یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ کسی عیسائی کو پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی اور بعد میں سزا پانے والے کو حکومت نے خود اپنے ہاتھوں سے بیرون ملک بھیج دیا۔ جس مزدور عورت آسیہ بی بی کو حال ہی میں سزائے موت سنائی گئی، اس کی داد رسی کیلیے پہلے پوپ بینیڈکٹ نے اپیل کی، پھر گورنر پنجاب اس عورت سے جیل میں ملے۔ اس کے بعد امریکہ نے اس عورت کو بمع خاندان کے شہریت دینے کا اعلان کیا اور اب وہ عورت امریکہ کوچ کرنے کیلیے اسلام آباد پہنجائی جا چکی ہے۔
اس سارے قضیے میں پہلے بھی پاکستان کی بدنامی ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے کبھی ایسی سزا پانے والوں کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ بلکہ کبھی پورے قصے کی غیرجانبداری سے تحقیق و تفتیش کی ہی نہیں۔ ماضی کے قصے سنانے کی بجائے ہم حکومت اور سپریم کورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس عورت کو تب تک بیرون ملک نہ بھیجے جب تک اس کے مقدمے کا جائزہ لے کر یہ ثابت نہ کر دے کہ اس عورت پر توہین عدالت کا مقدمہ غلط تھا۔ اگر مقدمہ غلط ثابت ہو جائے تو اس مقدمے میں ملوث مدعی، پولیس، گواہوں اور جج تک کو ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ دوبارہ کوئی ایسی غلطی کرنے کی ہمت نہ کرے۔ اگر حکومت اور سپریم کورٹ اس دفعہ ایسا کچھ کر دکھائے تو پھر ہمارے خیال میں اس عورت کو بیرون ملک بھیجنے کی بجائے پاکستان میں عزت سے رہنے کا حق مل جائے گا۔
اگر عورت کا گناہ ثابت ہو جائے تو پھر ہماری حکومت کو سخت رویہ اپناتے ہوئے اور ہر قسم کے بیرونی دباو کو رد کرتے ہوئے سزا بحال رکھنی چاہیے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے اس مقدمے کو جلد سے جلد سنے اور فیصلہ میرٹ پر سنائے۔ تا کہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔
مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ حکومت اور سپریم کورٹ کے پاس ایسے نیک کاموں کیلیے وقت ہی نہیں ہے۔ اس عورت کا بیرون ملک چلے جانا یہ ثابت کرے گا کہ ہماری عدالتوں کی دوسرے ملکوں کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں ہے اور وہ کسی بھی مجرم کو باعزت رہا کرا کے اپنے ملک میں پناہ دے سکتے ہیں۔
بہتر یہی ہوتا اگر حکومت عورت کو باہر بھیجنے کی بجائے اسے ایوان صدر یا ایوان وزیراعظم میں پناہ دے کر عزت بخشتی۔
31 users commented in " توہین رسالت کا قانون اور حکومت کی بے حسی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackشاید اسی وجہ سے اکثر توہینِ رسالت کے مجرم جیل میں ہی دیگر قیدیوںکے ہاتھوں جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔
حضور والا! تین بجوں کی ماں اور ایک غریب بے کس دیہاتی عورت کا ایک انتہائی جھوٹے اور جعلی مقدمے میں مہینوں سے جیل میں بند ہونا اور پھر عدالتوں کا کارنامہ کہ “گواہوں“ کے ہتھ کھڑا کرنے پر عورت کا فٹا فٹ سزائے موت پا جانا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارا (غیر) قانونی نظام اور عدالتی نظام شکیست ریخ کے کس دہانے پر کھڑا ہے۔ شرمندگی کے لئے تو صرف یہی کافی ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں کسی کا کیا دماغ خراب ہے جو توہین رسالت کرے ؟ اور اس کا شکار کون لوگ ہیں ؟ سب سے پسماندہ اور پسی ہوئی پاکستانی عیسائی کمیونٹی۔ اس قانون نے درجنوں لوگوں کی زندگیاں برباد کی ہیں لیکن آج تک کبھی بھی کسی اعلی عدالت میں ملزم کا گناہ ثابت نہیں ہوسکا۔ تاہم نچلی عدالتیں فٹا فٹ سزائے موت دے ڈالتی ہیں۔ تو پھر یہ قانون کیوں موجود ہے ؟ صرف مذہب پرستوں کے جذبات کو تسکین دینے کے لئے۔ سیٹ ہے بھئی۔
