی۔ وزیر اطلاعات جو جیو پر حملے کے وقت موجود تھے بےبس دکھائی دیے اور انہوں نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ جیو کے نمائندے کی گرفتاری، حامد میر کے ساتھ زیادتی، جیو کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی یہ سب حرکات حکومت کی پاور کا نہیں بلکہ اس کے اوچھے پن کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ درانی صاحب وزیر اطلاعات، جنرل صدر مشرف اور دوسرے حکومتی ارکان اس واقعے کی مذمت کررہے ہیں مگر یہ کوئی بتانے کی جرات نہیں کررہا کہ اس حملے کا حکم کس نے دیا۔ پرویز الہی صاحب نے اس ذمہ داری سے یہ کہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے کہ پولیس بیشک پنجاب کی ہے مگر تھی وفاقی حکومت کے کنڑول میں۔ جنرل صدر پرویز مشرف نے چند گھنٹوں میں ذمہ دار لوگوں کو پکڑنے کا وعدہ کیا ہے۔ اب دیکھیں کون قربانی کا بکرہ بنتا ہے، درانی، شیرپاؤ یا کوئی اور۔
جس نے بھی حکومت کو اس قسم کا مشورہ دیا وہ بنیاد پرستوں کی طرح جدید دنیا کا باسی نہیں لگتا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اب دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور اب تم زبردستی خبر کو پھیلنے سے نہیں روک سکتے۔ لوگوں کے پاس ویڈیو کیمرے ان کے موبائل فونوں میں فٹ ہیں وہ انہیں استعمال کرکے پولیس کی زیادتی کو انٹرنیٹ پر منٹوں میں ڈال سکتے ہیں۔ اب جس آزاد میڈیا کا کریڈٹ حکومت نے لیا ہے اسے ہضم کرنے کیلیے بھی حکومت کواپنا جگر بڑا کرنا ہوگا۔
اب بھی وقت ہے حکومت آج کی زیادتیوں کے ذمہ داروں کو حکومت سے نکالے اور متاثرین سے مذاکرات شروع کردے۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تحریکیں انہی جیسے واقعات سے زور پکڑتی ہیں۔ یہ نہ ہو تحریک عوامی شکل اختیار کرجائے اور پھر حکومت کے پاس پسپائی کا وقت بھی نہ بچے۔
ہمارے بلاگ پرتبصرہ نگار سارے دوست اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کو اس نازک دور میں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور حالات کو بگڑنے سے پہلے کچھ عملی اقدامات کرکے جمہوریت بحال کردینی چاہیے۔ ہمیں امید ہے جنرل صدر پرویز صاحب اپنے پیش رو جنرل ایوب کی طرح اس دفعہ حکومت کسی اور جنرل کے حوالے نہیں کریں گے بلکہ آزاد انتخابات کرانے کے بعد حکومت عوامی نمائندوں کے حوالے کرکے اپنی ساری پچھلی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ تاریخ انہیں ایوب، یحی اور جنرل ضیا کی طرح بھول نہ جائے بلکہ نجات دہندہ کی صورت میں یاد رکھے۔
اگر موجودہ حکومت نے اپنے اطوار نہ بدلے تو مندرجہ نظم کے اشعار کی طرح مزاحمتی ادب لکھا اور پڑھا جاتا رہے گا۔ مندرجہ ذیل اشعار ڈاکٹر صفدر محمود کالم نگار کی وساطت سے پڑھنے کو ملے جو رحیم یارخان کے جبار واصف صاحب کی طویل نظم کا حصہ ہیں۔
حملے کروائے جاتےہیں، منصب سے ہٹایا جاتا ہے
اور عزت کے معماروں کو “تو” کہ کر بلایا جاتا ہے
اک منصف کو اک آمر کے ایواں میں ستایا جاتا ہے
