دوغلاپن ہمارے معاشرےکا ايک جزو لاحق بن چکا ہے۔ ايک عام آدمي سے ليکر حکمرانوں تک ميں يہ بيماري بدرجہ اتم پائي جاتي ہے۔ ايک وقت تھا لوگ اگر ايماندار آدمي کي تلاش ميں ہوتے تو پہلي نظر ان کي کسي حاجي پر پڑتي اب يہ وقت ہے کہ لوگ حاجي کا نام سنتے ہي اسے فراڈيا اور چور کہنے لگتے ہيں۔ پہلے راشي لوگ محلے ميں خال خال ہوتے تھے اور لوگ ان سے نفرت کيا کرتے تھے اب راشي لوگ ہر گلي ميں رہتے ہيں اور لوگ ان کو عزت کي نگاہ سے ديکھتے ہيں۔
يہي اطوار حکمرانوں کے بھي ہيں وہ جو آج بيان جاري کرتے ہيں کل بلکل اس کے الٹ بات کرتے نظر آتے ہيں۔ جنرل مشرف کي مثال ہمارے سامنے ہے۔ کہاں ايک جنرل جو ميڈيا کي ايسي خبر ليتا تھا کہ اخباري نمائندے ايک دوسرے کا منہ ديکھتے رہ جاتے تھے اور کہاں جب اپني کرسي پر آنچ آنے لگي تو ايک صحافي سے اسي طرح معافي مانگي جس طرح کبھي باباۓ ايٹم بم عبدالقدير خان سے پوري قوم سے معافي منگوائي تھي۔
ايک طرف جنرل صاحب چيف جسٹس کو اپنے آرمي ہاؤس ميں بلاتے ہيں تو وردي ميں ملتے ہيں اور دوسري طرف 23 مارچ کي فوجي تقريب ميں سول وردي ميں نہ صرف شرکت کرتے ہيں بلکہ اپني فوج کا گارڈ آف آنر بھي ليتےہيں۔
وزير اطلاعات دراني صاحب اس بات سے صاف مکر جاتے ہيں کہ غيرفعال چيف جسٹس کو گھر ميں نظر بند کيا ہوا ہے حالانکہ ان کے پاس بھٹا شخص کہ رہا ہوتا ہے کہ ابھي چند گھنٹے قبل اسے چيف جسٹس سے ملنے نہيں ديا گيا۔
ملک معاشي طور پر انحطاط کا شکار ہے اور تجارتي خسارہ ريکارڈ حد تک بڑھ چکا ہے مگر حکومت اب بھي ملک ميں خوشحالي کا ڈھنڈورا پيٹ رہي ہے۔
جب تک انڈيا کو ورلڈ کپ سے باہر ہونے کا خدشہ پيدا نہيں ہوا تھا ان کے چينل چوبيس گھنٹے پاکستان کي ٹیم کے بحران کي کوريج دکھا رہے تھے ليکن جس دن انڈيا سري لنکا سے ہارا انہيں اپني پڑ گئ اور پاکستان کي ٹيم کو وہ بھول ہي گئے۔ آج اگر بنگلہ ديش برمودا کو ہرا دے تو انڈيا اور پاکستان کي ٹيم کا فرق مٹ جائے گا۔ وہ بھي پہلے مرحلے ميں باہر ہوئے اور پاکستان کي ٹیم بھي۔
ايک طرف حکومت کو جلسے جلوس کي مکمل آزادي ہے مگر دوسري طرف اپوزيشن پر پابندي ہے بلکہ احتجاج سے دو دن قبل ہي سياسي رہنماؤں اور کارکنوں کي پکڑ دھکڑ شروع ہوچکي ہے۔ ہونا تو يہ چاہئے کہ اگر ملک يا صوبے ميں دفعہ 144 نافذ ہے تو پھر حکومت بھي جلسہ نہ کرے۔
بينظير نے پہلے اے پي سي ميں شرکت سے انکار کرديا مگر اب نواز شريف سے ملاقات کرنے دوڑ پڑيں۔ بينظير کو دراصل يہي دھڑکا لگا ہو گا کہ وکلا کي موجودہ تحريک اگر زور پکڑتي ہے تو پي پي پي اس الزام سے بچ سکے کہ وہ باہر کھڑي تماشا ديکھتي رہي۔ اب شہيدوں ميں نام لکھوانے کيلئے بينظير 26 تاريخ کي ہڑتال ميں شامل ہورہي ہيں۔
