عدلیہ کے بحران کو حزب اختلاف نے جس طرح کیش کرنا شروع کیا ہوا ہے اس نے حکومت کی راتوں کی نیند حرام کررکھی ہے۔ حزب اختلاف کے اس احتجاج کے توڑ کے طور پر حکومت نے آج راولپنڈی میں ایک جلسہ کیا جو تعداد کے لحاظ سے بقول شيخ رشيد جلسی لگتا تھا حالانکہ شيخ رشيد نے آج اسے جلسی کہنے کی بجائے بہت بڑا جلسہ کہا کیونکہ یہ ان کا جلسہ تھا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ سارے شہر میں سرکاری چھٹی کرنے، پبلک ٹرانسپورٹ کو جلسے کے استعمال کیلیے دو دن پہلے سے تھانوں میں بند کرنے، اخباری اور دیواری اشتہاروں پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باجود حکومت صرف سات سے دس ہزار تک لوگ جلسے میں لاسکی۔ حالانکہ اس سے پہلے جو جلسے لیاقت باغ میں ہوتے رہے ہیں ان کی تعداد لاکھوں میں ہوا کرتی تھی۔ یہ مانا کہ حکومت کا جلسہ حزب اختلاف سے بڑا تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ وہ اپنی مقبولیت کے دعوے کرنے شروع کردے۔ ان سات سے دس ہزار لوگوں میں خفیہ والے کتنے تھے یہ صرف حکومتی اہلکار ہی جانتے ہوں گے اور یہی خفیہ لوگ حزب اختلاف اور حکومت کے جلسوں کی تعداد میں اصل فرق تھے۔ جنرل صدر پرویز مشرف صاحب کو جلسے میں شریک لوگوں کی تعداد سے اپنی مقبولیت کا اندزاہ کرلینا چاہیے اور اگلے الیکشن میں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو ابھی سے کوئی حکمت عملی ترتیب دینی شروع کردینی چاہیے۔ ہم انہیں یہ بھی مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے حواریوں اور مشیروں کے بھروسے پر نہ رہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو جنرل صاحب کے ہارنے کی صورت میں انہیں چھوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
حزب اختلاف اور حکومت کے جلسوں میں عوام کی محدود تعداد کی شرکت سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستانی عوام اب باشعور ہوچکے اور وہ ان جلسوں کی اہمیت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ ان کے نزدیک ان جلسوں میں شرکت کی بجائے گھر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا زیادہ فائدہ مند ہے اس طرح وہ جلسے کی کھجل خواری سے بھی بچ جاتے ہیں اور اپنا وقت بھی ضائع نہیں کرتے۔شاید اب لوگ یورپین ٹی وی پروگرام دیکھ دیکھ کر اس بات کے قائل ہونا شروع ہوچکے ہیں کہ سرعام جلسے کرنا وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اب تو لیڈروں کو بھی اپنی روش کو بدل لینا چاہیے اور جلسوں کی بجائے ٹی وی کے ذریعے اپنے پیغام کو عوام تک پہنچانا چاہیے۔
ہمیں سیاسی جلسوں کی خبروں میں سے سب سے اچھی خبر ان کی جھلکیاں لگا کرتی تھیں جو اب خال خال ہی چھاپی جاتی ہیں۔ پہلے ہر جلسے کی جھلکیوں میں جہاں جلسے کی خاص خاص باتیں درج ہوتی تھیں وہیں کچھ مزاح کا پہلو بھی نکالا جاتا تھا۔ مگر اب خشک سیاستدانوں کی طرح جلسوں کی رپورٹنگ بھی خشک ہوتی جارہی ہے۔ اب رپورٹنگ میں صرف تقاریر کے خلاصے رپورٹ کیے جاتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اگر اس جلسے کی جھلکیاں بنائی جاتیں تو وہ اس طرح ہوتیں۔
سٹیج سیکریٹری کے فرائض اداکار شجاعت ہاشمی نے ادا کئے۔ جلسے کی جگہ کے اوپر دو ھیلی کاپٹر چکر لگاتے رہے اور جونہی کوئی ہیلی کاپٹر سر کے اوپر آتا لوگ پرویز مشرف کے نعرے لگانے شروع ہوجاتے “سید سید سید” “دیکھو دیکھو کون آیا، جرنیل جرنیل آيا” “پرویز مشرف آئی لو یو” گرمی کی وجہ سے لوگ پیاس سے بلکتے رہے اور یہ نعرہ بھی لگاتے رہے “پانی پانی پانی پانی”