قانون کو خاکی وردی کے پیروں میں گرایا جاتا ہے
گستاخ سیاستدانوں کو مسند پہ بٹھایا جاتا ہے
عیاری سے مکاری سے ہر سچ کو چھپایا جاتا ہے
12 users commented in " کیا اب بھی صحافت آزاد ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب میرا خیال ہے مشرف صاحب انہیں لوگوں میں گھر چکے ہیں جو اس سے پہلے نواز شریف کو ایسی ہی صورتحال سے دوچار کر چکے ہیں۔ انہیں کے ایما پر نواز شریف نے فوج کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور اب انہیں لوگوں کی شہہ پر فوج نے عدلیہ سے پنجہ آزمائی کر ڈالی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اس صورت حال میں ملک کا کوئی بھی ہمددر صدر صاحب کو یہی مشورہ دے گا کے فوری طور پر ان عناصر سے اپنی جان چھڑائیں ورنہ ایک نئے سیٹ اپ میں یہی چہرے جو آج آپ کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آرہے ہیں کل آپ کو بد ترین آمر قرار دیں گے۔۔ اور ایک درمند پاکستانی کی حیثیت سے موجودہ عالمی تناظر میں کوئی بھی کسی قسم کا آئینی اور سیاسی بحران نہیں چاہتا۔ اگر صدر صاحب واقعی قوم سے مخلص ہیں تو فوری طور پر کنفیوژن کا خاتمہ کریں ، الیکشن کی غیر یقینی صورتحال کو واضح کریں ، عدلیہ کے وقار کو فوری بحال کریں ، صحافت کے ستون کی کمزور کرنے کے بجائے اس کی مضبوطی سے فائدہ اٹھائیں اور “مسخرے “ وزیروں سے جان چھڑا کر فوری طور پر سنجیدہ لوگوں کو اہم وزارتوں پر فائز کریں۔ آپ اپنے وزیر اعظم سے مدد لیں ہمارا لاکھ اختلاف صحیح مگر وہ قابل آدمی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہيں تيرے
بول زباں اب تک تيری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کُچھ کہنا ہے کہہ لے
ديکھ کہ آہن گر کی دُکاں پر
تُند ہيں شعلے،سُرخ ہے آہن
کُھلنے لگے قُفلوں کے دہانے
پھيلا ہر اک زنجير کا دامن
بول کہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزباں کی موت سے پہلے
بول جو کُچھ کہنا ہے کہہ لے
فيض نے کہا يا شاعر عوام حبيب جالب نے کہ
وہ بھی خائف نہيں تختہ ء دار سے
ميں بھی منصور ہوں کہہ دو اغيار سے
کيوں ڈراتے ہوزنداں کی ديوار سے
ظُلم کی بات کوجہل کی رات کو
ميں نہيں مانتا ،ميں نہيں مانتا
ايسے دستور کو صُبح بے نُور کو
ميں نہيں مانتا،ميں نہيں مانتا
ايک اور آمر ايک اور وردي پوش کے دور ميں بھی صحافت ايسی ہي آزاد تھی جب اخباروں کے پُورے کے پُورے صفحات اسی طرح سفيد رہا کرتے تھے کہ شايد امتحان ميں صفائ کے پورے نمبر مل جائيں اور قينچی کا نشان ہم سب کا مُنہ چڑايا کرتا تھا اُس وقت کے مرد آہن کا بھی يہی کہنا تھا کہ سب ٹھيک ہے مصاحبين بھی يہی راگ الاپا کرتے تھے جبکہ ہو اُس کے بر عکس رہا تھا آج کے جيو کے حملے کو پوری دُنيا نے ديکھا اور ہم مُلک سے باہر ہوتے ہُوۓ ايسی باتوں پر صرف شرم سے سرجُھکا کر رہ جاتے ہيں کہ اس کے علاوہ اور کوئ چارہ نظر نھيں آتا اور اس سب کے ساتھ يہ کتنا عجيب لطيفہ ہے کہ کسی بڑے کو بھی کُُچھ پتہ ہی نہيں کہ يہ سب کيسے ہُوا ؟