حقیقی توہین رسالت والے پکڑے نہیں جاتے۔ بلکہ لوگوں کی تعریف توہین ہی میں نہیںآتے۔ لیکن ہر کمزور جس پر بس چلتا سکتا ہے اسے دھر لو۔
توہین رسالت کا یہ نام نہاد “قانون“ ازخود توہین رسالت ہے۔
چلیں اس بے چاری اور اس کے بچوں کی بقایا زندگی بہتر ہی گذرے گی۔پاکستان میں رہ گئی تو پاک لوگاں کی گندگی ہی صاف کرے گی۔اور ایک کونے میں علیحدہ مخصوص برتنوں میں کھائے پیے گی۔
یہ بھی معلوم کرنا چاہئیے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف پاکستان ایسا ملک کیوں ہے جہاں آئے دن نچلے طبقے کے اقلیتی فرقے والے توہین رسالت کرتے رہتے ہیں۔
اسکے علاوہ کیا آپ پاکستان کے عدالتی اور تحقیقاتی نظام کو اتنا پاک اور راست سمجھتے ہیں کہ وہ اس غریب دیہاتی عورت کو بالکل صحیح انصاف مہیا کرے گا۔ ایک بار پھر آپ کتنے سادہ ہیں۔
اخبار جنگ کی خبر کے مطابق مذہبی علماء نے ھحکومت سے کہا ہے کہ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کر کے تو دیکھیں ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔
دیکھ لیں، ملک میں خانہ جنگی اور شدید احتجاج مذہبی علماء کس چیز کے لئے کر سکتے ہیں۔
ایک سوال کسی اور اسلامی ملک میں کیا توہین رسالت کا ایسا قانون موجود ہے، ہر سال وہاں پہ ایسے کتنے لوگوں کو قانون کے حوالے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بعض اسلامی ممالک میں غیر مذاہب کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں ہماری طرح دو فیصد کے قریب۔ وہ اسلامی ممالک اپنی اقلیتوں کا دماغ کس طرح درست رکھتے ہیں۔
الزام جھوٹا تو کسی پر نہيں لگنا چاہيئے خواہ وہ مسلم ہو يا غير مسلم ليکن جو بات سمجھ ميں نہيں آتی يہ ہے کہ ايک لڑکا اس ديوار کے نيچے دب کر ہلاک ہو جائے جو اسی کی کميونٹی نے سرکاری زمين پر ناجائز قبضہ کر کے بنائی تھی تو وائٹ ہاؤس کی ديواريں لرز جاتی ہيں اور ہمارے ملک ميں بھی غوغا مچ جاتی ہے اور ہماری حکومت وہاں ری اِنفورسڈ سيمنٹ کنکريٹ کی ديوار بھی بناتی ہے اور بچے کے والدين کو کمپينسيشن بھی ديتی ہے ۔ کيا وہ چھ سو سے زائد پاکستانی اور افغانی انسان نہيں تھے جنہيں بغير کسی جرم و قصور کے صرف غريب ہونے کی پاداش ميں گونٹانامو بے کے ايکسرے کيمپ ميں تيس ماہ سے زيادہ عرصہ تک ادھيڑا گيا اور ان ميں سے کئی ہلاک ہو گئے اور باقيوں کا ابھی تک کچھ پتہ نہيں ؟
پتہ نہیں ہم لوگوں کوکیاہوگیاہےدراصل ہم لوگ نےبھی اپنی آنکھوں پراس دنیاکی محبت کی پٹی کونہیں باندھ لی۔ماناکہ ہماری عدالت میں بہت کوتاہیاں ہیں لیکن ایسےلوگوں کواگروہ واقعی ایسےواقعےکےذمہ دارہیں توان کوسخت سزاملنی چاہیےبلکہ سزائےموت سےبہترکوئی اورسزانہیں ہےلیکن ہم لوگ پتہ نہیں کیاچاہتےہیں کہ اس قانون کودرندگی کہتےہیں آخرکیوں ہم میں یہ تضادکیوں ہےہم رسول اکرم نبی معظم حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کادم بھی بھرتےہیں لیکن ایسےقانون کی مخالفت کرکےکیاکہناچاہ رہےہیں۔ کیاایساقانون بس پاکستان میں ہی ہے؟دنیامیں کسی اورملک میں گستاخ رسول کی کیاسزاہے؟اورہماری محبت ایسےلوگوں سےہی کیوں جاگتی ہےانکی ہمدردی میں ہم ہلکان کیوں ہوجاتےہیں؟
