آج کل جتنا افراتفری کا دور پاکستان میں اب ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ حزب اختلاف صرف ایک دو سیاستدانوں تک سمٹ چکی ہے۔ ملک میں بیرونی مداخلت بڑھ چکی ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے عام آدمی کا جینا محال کر رکھا ہے۔ حکمران معمول کی طرح عوامی مشکلات سے آنکھیں چرائے غیروں کی چاکری کر رہے ہیں اور مال سمیٹ رہے ہیں۔ پنجاب تمہارا اور مرکز ہمارا کے معاہدے پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ اگر کوئی شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کی طرح آواز اٹھاتا بھی ہے تو کوئی ان کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ عوام پیٹ کی بھوک مٹانے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ ان کے پاس حکمرانوں کا احتساب کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔
اس بے قابو حال کی جو کھچڑی پک رہی ہے وہ کتا کھا جائے گا کیونکہ عوام تو ڈھول بجا رہی ہے۔ کتا کون ہے؟ کتا وہ ہے جو یہ کھچڑی کھائے گا۔
8 users commented in " کھچڑی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackشکر ہے جی
آپ خیرو خیریت سے ہیں۔
کتاکھچڑی کھانے آجائے گا جی۔
بلکہ کتوں کے ٹولے موجود ہیں
یعنی۔آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا۔
“عوام پیٹ کی بھوک مٹانے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں۔ ”
مگن سے مگن ہیں ۔ انہماک ہے کہ ٹوٹتا نہیں۔ یا پھر یہ سمجھ لیں کہ جس طرح آدم خوو دیو ٹھکانے پہ کسی انسان کے ناگہانی طور پہ پھنس جانے پہ آدم بُو آدم بُو پکار اٹھتا ہے۔ اسطرح بھوکے عوام روٹی روٹی پکارتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں اوپری طبقے نے جس میں ہر قسم کے بے غیرت لوگ شامل ہیں۔ اس طبقے کا بس چلے تو عام آدمی سانس کے لئیے جو آکسیجن استعمال کرتا ہے۔ اس آکسیجن پہ بھی اگر کسی طرح انکا کنٹرول ہو جائے تو یہ کم ظرف طبقہ عوم کو سانس بھی اپنی مرضی سے لینے دے ۔ آکسیجن جو خداد ہے۔ غلہ جو خداد ہے۔ زمین جو خدا کی ہے اس پہ اگنے والا اناج جو خداد ہے۔ ملک جو زراعتی ہے۔ عوام جسکا بیشتر حصہ زراعتی ہے اور انکا زراعت پہ انحصار ہے۔ انھیں اس اس ملک مین دو وقت کی باعزت روٹی پیت بھر کر نصیب نہیں ہوتی۔ اور بقول آپکے وہ عوام پیٹ کی بھوک مٹانے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں۔ اتنے مگن کہ ملک کے اوپری طبقے میں جس میں سیاستدان، بے غیرت اشرافیہ۔ بیوروکریٹس، ٹیکنوکریٹس، الغرض قسم کے کم ظرف لوگ شامل ہیں۔ جن کی بلیوں اور کتوں کا علاج اسپشیل کلینکس سے ہوتا ہے۔ جن کی خوراکیں یوروپ اور امریکہ سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ جن کے دیسے گھوڑے ولائیتی چینی کے مربعے کھاتے ہیں۔ اور عوام بھوک کے ہاتھوں بچوں سمیت میانر پاکستان کی بلندیوں سے کود کر پاکستان کی غلامی پہ مبنی آزادی کو خیرباد کہتے دائمی آزادی پا جاتے ہیں۔ اور آپ کہتے ہیں عوام پیٹ کی بھوک مٹانے میں اتنے مگن ہو چکے ہیں۔
ریاست کا تصور قدیم یونان سے لیکر آج تک مہذب معاشروں میں عوام کی سہولت کے لئیے ہے۔ مگر یوں لگتا ہے پاکستان بننے سے ریاست کے ایک نئے مفہوم نے جنم لیا ہے جس میں ریاست ایک خاص اور بے غیرت طبقے کے لئیے قائم کی گئی ہے۔ جس میں عوام یا رعایا بادشاہوں کے لئیے قربان کی جارہی ہے۔
بہرحال آپ کی خیریت ، سلامتی سے واپسی پہ خوشی ہے اور آپ کو مبارک ہو۔
جو کھچڑی پک رہی ہے اسے سیاسی کھچڑی کہتے ہیں ۔ تیار ہونے کہ بعد اسے کوئی آمرہی کھاسکتا ہے۔