آسمان سے آۓ فرشتوں کی مدد سے تو يہ سب نہيں ہُوا نا ؟سب کے سب اتنا عجيب behaveکر رہے ہيں جيسے جانتے نہيں ہر کوئ دوسرے کا نام لے کر ايسے خود کو بچانے کے بے ہُودہ سی کوشش کر رہے ہيں کہ غُصہ اور ہنسی دونوں ايک ساتھ آرہے ہيں ويسے بھی ميرے شوہر کہا کرتے ہيں کہنے اور کرنے ميں بہت فرق ہوتا ہے ؟شايد يہاں بھی کوئ ايسی ہی سوچ کارفرما ہے اللہ ہی جانے
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
مشرف صاحب اگر واقعی تاریخ میں اچھے الفاظ میں یاد کیا جانا چاہتے ہیں تو یہ سوچے بغیر کہ ان کے بعد ملک کو کون چلاے گا، اپنے دونوں عہدوں سے فارغ ہو جائیں اور گالف کھیلیں۔ یہ سوچ کہ میرے بعد اس ملک کا کیا ہو گا، اچھے اچھوں سے ایسے ویسے کام کراتی ہے۔
دوستو اصل میں جنرل صاب سے مشٹیک ہو گئی ہے یعنی ایک چوک ہو گئی ، انہوں نے سوچا کہ پنجاب پُلس بھی اسلام آباد والی ٹریفک پولیس یا پھر موٹر وے والی پُلس جیسی ہو گی ، مگر بھُل ہو گئی ، ساری کیتی کرائی پر پانی ڈال دیا ، اُلٹا “سر جی“ کو معافی مانگنی پڑی ۔ ۔ بے چارے درانی کی حالت ہی غیر ہو گئی ۔ ۔ ۔
اصل مسلہ ہے جنرل جنرل کے کھیل کا ، اور اس میں ہر کوئی بازی لے جانا چاہتا ہے ، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ۔ ۔ ۔
وردی والے وردی میں ، باقی سب بے وردی میں
جلسے میں جلوسوں میں، گرمی میں یا سردی میں
تقریر میں تحریروں میں ، عوام سب کو جھیلیں گے
کوئی کھیلے یا نہ کھیلے ہم جنرل جنرل کھیلیں گے
راشدہ اکرام صاحبہ کے شوہر جہاں دیدہ لگتے ہیں اُنہوں نے صحیح کہا “کہنے اور کرنے ميں بہت فرق ہوتا ہے” ۔ اسے پنجابی میں کہتے ہیں ” کینے تے کرنے وچ بوت فرق اے” ۔ کینا نام ہے گندی نالی کے ایک کیڑے کا اور کرنا ہوتا ہے ایک جنگلی پھل جو لذیذ ہوتا ہے ” میں نے بچپن میں کرنے کھائے تھے ۔ سو کہنے اور کرنے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کینے اور کرنے میں ۔
کل کا منظر یہ ہے کہ اسلام آباد ۔ راولپنڈی لاہور میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جنگ جاری تھی اور محمد علی درانی صاحب نے فرمایا کہ پورے پاکستان میں امن کی صورتِ حال بالکل ٹھیک ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ جب جیو کے دفتر پر حملہ کے بعد وہ وہاں پہنچے تو بھی اُن کا بیان تھا کہ پاکستان میں کہیں بھی کچھ نہیں ہوا صرف چند لوگ ذاتی سیاست چمکانے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں ۔ جب انٹرنیٹ اور موبائل فون دوبارہ بند ہو چکے تھے تو جیو نے وقار عظیم صاحب سے رابطہ کیا ۔ اُنہوں نے کمال ڈھیٹائی کے ساتھ کہا کہ کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ بالکل بند نہیں ہوئے ۔
جس ملک میں پرویز مشرف کے سوا کسی اور کا حکم نہیں چلتا وہاں آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ پرویز مشرف کے حکم سے نہیں ہوا ؟
اسلام و علیکم
میں جناب راشد کامران صاحب کی آراء سے سو فیصد متفق ہوں۔