اللہ تعالی ہم کونبی کریم کی تعلیمات پرعمل پیراہونےکی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین ثم آمین
عنیقہ،یہ سوال بھی پوچھیں کہ پاکستان میں صرف پنجاب ہی ایسا علاقہ کیوں ہے جہاں عیسائی آئے دن توہین رسالت کرتے ہیں،اگر عثمان میاں کو تعصب نہ لگے تو۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال آپ سے بھی ہے افضل صاحب کہ اپنے قول وعمل سے توہین رسالت کرنے والے مسلمانوں کو کیا سزا دینا چاہیئے؟؟؟؟؟؟
عبداللہ صاحب
سوال ہی نہ پوچھتے رہیں بلکہ پہلے اپنی رائے دیا کریں اور پھر دوسروں کے جواب کی امید رکھیں۔ ہمارا جواب تو ہماری پوسٹ میں ہی ہے۔
بالفرض اس عورت نے توہین کی تھی تو ؟
تو اب اسے رہا کیاجارہا ہے بلکہ مختاراں مائی کی طرح امید ہے کہ اسے پھرایا بھی جائے گا۔ اور ہمارے مذہب کی توہین ہوتی رہے گی۔
ہم غلام قوموں کی طرح ری ایکٹ کررہے ہیں۔
مجھے کوئی صاحب عقل و علم یہ سمجھا دیںکہ غیر مسلم پر توہین رسالت کا قانون کیسے لاگو ہوسکتا ہے؟ جب وہ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو ہی نہیںمانتے تو اس کی توہین چہ معنی دارد؟ ہاں مسلمان پر اس قانون کا نفاذ بالضرور ہونا چاہئے اور ایسا کرنا درست بھی ہوگا۔
فی الوقت تو میں عثمان سے یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں کہ مذکورہ مقدمہ “انتہائی جھوٹا اور جعلی“ کیسے ہے؟
جی ہاں…. میں بھی اسد صاحب کی تائید میں یہ سوال روشن خیالوں سے کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مقدمہ جھوٹا کیسے ہے؟ اور اگر جھوٹا ہے تو پھر معافی کی درخواست کیوں رحم کی اپیل کیوں ؟
بھائی عبدللہ کچھ عرصے ٹہر جائیں قائد تحریک نے جو روشن خیالی کا پودا لگایا ہے وہ تناور درخت بننے والا ہے اور کچھ عجب و بعید نہیں کہ یہ درخت توہین رسالت کے پهل دینے لگے .(خاکم بدہن )
جناب خرم صاحب!
بات بلکل سیدھی اور آسان ہے. کوئی شخص اپنے گھر میں جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے لیکن وہی شخص آپکے گھر آکر آپکے والد ماجد کو گالیاں دے یا آپکی والدہ ماجدہ کے بارے میں انتہائی نازیبا کلمات ادا کرے تو کیا آپ اپنی روشن خیال ، برداشت اور روا داری کی پالیسی پر قائم رہ سکیں گے ؟
pakistani ki current govt ny har maumaly mai apni Qabar barri ki hai …they should have to face the music in coming days InshaALLAH.
پاکستان میں تمام اقلیتیں علاقے کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اور یہ کہنا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اور انہیں پریشان کیا جاتا ہے سفید جھوٹ ہے۔
ویسے آج وہ تمام لوگ خاص طور پر مشہور روشن خیال اورایم کیو ایم بلاگر عنیقہ ناز آپا جو عافیہ صدیقی کا مقابلہ ایک بازاری عورت سے کراتے تھے، آسیہ بی بی کی مظلومیت کو رونا رو رہے ہیں۔ ہے نہ منافقت!