الطاف حسين موجوہ فوجي حکومت کا نہ صرف حصہ ہيں بلکہ اس کے بانيوں ميں سے ہيں۔ اگر ايم کيو ايم جنرل مشرف کا ساتھ نہ ديتي تو وہ کبھي بھي مرکز اور سندھ ميں حکومت نہ بنا پاتے۔ اب جب جيو پار حملہ ہوا تو الطاف حسين نے نہ صرف اس واقعے کي مذمت کي بلکہ اپنے خاص ذاکرانہ سٹائل ميں جيو سے بات کرکے حکومت کي وہ خبر لي کہ اگر جنرل صاحب کو اپني کرسي کا خطرہ درپيش نہ ہوتا تو الطاف حسين کي خوب خبر ليتے۔
کراچي ميں ايم کيو ايم کي اکثريت ہے اور ايم کيو ايم حکومت ميں شامل ہے مگر ملک ميں سب سے زيادہ فوج کے خلاف نفرت کا رجحان بھي کراچي ميں ہي بڑھ رہا ہے۔ يہ تو جس تھالي ميں کھانا اسي ميں چھيد کرنے والي بات ہوئي۔ ايک طرف حکومت ميں شامل اور دوسري طرف اسي حکومت سے نفرت۔
وہ سب لوگ جو بہتي گنگا ميں ہاتھ دھونے کيلئے حکومت ميں شامل ہوئے اب جب جنرل مشرف پر برا وقت آيا تو وہ خاموش تماشائي بنے تماشا ديکھتے رہے۔ سوائے ايک دو حکومتي وزيروں کے کسي کو بيان تک جاري کرنے کي جرات نہيں ہوئي۔ شايد انہوں نے ابھي سے آنے والے وقت کي تياري شروع کردي ہے۔ ليکن ايک انسان ہونے کے ناطے ان کا فرض بنتا تھا کہ مشکل وقت ميں بھي اپنے محسن کا ساتھ ديتے۔ ہماري نظر ميں تو يہ طوطا چشمي ہوئي۔ اس بحران نے جنرل صاحب کو اصلي اور نقلي وفادار میں فرق ضرور دکھا ديا ہوگا۔
4 users commented in " ادھر ادھر کي باتيں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپرویز مشرف صاحب کی عقل کو وردی کھا چکی ہے ورنہ اب تک وہ گوشہ نشین ہو گئے ہوتے ۔ الطاف حسین کی منافقت تو ایک مثال بن چکی ہے ۔رہے طفیلئے تو وہ اپنا کردار پورا ادا کر رہے ہیں ۔ بینظر کا نصب العین حکومت ہے چاہے کسی طرح ملے ۔
آج کا معلوم نہیں کل صرف راولپنڈی اسلام آباد میں سو سے زیادہ محرک سیاسی آدمیوں کو ان کے گھروں سے اُٹھا لیا گیا تھا تا کہ کل کہہ سکیں کہ کوئی لیڈر تو سڑک پر آیا ہی نہیں ۔ پھر بھی ناکہ بندی مکمل ہو گی ۔
اسی کا نام دُنيا ہے ہم سب دو مُنہ ،دو چہرے رکھنے والے لوگ ہيں ايک چہرہ دُنيا کو دکھانے کے لۓ اور دوسرا وہ جو ہم کہيں اپنے اندر چُھپا ۓ فضول قسم کے کاموں کے واسطے سنبھالے رکھتے ہيں ايسے ہی دوغلے جُزئيات اور اجزاۓ ترکيبی کا مُرکّب ہيں يہ حضرت انسان جو ہر پل مُتحرک رہنے کی کوشش ميں ہر دم ايسے کام کرتے رہتے ہيں جن ميں اپنا فائدہ تو کبھی کبھار ہی ہُوا کرتا ہے ہاں دوسرے کو دُکھی کرنے کے سامان کرنا فرض اوّلين سمجھاجاتا ہے سو ايسے ميں سب کو سُکھی کرنا اور ديکھنا ذرا مُشکل سی بات ہے اور آپ ايسی باتوں کو