اس جلسے کی خاص بات لئ ایکسپریس وے کا افتتاح تھا۔ حکومت نے نالہ لئ کے دونوں اطراف کسی اشارے کے بغیر جو سڑک بنانے کے منصوبے کا آغاز کیا ہے ہم اسے اس کے اچھے کاموں میں سے ایک اور اضافہ قرار دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ لئ ایکسپریس وے کے افتتاح کیلیے جلسہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر بھی حکومت کے اس اچھے منصوبے سے راولپنڈی کی ٹریفک کا نظام فعال کرنے میں مدد ملے گی۔ امید ہےیہ ہائی وے وقت پر مکمل ہوجائے گی اور راولپنڈی والے جب بھی اس ہائی وے کو استعمال کریں گے یا مری روڈ کی ٹریفک میں نہیں پھنسیں گے تو جنرل صدر مشرف اور شیخ رشيد صاحب کو ضرور یاد کیا کریں گے۔ شيخ رشيد کو اسلیے کہ جنرل صدر مشرف نے لئ ایکسپریس وے کو شيخ ریشید ایکسیرپس وے کا نام دے دیا ہے۔
3 users commented in " حکومت کا جلسہ اور لئ ایکسپریس وے کا افتتاح "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackدو وضاحتیں صروری ہیں ۔ پیر 26 مارچ سے دو دن پہلے سے ہی حزبِ مخالف کے رہبروں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شرع کر دی گئی تھیں ۔ راولپنڈی اسلام آباد کے متحدہ مجلسِ عمل کے دونوں رکن قومی اسمبلی پہلے سے ہی گرفتار ہیں ۔ اتوار 25 مارچ کو ہی راولپنڈی اسلام آباد کی ناکہ بندی کر دی گئی تھی ۔ راولپنڈی کے نمبر والی کار اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکتی تھی اور دوسرے شہروں کے نمبر والی کاریں راولپنڈی یا اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکتی تھی ۔ 26 مارچ کو پورے پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے 4 سے زیادہ آدمی کسی جگہ بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے ۔ 27 مارچ کے سرکاری جلسہ کیلئے کوئی ایک ہزار گاڑیاں دو دن پہلے ہی پکڑ لی گئی تھیں ۔ پھر سکول اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر بند کر کے حکم دیا گیا کہ تمام اساتذہ اور ملازم کو جلسہ می لایا جائے ۔ اس کے علاوہ تمام پٹواریوں کو پچاس پچاس آدمی لانے کا حکم دیا گیا ۔
جہاں تک لئی ایکسریس وے کا تعلق ہے جو پلاننگ ہوئی تھی اس کے برخلاف اعلان کیا گیا ہے اور اس سڑک کا مقصد صرف اسلام آباد میں نئے بننے والے جی ایچ کیو کو آرمی ہاؤس سے ملانا ہے ۔مجھے تو یہ صرف ایک سیاسی بیان لگتا ہے جس کی بنیاد کچھ نہیں اور نہ یہ اگلے دس سال میں بن سکے گا ۔
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے
وہ حاکم اور محکوم کا فرق بتانا چاہتے ہيں اور ہم شايد سمجھنا ہی نہيں چاہتے کُچھ بھی ،رہی بات بُلند بانگ دعووں کی تو
وہ وعدہ ہی کيا جو وفا ہو گيا
وہ بھی جانتے ہيں اور ہم بھی کہ ان وعدوں کي کيا حقيقت ہے ؟اور صرف چند سو کا مجمع اکٹھا کرکے اگر يہ سمجھا جا رہا ہے کہ عوام کو بيوقوف بنا ليا ہے تو يہ تو ناسمجھی والی بات ہے جبکہ پورے شہر کو قلعہ بند کرکے سياست کی دُکان سجائ گئ ہے ايسا کرنے سے کيا يہ ثابت کيا گيا کہ عوام بالکُل ہی عقل سے پيدل ہے حالانکہ ايسا ہے نہيں
مجھے تو اپنی ٹرانسپورٹ کے لالے پر گئے تھے، شکر ہے گاؤں چلا گیا تھا۔ یہ ڈرامے بازیاں اب سب کو پتہ ہیں۔ راولپنڈی سے اسلام آباد آنے والی’’1‘‘نمبر ہائی ایس والے سارے مشرف کو کوس رہے تھے۔
سڑک کو شیخ رشید ایکسپریس نام دینے پر ایک رکنِ پنجاب اسمبلی نے کیا خوب بات کہی، ’’نالہ لئی ایکسپریس کو شیخ رشید ایکسپریس کا نام دیکر اچھا کیا گیا کیونکہ نالہ لئی اور شیخ رشید میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ 🙂
Leave A Reply