توحین رسالت کا قانون اللہ کے رسول کا خود بنایا ہوا ہے۔ تمام مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ وغیرہ کا توحین رسالت کی سزا پر مکمل اجماع اور تامل ہے اور میرے نزدیک اجماع سے اختلاف کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔
آسیہ بی بی اگر مظلوم ہیں اور انہوں نے ایسا جرم نہیں کیا تو انہیں رہا کرکے عزت سے رہنے دینا چاہئے اور اگر اعلی عدالت میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجرم ہیں تو انہیں سزا ہونی چاہئے۔ البتہ سزا کے بعد آسیہ معافی کی درخواست کرے اور کہے کہ میں نے جو جرم کیا میں اس پر شرمندہ ہوں تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسکی سزا ختم یا کم ہوسکتی ہے واللہ عالم
لیکن آسیہ بی بی کی مظلومیت کے نام پر اس وقت روش خیال اور تاریک دل لوگ جو کر رہے ہیں وہ حب علی نہیں بغض ماویہ ہے۔
آج حامد میر نے بھی اس موضوع پر ایک شاندار مضمون لکھا ہے جسکا ربط یہ ہے۔
عبداللہ اگر قول اور عمل سے گستاخی کرنے والوں پر بھی سزا ہوتی تو پاکستان کے تمام روشن خیال اور تاریک دل طبقے کا کام تمام ہوجاتا۔ شکر کرو بچے ہوئے ہو۔
ویسے عثمان یہ بتاو کہ کیا تم کینیڈا سے پاکستان آئے تھے اس مقدمے کی تحقیق کرنے جو تمہیں اتنا یقین ہوگیا کہ مقدمہ جھوٹا اور جعلی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تم اتنے یقین سے ایسا دعوا کیسے کرسکتے ہو۔
خرم میاں!
کعب بن اشرف مسلمان تھا یا یہودی۔ جاو پہلے بخاری شریف اور احادیث کی کتابیں پڑھ کر آو اور پھر اپنے نازک سے دماغ پر زور ڈالو۔۔۔
حامد میر کے کالم کا ربط تو رہ گیا۔
http://ejang.jang.com.pk/11-25-2010/pic.asp?picname=06_04.gif
اور ہاں کوئی اللہ کا بندہ ہماری ایم کیو ایم والی عنیقہ آپا کو یہ مضومون بھی پڑھا دے انکے کئی بے تکے معاف کرنا عالمانہ و مفکرانہ سوالات کے جوابات وہاں موجود ہیں۔
کاشف نصیر صاحب،
کعب بن اشرف مکہ والوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس کا جرم غداری، عہد شکنی، فتنہ سازی تھا اور اس جرم میں اسے قتل کیا گیا۔
مدینہ کے یہودی چونکہ یہ جانتے تھے اس لئے کعب کے قتل کے بعد انہوں نے کوئی شکایت نہیں کی۔
ہاں البتہ قرآن کی گواہی ہے کہ یہودی نبی کریم (ص) کو السام علیکم کہتے تھے۔ اس جرم میں کسی یہودی کو قتل نہیں کیا گیا۔
کاشف ،
دنیا کے ہر ہونے والے واقعے میں آپ بھی بنفس نفیس موجود نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی معلومات اپنی جگہ ہوتی ہی ہیں۔ اس لئے کینیڈا سے آنے کا سوال ہی کیا۔ خیر شائد جوش میں کہہ گئے۔
رہی تفصیل اس مقدمے کی تو اخباروں میں اچھی خاصی تفصیل چھپ چکی ہے۔ ایسے مقدموںکی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے جس میں اعلی عدالتوں میں کبھی مقدمہ ثابت ہی نہیں ہوا۔ ماتحت عدالتوں میں قتل کے جھوٹے مقدموں پر لوگ لٹک جاتے ہیں یہ تو پھر ایک بے کس عورت کا تنازعہ ہے۔ پھر جن عدالتوں نے اسے پھانسی کی سزا سنائی ان سے مزید “انصاف“ کی توقع رکھنا اور بھی حماقت ہے۔
میں اس موضوع پر کسی حد تک خاور کھوکھر کی پوسٹ سے متفق ہوں۔ پھانسی کی سزا کی تو میں حمایت نہیں کرتا۔ ہاں اگر کوئی گستاخ رسول نفرت انگیز کتاب لکھتا ہے یا کوئی شخص بڑے پیمانے پر شان رسالت کے خلاف پروپگینڈا میں مصروف رہتا ہے تو اس پر مقدمہ چلا کر جیل بھیج دینا چاہیے۔ لیکن اگر محلے میں لڑائی کے دوران کسی گنوار اور بےکس شخص نے اسلام اور رسول کے خلاف ہرزاسرائی کردی تو کوئی ایسی قیامت نہیں آگئی۔ میرا فہم دین بات بات پر لوگوں کی گردنیں اتارنیں کی تلقین نہیں کرتا۔ جہاں درگزر کرنے اور ہدایت سے کام چل سکتا ہے وہاں یہی مثبت راستہ اپنانا چاہیے۔میرے نزدیک یہی دین کے اصل روح کے موافق ہے۔
باقی اجماع کو رہنے دیجئے۔ یہ سو کالڈ “علمائے دین“ نماز کے معاملے میں اجماع کرنہ سکے تو باقی کی بات ہی کیا۔ یہ ایک دوسرے کے پیچھے یکجا ہو کر نماز ہی پڑھ لیں تو بڑی بات ہے۔
کاشف نصیر جن کے پاس دماغ ہے وہ تو اس پر زور ڈال ہی لیں گے پر تمھارا کیا ہوگا کالیا۔۔۔۔۔۔۔
lolz
ہمارےمعاشرے میں جس طور پر غیبت گمراہی ریا گاری جھوٹ فریب انا پسندی لالچ پھیل چکا ہے اس لحاظ سے ہمیں مکمل تحقیق کی ضرورت ہے
کہ کیا واقعی گستاخی رسول ﷺ ہوئی ہے؟ یا یہ کسی دیرینہ ذاتی رنجش کے باعث الزام تراشی ہی تو نہیں.
