آج کل وکی لیکس نے امریکی خفیہ رپورٹس چھاپ کر دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ ان رپورٹس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو نظر آ رہا ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا اور جو باطن میں ہے اس کی خبر صرف بڑوں کو ہوتی ہے عام پبلک کو نہیں۔ یہ سیاستدانوں کی کمزوریاں ہی ہوتی ہیں جو فوج کو طاقتور بناتی ہیں وگرنہ جنرل کیانی کی یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ بیک وقت زرداری اور نواز شریف کو ناپسند کرتے۔
اخبار جنگ میں چھپی وکی لیکس کی رپورٹس کے مندرجہ ذیل اقتباس کو پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک پر حکمرانی کون کر رہا ہے اور غلامی کی زندگی کون بسر کر رہا ہے۔
لندن…وکی لیکس کی طرف سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک میں سیاسی بحران حل کرنے کے لئے صدر آصف زرداری کو عہدے سے ہٹانے اور جلاوطن کرنے پر غور کیا تھا ۔ سابق امریکی سفیر این پیٹرسن کے مطابق جنرل کیانی کا کہنا تھا کہ وہ آصف زرداری کو جتنا ناپسند کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ بے اعتمادی انہیں نواز شریف کے بارے میں ہے ۔ وکی لیکس کے مطابق امریکی سفارت خانے کی جانب سے واشنگٹن بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ جنرل کیانی نے صدر زرداری کو ہٹانے اور جلا وطن کرنے کا خیال مارچ دو ہزار نو میں امریکی سفیر این پیٹرسن کے ساتھ ملاقاتوں میں اس وقت پیش کیا جب نواز شریف معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک چلارہے تھے ۔ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں این پیٹر سن کے ساتھ چوتھی ملاقات میں میں جنرل کیانی نے اشارہ دیا کہ اگر صورت حال مزید خراب ہوئی تو انہیں مجبوراً صدر زرداری کو مستعفی ہونے پر قائل کرنا پڑے گا ۔ جنرل کیانی کا کہنا تھا آصف زرداری کی جگہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کو لایا جاسکتا ہے، لیکن یوسف رضا گیلانی بدستور وزیر اعظم رہیں گے ۔ پیٹر سن نے مراسلے میں کہا کہ اس طرح یہ باضابطہ بغاوت نہیں ہوگی اور آصف زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت میں حکومت موجود رہے گی۔ لیکن اس کے ساتھ جنرل کیانی نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ امریکا مذاکرات سے یہ بحران حل کرلے گا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ نواز شریف اقتدار میں آئیں ۔ وہ آصف زرداری کو جتنا ناپسند کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ بے اعتمادی انہیں نواز شریف پر ہے اور وہ کوئی ایسا حل چاہتے ہیں کہ قائد حزب اختلاف اقتدار میں نہ آسکیں ۔ جنرل کیانی نے پیٹر سن سے کہا تھا کہ اعلی فوجی حکام آصف زرداری کے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ بدعنوان سمجھے جاتے ہیں اور پاکستان کے اقتصادی اور سیکیورٹی چینلجوں کو نظر انداز کرچکے ہیں ۔ امریکی سفیر نے اپنی حکومت کو اطلاع دی کہ جنرل کیانی کی طرح آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا بھی آصف زرداری کے بارے میں اسی طرح کی شکایات کرچکے ہیں ۔ پیٹر سن نے مراسلے میں کہا کہ آرمی چیف نے اپنے خدشات سے براہ راست صدر زرداری کو آگاہ نہیں کیا کیونکہ وہ ایسی کسی بھی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہتے تھے جو آصف زرداری کو انہیں ہٹانے کی کوشش پر مجبور کرے ۔
9 users commented in " حکمران کون اور غلام کون؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوکی لیکس کے خفیہ سفارتی پیغامات کے مطابق 2009 کے اوائل میں جنرل کیانی نے صدر زرداری کو عہدۂ صدارت سے الگ کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا۔