جناب ۔ جنہيں آپ عوام کہہ رہے ہيں اُن کی اکثريت اپنی اپنی ہمت کے مطابق مال اکٹھا کرنے پر لگی ہے ۔
مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ’صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں ۔۔ہمیں پنجاب سے زیادہ پاکستان پیارا ہے۔۔ سرائیکی، بہاولپور اور پوٹوہار صوبے بننے چاہیے۔ ’پنجاب کے بڑے صوبے ہونے کی وجہ سے ہی مارشل لا لگتے ہیں کیونکہ فوج میں اکثریت پنجاب کی ہے اور وہ ان کے خلاف نہیں اٹھتے۔ ان کے بقول صوبہ خیبر پختونخواہ کا بھی فوج میں حصہ ہے لیکن بلوچستان اور سندھ بھگتے ہیں۔
’ہم نے ملک توڑ دیا لیکن بنگالیوں کا مطالبہ نہیں مانا۔۔ بلوچستان میں بھی حالات خراب ہیں اور چند برسوں میں وہاں خون کی ندیاں بہیں گی۔‘
جاوید ہاشمی نے میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران پارٹی کو سنبھالا اور پرویز مشرف پر کڑی تنقید کی وجہ سے بغاوت کے مقدمے میں جیل چلے گئے۔ اس دوران چوہدری نثار علی خان اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ جب سنہ دو ہزار آٹھ میں انتخابات ہوئے تو جاوید ہاشمی کے بجائے پارٹی میں چوہدری نثار کی اہمیت بڑھ گئی اور ہاشمی پیچھے چلے گئے۔ ان کے بعض ساتھیوں کے بقول پارٹی میں نظر انداز کیے جانے پر انہیں گزشتہ برس برین ہیمرج ہوگیا۔
جاوید ہاشمی نے ضیاء دور کی معافی اب مانگی ہے جب اقتدار سے مناسب حصہ نہیں ملا ۔ فالج کا اٹیک ہوچکا ہے۔ کھایا ہوا ہضم نہیں ہوتا۔ چلنے کی طاقت جسم میں نہیں رہی۔ اور برین ہیمرج کے بعد رخت سفر نظر آرہا ہے۔ اور کوئی وقت جاتا یے جب لاد چلے گا بنجاراہ تو جاوید ہاشمی کو قوم کے ساتھ روا رکھے گئے اپنے گانہ یاد آئے ہیں۔ قوم سے معافی مانگ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب اس طرح کے گناہ ملک کے حکمران اپنے اقتدار کے عین عالم شباب میں کر رہے ہوتے ہیں تو تب انھیں یہ احساس کیوں نہیں جاگتا کہ جو وہ کر رہے ہیں حکمران طبقے سے ہونے کی وجہ سے انکی معمولی معمولی غلطیاں قوم ملک کے لئیے نقصان عظیم ہونگی ؟۔
جبکہ یہ لوگ اپنے اقتدار کے عین عالم شباب میں اپنے آپ کو خدا سے کسی طور کم نہیں جانتے۔ اور نواز شریف اور دیگر کو بھی مفت مشورہ دے رہے ہیں۔
اسی طرح کچھ سالوں بعد نوازشریف بھی رخت سفر سامنے دیکھ کر ۔ جب لادنے لگے گا بنجارہ ۔جانا تو ایک دن سب کو ہے۔ موصوف کی تجویز پہ عمل کرتے ہوئے مشرف دور کی معافی قوم سے مانگیں گے۔ ۔ مگر یہ سب یہ کیوں بھول جاتے ہیں ۔ کہ عام آدمی کی غلطی اور ایک حکمران کی غلطی میں بہت فرق ہوتا ہے اسلئیے یہ معافی مانگنا ایک ڈرامہ ہے۔ جب ایک آدمی غلطی کرتا ہے تو وہ اسکی عام آدمی سے ایک غلطی ہوتی ہے۔ مگر جب ایک حکمران طبقے کا فرد غلطی کرتا ہے تو اسے پوری قوم بھگتتی ہے ۔ اسلئیے کیا بہتر نہ ہوتا یہ ایسی غلطیان کرتے ہی نہیں۔ جب یہ لوگ ایسی غلطیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ تو اسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہوتی ہے۔ اور کئی عشرے بھگتی ہے۔ انکی غلظیوں سے جو آمروں کو پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ جو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور اسکے بدلے جو پاکستان میں غریبی ، ناانصافی، اور عدم جمہوریت کی وجہ سے ملک کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا۔ قوم بھوک کے ھاتوں خود کشیاں کرنے پہ مجبور ہے۔ جب اقتدار میں سے مناسب حصہ نہ ملے اور رخت سفر باندھنے کا وقت آن پہنچے تو ایسے میں اسکا مداوا ایک غلطی تسلیم کر لینے سے ہوسکتا ہے؟۔
قبر ميں تو جماعت اسلامى كے منافقين كا بهى حساب هو گا .. .. گوندل صاحب
Leave A Reply