جیو نیوز چینل جس طرح سے جسٹس افتخار کے کیس کو کوریج کیا ہے ایسا شاید ہی کسی دوسرے چینل نے کیا ہو۔ حکومت کا یہ قدم کسی کوتاہی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ الٹا جنرل مشرف کے گلے میں یہ بات پڑھ گئی ہے ان کے لیے عرض ہے کہ سارا پلان ہی یہ تھا۔ کہ کچھ اس طرح کی صرتحال ہو جائے کہ لوگوں کا پورا نہیں تو کچھ دھیان جسٹس افتخار کے کیس سے بٹ جائے۔ اور حکومت اپنے اس پلان میں کامیاب ہو چکی ہے۔
بہت سے چینلز اس کیس کو کور کیے ہوئے ہیں، لیکن جیو پاکستانی عوام پر راج کرتا ہے، لہذا عوام کی ہمدریاں اب جیو کے ساتھ ہیں، اور کہیں نہ کہیں کچھ اور کرنے کی سازش بھی جاری ہے جس سے عوام الناس کی توجہ اس کیس سے مکمل طور پر ہٹا دی جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سازش کس روپ میں سامنے آتی ہے، کسی ڈیم کے ایشو کو لے کر، مسلئہ کشمیر پر، یا پھر (خدانخواستہ) کوئی سمجھوتہ ایکسپریس جیسا واقئہ رونما ہوتا ہے۔
فی امان اللہ
اجمل صاحب اکرم صاحب پنجابی کے ہی کہنے اور کرنے کہا کرتے ہيں جن ميں واقعی انتہا کا فرق ہے ميرا نہيں خيال تھا کہ شايد اور کسی کو بھی اُس کرنے کا علم ہو گا ،بحرحال آج بے چارے حُکم کے اِکوں يعنی پُلسيوں کو سزا سُنا کر سوچا گيا کہ سب کی آنکھوں ميں دُھول مٹی ايک ساتھ ڈال دی گئ يہ سوچے سمجھے بغير کہ آج کے تو بچے بھی اِک جہاں ديکھے ہُوۓ ہيں وہ بے چارے ايک کے بعد دوسرے احکامات کی پابندی ميں مارے گۓ اب آج معافيوں کا دور چلا ہے بندہ پُوچھے آپ نے کيا کرديا تھا جو ،اسی کو کہنے اور کرنے کا فرق کہتے ہيں
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
اور میں کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں،جیو حکومت کی زبان بولتا ہے اور صرف اتنی ہی زبان کھولتا ہے جتنی حکومت وقت اجازت دے،
یہ جو کاروائی ڈالی گئی ہے مجھے تو یہ پولس میں موجود ًمحترمہ کے ہمدردوں کی کارگزاری لگتی ہے،
ویسے اس سے جیو والوں کو بھی بڑا فائدہ ہوا ہے ان پر لگی کالک کچھ ہٹ گئی ہے اور فل وقت وہ ہیرو بن گئے ہیں،ویسے جسٹس صاحب کی غیر جانب داری بھی خاصی مشکوک بنا دی ہے پیپلز پارٹی والوں نے،
اب آتے ہیں جسٹس رانا بھگوان داس کی طرف جو رویہ موجودہ صورت حال میں انکا ہے پتۃ نہیں کیوں مجھے وہ وعدہ معاف گواہ جیسا لگتا ہے،ساری کہانی مشرف صاحب کو سنا کر وہ نکل لیئے ہوں،اب کہانی کیا ہے، کیا وہ بھی میں ہی بتاؤں؟
اور اگر اب تک وعدہ معاف گواہ بنے نہیں ہیں تو بنانے کی کوشش کی جارہی ہو گی!
wait and watch
اُونٹوں کے کروٹ بدلنے کا انتظار کريں آپ بھی اور ہم بھی
دعاگو
شاہدہ اکرم
اسلام علیکم
میری نطم “انصاف نچایا جاتا ھے” کے مذکورہ بند کے دوسرے مصرعے میں لفظ “معماروں” نہیں ہے ” میناروں” ھے اس کو درست کر لیجئے ممنون ھوں گا
درست مصرعہ یوں ھے
اور عزت کے میناروں کو “تو” کہہ کے بلایا جاتا ھے
دعا گو جبار واصف (شاعر)
صدر رحیم یار خان ادبی فورم
Leave A Reply