اپنے مراسلے میں سفیر نے مزید لکھا تھا کہ ’ قطع نظر اس کے کہ وہ( جنرل کیانی) صدر زرداری کو کتنا ناپسند کرتے ہیں نواز شریف ان کے لیے اس سے بھی زیادہ نا قابل بھروسہ شخص ہیں‘۔پیغام کے مطابق یہ ایک باقاعدہ فوجی بغاوت نہ ہوتی اور وزیراعظم گیلانی کی حکومت اپنی جگہ قائم رہتی اور یوں انتخابات کی نوبت نہ آتی جس کے نتیجے میں نواز شریسفارت خانے کے پیغام کے مطابق مارچ دو ہزار نو میں امریکہ کے نائب صدر جو بائڈن نے برطانیہ میں وزیراعظم گورڈن براؤن کو بتایا تھا کہ انھیں صدر زرداری نے بتایا کہ ’ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر اور جنرل کیانی مجھے اقتدار سے الگ کر دیں گے‘۔
ف برسرِاقتدار آ سکتے تھے۔
اس سے قبل بیس جنوری دو ہزار سات کے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حامد کرزئی نے اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات میں کہا کہ سارے بگٹی دہشت گرد نہیں ہیں اور اس لیے پاکستان کے حوالے نہیں کیے جا سکتے۔
اٹھارہ دسمبر دو ہزار نو کے ایک مراسلے میں براہمداغ بگٹی کو یورپ میں پناہ گزین کی حیثیت دینے کے حوالے سے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے کہا کہ اگرچہ اس بارے میں فیصلہ وزارت خارجہ کرے گی لیکن جنرل پاشا نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ اس کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین نے اس بارے میں براہمداغ کی مدد کی تو پاکستان کا رویہ اس ادارے کی جانب تبدیل ہو جائے گا۔
کيا ايسا نہيں ہو سکتا کہ يہ سب امريکا کے خفيہ اداروں کا ايک نيا ڈرامہ ہو جس کا مقصد کچھ لوگوں پر دباؤ بڑھانا ۔ کچھ کو بدنام کرنا اور کچھ کا ردِ عمل ديکھنا ہو تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکے ؟
جو دور دراز علاقے ميں سے مطلوبہ آدمی اُٹھا ليتے ہيں اور دہشتدگرد کو پہجان کر اس پر مزائل گرا ديتے ہيں اُن کے ہاں سے ٹنوں خفيہ معلومات کيسے ايک ايسے شخص کے ہاتھ آ گئيں جس کا وہ کچھ بگاڑ بھی نہيں سکتے ؟
ویسے یہ وکی لیک کی تمام لیکس مسلمان اور تیسری دنیا کے ممالک کے متعلق ہی کیوں ہوتی ہیں؟ روس، فرانس، برطانیہ، جرمنی، جاپان، چین وغیرہ کے متعلق امریکی اور دیگر یورپی حکومتیں کیسے خیال رکھتی ہیں ان پر سے پردہ کیوںنہیںاُٹھایا جاتا؟
وکی لیک انٹرنیٹ پر دیکھ لیں ۔یورپی ممالک اور چائینا کے متعلق بھی کچھ ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ھے۔جسطرح امریکہ حواس باختہ ہو رہا ھے۔لگتا تو یہی ھے کہ یہ سب ڈرامہ وغیرہ نہیں ھے۔
میری ذاتی ائے میں کچھ معلومات ایسی ہوتی ہیں جنہیں ڈس انفامیشن پھیلانے کے لئیے عام کر دیا جاتا ہے تانکہ فریق مخالف کے رد عمل کا جائزہ لیا جا سکے۔ یا کچھ ناپسندیدہ فریقوں میں پھوٹ ڈلوائی جاسکے۔ اسے معلومات نہیں بلکہ سازش کہنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
بہت ممکن ہے کہ وکی لیکس کی معلمات درست ہوں مگر اسقدر تازہ ترین خفیہ معلومات۔ اس بڑی تعداد میں اور اس آسانی سے پیسشگی اطلاع کے ساتھ چھاپی جارہی ہیں۔ جس پہ مسلمان ممالک اور تیسری دنیا کے سیاستدان اور حکمران عوام تلملا اٹھے ہیں۔ مغرب اور امریکہ کے اتحادی ممالک میں اس بارے کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ ۔۔۔ اس سے زہنوں میں ایک شک ابھرتا ہے کہ امریکہ نے یہ معلومات آشکارا کرنے کا بندوبست کیا اپنے اتحادیوں کو اس سے بیشتر اعتماد میں لیا۔ان معلومات میں ایسی بات نظر نہیں آئی جس سے امریکہ کو کوئی سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہو۔ البتہ تیسری دنیا اور خاصکر مسلمان ممالک میں کئی نئے فتنے سر اٹھا ئیں گے۔
اگر یہ درست ہے تو جلد پتہ چل جائے گا کہ وکی لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔اور ایسے رازوں کے افزاء کے پیچھے کونسی پالیسی کارفرما ہے ۔ دنیا میں انتشار کی ایک نئی لہر ابھرے گی ۔ اسلئیے مسلمان ممالک کو ابھی سے ایسے حلات کے پیش خیمے سے نمٹنے کا بندوبست کر لینا چاہئیے۔
وکی لیکس پر بدھ کو شائع ہونے والے ایک امریکی سفارتی پیغام کے مطابق پاکستان نے سنہ دو ہزار نو میں امریکی فوج کے خصوصی دستوں کو قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی کارروائی میں شرکت کی اجازت دی تھی۔