مکمل تحقیق کے بعد وہ بدبخت گستاخ رسول ﷺ ثابت ہو تو اس کو ایک نشان عبرت بنا کر قرار واقعی سزا دینی چاہئے معافی کی اس جرم مین کوئی جگہ نہیں
اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.
دل خون کے آنسو روتا ہے اس طرح کے تبصرے پڑھ کر۔ اگر میں نے کسی کو جاہل یا کچھ اور کہہ دیا تو میں بھی اس بحث میں رگڑا جاوں گا جو کہ میں بلکل نہیں چاہتا۔ بس یہ سب ہماری کم علمی ہے۔ اپنے ہی دین کو خود ہم نے سیکھا نہیں اور نہ آجکل کے والدین اولاد کو مزہبی تعلیم دلواتے ہیں۔ بس پھر اپنا ہی دین خود تو سمجھ آتا نہیں اور ساتھ سینکڑوں اور کے دماغوں میں بھی فتور پیدا کر دیتے ہیں۔ آپ سب میں سے کتنی ہیں جو اللہ سے ہدایت کی دُعا مانگتے ہیں؟ کتنوں کو ہدایت اور راہِ حق کی طلب ہے؟ اسکے جواب میں ایک اور بات جو اکثر سننا پڑتی ہے کہ ہم کونسا گمراہ ہیں جو ہدایت کی دُعا مانگیں۔ اصل میں یہی لوگ اصل گمراہ ہیں کیونکہ ہدایت کی دُعا تو ہمارے نبی بھی مانگتے تھے اور ہر نماز میں ہے اھدنا صراط المستقیم۔ بس گزارش اتنی سی ہے کہ اللہ سے زیادہ سے زیادہ ہدایت مانگی جائے اور خود بھی مزہب کا علم سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں
عثمان : گوحافظ ابن تیمیہ اور ابن حجر عکسلانی سو کالڈ علماء ہیں۔ اور کیا امام بخاری کی ان اگیارہ صحیح احادیث کا جن میں گستاخوں کو آپ صلی اللہ و علیہ وسلم کی منظوری سے قتل کئے جانے کے واقعات موجود ہیں، کیا جلا کر پھینک دیں کہ ان احادیث کو ان کی کوئی حیثیت نہیں ہماری عقل کے آگے۔ اور کیا مولانا محمد علی جوہر احمق تھے جو اس قانون کا مطالبہ کرتے مرگئے، کیا اقبال احمق تھے جنہوں نے غازی علم دین اور ایک کراچی کے غازی شہید کے لئے “لاہور اور کراچی“ نظم لکھی اور کیا قائد اعظم احمق تھے جو غآزی الم دین کا مقدمہ لڑے۔
یار روشن خیال بنو لیکن اتنے بھی نہیں کہ بس روشنی میں انکھیں چندیا جائیں اور کچھ نظر نہ آئے۔
کاشف ،
رسول اللہ کا مکی دور ، طائف کا واقعہ ، اور فتح مکہ کے واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ رسول اللہ نے کبھی اپنے اور اپنے خاندان پر ہونے والے ظلم و ذیادتی کا بدلہ نہیں لیا۔ تلوار اگر اٹھائی تو صرف غزوات میں۔ یا دین کے خلاف بڑے پیمانے پر فساد مچانے والوں کی سرکوبی کے لئے۔ یا وہ جن کا حکم قرآن میں ہے۔ ان عظیم تاریخی واقعات کے سامنے بخاری صاحب کی تدوین کردہ چند احادیث کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ راہمنائی حاصل کرنی ہے تو رسول کی زندگی کے وہ واقعات ہی کافی ہیں جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔
سزا کی شدت جرم کے مطابق ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر فتنا و فساد اور نفرت انگیز پروپیگینڈا پر مبنی کتاب لکھنے والے کی جرم کی شدت اور ہے۔ جبکہ ایک گنوار شخص کا اپنے گلی محلے میں کھڑے ہو کر کچھ لغویات بک دینے کی شدت اور ہے۔ میں ان دونوں جرائم کی شدت ایک سی نہیں دیکھتا۔ اول الذکر میں شاتم رسول پر مقدمہ چلا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنا برحق ہے۔ موخر الذکر میں گنوار شخص کو درگز و نصحیت کرکے راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔
شائد آپ تین روپے کی روٹی چرانے والے اور تین ارب کا بینک ہڑپ کرجانے والے کو ایک سا مجرم سمجھتے ہوں اور دونوں کے ہاتھ کاٹ کر یکساں سزا کے قائل ہوں۔ جبکہ میں ایسا نہیں دیکھتا۔ جرم کی شدت میں فرق ہے۔ سزا میں بھی فرق ہونا چاہیے۔ کم جرم والے کو کم سزا ذیادہ جرم والے کو ذیادہ سزا۔ دنیا کی ہر عدالت اسی اصول پر عمل کرتی ہے۔ دین تو پھر اس سے بہت اعلی اور حکمت والا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ دین میں بڑی حکمت ہے۔ دین بات بے بات لوگوں کی گردنیں مارنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ بلکہ قتل جیسے سنگین جرم میں بھی معافی اور قصاص جیسے متبادل راستے رکھتا ہے۔ جذبات کو ایک طرف رکھ کر غور کیجئے کہ روشن خیالوں کی باتیںکی سمجھ آجائیںگی۔