ادھر اُدھر کا نام دے کر اپنا دل خوش کر رہے ہيں جب کہ اگر آپ اگر ذرا سا رُخ موڑ کر ديکھيں تو اپنے بہت نزديک بھی ايسے لوگ ضرور مل جائيں گے جو اپنے قول و فعل ميں اتنا تضاد رکھتے ہيں کہ يقين مُحال معلوم ہوتا ہےکيونکہ آج کا دور نا ہی معجزوں کا دور ہے اور نا ہی قول کے دھنی لوگوں کا ہے سو ہميں ايسے ہی لوٹوں کے ساتھ رہنے کا عادی ہونا ہوگا ہمارے ارباب اقتدار يا وُزراۓ کرام بھی تو انسان ہي ہيں نا اور انسانوں کا انسانی صفات سے عاری ہونا آپ کو عجيب نہيں لگے گا کيا ؟اس حمام ميں سبھی ايک سے ہيں اب وہ مشرف صاحب ہوں يا اور کوئ ايکس وائ زيڈ سب صرف اور صرف اپنے ہی بارے ميں سوچتے ہيں اپنا آپ ،اپنی کُرسي، اپنی پوسٹ يا عہدہ يا ترقی کا وہ زينہ جس پر چڑھنے کے لۓ ہر ہر طريقہ جائز اور درُست ہوجاتا ہے خود بخود، اور شرم بھی ايسے سمے نا جانے کہاں مر کھپ جاتی ہے جب ايک پل ميں آپ ايک جغادری وزير بن کر کُچھ بھی کہہ جاتے ہيں ليکن اگلے ہی پل ذات کے اس گُمان سے نکل کر اُسی بندے سے معافی مانگنا پڑ جاتی ہے صرف اُس جھنڈے والی گاڑی ميں سفر برقراررکھنے کو اور ہاں عزّت کا کيا ہے وہ تو آنی جانی شے ہوتی ہے بندے کو بس ڈھيٹ ہونا چاہيۓ اور ہم لوگ ماشاءاللہ اس چيز ميں بہت خود کفيل ہيں آپ کيوں فکر کرتے ہيں؟ يہ سب تو روزمرّہ کی روٹين ہے
دعاگو
شاہدہ اکرم
اور جنرل صاحب کے اصلی وفادار کون ہیں ان کی نشاندہی بھی کر دیتے تو مہربانی ہوتی:)
افتخار صاحب بے نظیر بھی بری ہے الطاف حسین بھی برا ہے،اور اچھا کون ہے؟ صرف آپ کے میاں جی کیوں؟اور ان میں اچھائی کیا ہے کہ وہ آپ کے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں،اللہ کو مانیں قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اب تو تعصب چھوڑ دیں،
اور سب کر کے ترہ یہ ہے کہ میں متعصب نہیں،
دین کی باتیں کرنے والوں کو صرف دین کی باتیں ہی نہیں کرنا چاہیئے ان پر عمل بھی کرنا چاہیئے آپ جیسے لوگوں کے ان ہی رویوں نے نوجوان نسل کو دین سے برگشتہ کیا ہے،جانتے ہیں عالم بے عمل کی کیا سزا ہے روز قیامت اس کی آنتیں اس کے دبر(پاخانے کی جگہ) سے باہر نکلی ہوں گی اور وہ شدید اذیت میں ہو گا لوگ اس سے کہیں گے اے فلاں تم تو ہمیں اچھی باتیں بتاتے تھے
یہ آج تمھارا کیا حشر ہے وہ جواب دے گا میں صرف باتیں کرتا تھا عمل نہیں،یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے،
آپ سے مینے پوچھا کہ آپنے جسٹس سجاد والے کیس میں بھی اتنا ہی احتجاج کیا آپنے مجھے ڈان اور نیوز کے حوالہ دے دیاکہ آپنے وہاں مضامین لکھے جب میں ڈھونڈ نہ سکا اور آپ سے گزارش کی کہ آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں تو آپ نے حسب عادت روکھے پن کا مظاہرہ کیا جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کے پاس ایسا کوئی مواد موجود نہیں ہے،
اور یہیں سے آپ کی غیر جانب داری کی ہوا نکل جاتی ہے،
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ازاں لاالہ ال اللہ
Leave A Reply