مراسلے کے مطابق جی ایچ کیو نے امریکی فورسز کو گیارہویں کور کے ساتھ کام کرنے اور پاک فوج کو انٹیلیجنس، نگرانی اور دیگر امور پر مشورے دینے کی اجازت دی۔ یہ فورسز پاک فوج کے ساتھ جنوبی اور شمالی وزیرستان میںامریکی سفیر کے مطابق جی ایچ کیو کی جانب سے امریکی سپیشل فورسز کو اجازت ملنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج میں امریکی فوج کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ تعینات کی گئیں۔
وکی لیکس کے بانی 188 ملکوں کی پولیس کومطلوب
امریکہ میں حکومت کے وکلاء جاسوسی کے الزام میں اسانش پر مقدمہ چلانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔جبکہ یورپی یونین انہیں سویڈن میں جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں پوچھ گچھ کرنے کے لیے تلاش کر رہی ہے۔
جاسوسی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ چلانے میں امریکی آئین کی پہلی ترمیم ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے جو آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔تاہم ایسو سی ایٹڈ پریس نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسانش پر سرکاری املاک چرانے کا مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔افغانستان کے بارے میں دستاویز جاری کرنے کے بعد اسانش سویڈن گئے تھے جہاں انہوں نے رہائش اور کام کرنے کے ویزہ کے لیے درخواست دی تھی۔
سویڈن میں انہیں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کرنا پڑا جو اب ان کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔اسانش اس الزام کی تردید کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دونوں خواتین کی مرضی سے ہی ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا۔
ان الزامات کے بعد سویڈن نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
منگل کو انٹرپول نے ریڈ نوٹس جاری کر دیا ہے اور افغانستان سے لیکر زمبابوے تک 188 ملکوں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ اسانش سویڈن کی پولیس کو مطلوب ہیں۔ حال ہی میں ایکواڈور کے نائب وزیرِ خارجہ نے اسانش کو پناہ دینے کی بات کی تھی لیکن ملک کے وزیرِ اعظم نے اس پیشکش کو فوراً مسترد کر دیا
امريکی حکومت قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو کنٹرول نہيں کرتی ہے اور نہ ہی اس پر کوئ اثرورسوخ ہے ۔ امريکی قانون کے مطابق امريکی حکومت کو کسی بھی قسم کے ميڈيا کے ادارتی صفحات میں مداخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔ لہذا اگر آپ کا بيان درست ہوتا تو تمام میڈيا ہمارے حق ميں لکھتے اور ميں يہاں پر غلط اور بناوٹی کہانيوں کا جواب نہ دے رہا ہوتا۔
جہاں تک رہا تعلق خفيہ دستاويزات کے اشاعت کا تو ہم نے ناجائز طور پر قومی سلامتی کے بابت شائع کی جانے والی خفيہ دستاويزات کی پر زور مزمت کی ہے۔ وکی ليکس نے چوری شدہ خفيہ دستاويزات کی اشاعت کر کے کئ انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہے۔ ہزاروں کی تعداد ميں شائع کی جانی والی امريکی حکومتی دستاويزات ايک قانونی جرم ہے امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے وکی لیکس کے بانی جولين اسانج کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنے کے ليے غوروفکر کررہے ہیں ممکن ہے کہ خفيہ دستاويزات کی اشاعت کی بنا پر اس کے خلاف جاسوسی ايکٹ جيسے الزامت عائد کيے جائيں۔
اس کے علاوہ ہم نے سابق يوايس انٹيليجنس تجزیہ نگار 23 سا لہ بريڈلی ميننگ جس نے خفيہ دستاويزات کو چرايا ، کے خلاف بھی قانونی کاروائ کی ۔ اس کے خلاف خفيہ دستاويزات کی ناجائز ترسیل کےالزامات لگاۓ گے۔ آپ اس لنک پر تمام الزامات ديکھ سکتے ہیں۔
http://www.boingboing.net/2010/07/06/us-will-press-crimin.html
ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
Leave A Reply