آپ نے کہا کہ بھائی پاکستان میں لگ بھگ تمام توہین رسالت کے مقدموں کا پیغمبرِ اسلام کی توہین سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر اس قانون کا استعمال کرتے ہیں اس لیے قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے، تو ایک دم سے جذباتیوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے اور دین دشمنی کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں موت کی سزا پر علمدرآمد نہیں ہوا اور تقریباً تمام ملزمان مقامی عدالتوں میں سزا پانے کے بعد، اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کئی کو زیادہ عرصہ جینے نہیں دیا جاتا)۔ ان حالات میں کیا یہ تجویز غلط ہے کہ یا تو اس قانون کو ختم کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔
چار بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔
پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارے کس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟
آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نے معاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اور میڈیا میں مصروف ‘جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کود پڑتی ہے۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔
حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کر کچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کے اخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویر چھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار، لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے ہیں۔ففففف
آپ نے کہا کہ بھائی پاکستان میں لگ بھگ تمام توہین رسالت کے مقدموں کا پیغمبرِ اسلام کی توہین سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر اس قانون کا استعمال کرتے ہیں اس لیے قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے، تو ایک دم سے جذباتیوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے اور دین دشمنی کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں موت کی سزا پر علمدرآمد نہیں ہوا اور تقریباً تمام ملزمان مقامی عدالتوں میں سزا پانے کے بعد، اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کئی کو زیادہ عرصہ جینے نہیں دیا جاتا)۔ ان حالات میں کیا یہ تجویز غلط ہے کہ یا تو اس قانون کو ختم کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔
چار بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔
پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارے کس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟
آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نے معاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اور میڈیا میں مصروف ‘جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کود پڑتی ہے۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔
حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کر کچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کے اخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویر چھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار، لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے ہیں۔لللل
کیا کہوں اور کس سے کہوں یاد رکہیں یہ لبرل لوگ جب ایمان چلا جاتا ھے تو پھر بے غیرتی آتی ھے ابھی تو مغرب پہلے روح محمدی صلی اللہ عیلہ وسلم نکا لے گا پھر یہ حال ھو گا یہود اور نصری کی طرح گھرگھر کنواری ماں ھو گی مادر پدر آزادی باپ کو بیٹی فخر سے اپنے یار کا تعارف کرواے گی (لبرل گھرانوں میں تو یہ شروع ھو چکا ھے)لیکن جب یہ بیٹی ان کو کوڑے کی طرح باہر اٹھاپھنکےگی تو وقت گزرچکا ھو گا
Leave A Reply