آج کل ملک میں نئے صوبے بنانے کی بحث چلی ہوئی ہے۔ ہمیں یاد ہے حکمران اگلے انتخابات سے قبل انتخابات جیتنے کیلیے قومی اسمبلی کے حلقوں کی تقسیم میں ردوبدل کرتے رہے ہیں۔ اب یہی طریقہ پنجاب میں آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے تا کہ بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب کی ادارہ جاری ختم کی جا سکے۔ آج سے پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے سندھ میں بھی صوبے بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ جس طرح پنجاب میں مزید صوبے بنانے کی تلملاہٹ مسلم لیگ ن کو ہوئی ہے اسی طرح سندھ میں نئے صوبے بنانے پر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی تلملا اٹھی ہیں۔ کیونکہ سب کو فکر اپنے اپنے حلقوں کی ہے۔ مجال ہے جو ایک بھی پارٹی کی سوچ صوبے بنانے میں مثبت ہو۔ سب اپنی اپنی ذات کے فائدے کیلیے مزید صوبوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ اس طرح ملک مزید علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے گا۔ انہیں صرف اس بات کی فکر ہے کہ ان کے حلقوں کی تقسیم اس طرح نہ ہو کہ وہ اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی کی سیٹیں گنوا بیٹھیں۔ واہ ری خود غرضی تیرا اللہ ہی بیڑہ غرق کرے۔
5 users commented in " نئے صوبے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackتانگہ پارٹیوں کو اپنی سیاسی زندگی کو سنبھالنے کا ایک نیا بہانہ مل گیا ہے۔ پاکستان کی سالمیت کے دشمنوں کو کئی ایک نئے بگلہ دیش ایک ساتھ بنانے کے سنہری موقعے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ اور یہ نفرتوں کا بیج دلوں میں بیج رہے ہیں۔
پاکستانی سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بغض معاویہ نکلانے کا آسان مگر پاکستان کی سالمیت کے لئیے انتہائی خطرناک زریعہ مل گیا ہے۔
اگر سیاسی مقاصد سے قطع نظر محض انتظامی طور پہ نئے صوبے ، ضلعے یا حلقے بنا دئیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہئیے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کے ہر بیان کے پیچھے محض اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔
اسلئے پاکستان کا ہر ایرا غیرا اور نتھو خیرا تقسیم در تقسیم کی بات کرتا ہے کہ اپنی دیڑھ ڈیڑھ اینٹ کا الگ مندر بنا کر اس پہ اپنا ذاتی اقتدار قائم کر سکے۔اور یہ ایک ایسا عمل ہے کہ موجودہ صورتحال پہ اسکے انتہائی خطرناک نائج سامنے آئیں گے۔ کیونکہ جس مک میں غریبی کا عفریت زندہ انسانوں کو نگل رہا ہو وہاں بھٹو کا مقدمہ ری اوپن کرکے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ذریعے سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے وفاق کو بیلک میل کرنا، امتناع قادیانیت، اور توہین رسالت جیسے قوانیین سے بغیر کسی وجہ کے چھیڑ چھاڑ کرنا۔ اعلٰی عدالتوں کے واضح فیصلوں پہ ٹال مٹول سے کام لینا۔ اور دیگر شرراتیں محض اصل مسائل لو جنہیں حل کرنے کے لئیے یہ حکمران اتنے بڑے بڑے مناصب پہ بیٹھے پوری تنخواہ لے رہے ہیں۔اور بندر بانٹ کے ذریئیے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں دے رکھا ہے۔ ایسے میں پنجاب کی تقسیم محض اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کی سازش کے سو کچھ نہیں۔جسکے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لئیے نہائت خوفناک ہونگے۔
البتہ پہلے عوام کے جائز مسائل حل کر کے انھیں روزی روٹی تعلیم پانی بجلی گیش چاول آٹا دانہ “روٹی کپڑا مکان ” اور با عزت روزگار مہیاء کرنے کے بعد عوام سے سکون کے ساتھ ریفرنڈم کے ذریعیے رائے لی جاسکتی ہے۔ کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔آیا وہ سندھ ، پنجاب بلوچستان اور پختون خواہ کی مزید تقسیم چاہتے ہیں یا نہیں؟ اس سے پہلے ایسا کرنا اسی شاخ کو کاٹنا ہے جس پہ سب کا بسیرا ہے۔
جہاں تک اصول کی بات ہے کہ اگر پنجاب کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تو سندھ کے مسائل تو فوری نوعیت کے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لئیے سندھ زیریں اور سندھ بالائی دو صوبے بننا ضروری ہیں ۔اور کراچی کو ایک الگ صوبہ بنایا جانا بھی درست ہے تانکہ کراچی میں جاری دہشت گردی جس میں روزانہ درجنوں انسان بھتہ خوروں اور ایک مخصوص لسانی تنظیم کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس سے مخلوق خدا کو نجات دی جاسکے۔ اسی طرح خیبر پختون خواہ میں ہزاروال صوبہ بھی بننا چاہئیے تاکہ عوام کو انتظامی معاملات نزدیک ہی حل ہونے سے سہولت ہو۔ اور بلوچستان جو رقبے میں اسقدر بڑا ہے اس میں بھی دو یا تین صوبے ہونے چاہئیں۔ تاکہ لوگوں کو اس قدر دور اور دشوار کوئٹہ یاترا سے نجات ملے۔
سیاسی لحاظ سے اسکا فائدہ یہ بھی گا کہ صوبوں سے جڑی عصبیت بھی تقسیم ہو کر ختم ہوجائے گی۔
افغانستان میں ہر ضلع ایک صوبے کا درجہ رکھتا ہے۔ اسپیں میں بھی ہر ضلع ایک صوبہ گنا اور سمجھا جاتا ہے۔جس سے انتظامی معاملات جلد اور آسانی سے حل ہوتے ہیں۔
مگر اس کے لئیے پاکستان کے بکاؤ مال سیستدانوں کی خود غرضی اور بغض معاویہ کو اصول نہیں مانا جانا چاہئیے بلکہ اسے صرف اور صرف مخلوق خدا کے فائے کے حوالے سے محض انتظامی سہولت کے طور پہ کیا جانا ضروری ہے۔
اسلئیے سندھ کی تقسیم بھی اتنی ہی مفید ثابت ہوگی جتنی پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی۔ مگر اس کے لئیے پاکستان کے عوام کیکواہش کو پیمانہ مانا جانا ضروری ہے۔ اور اگر پاکستان کے خود غرض سیاستدانوں اور بھتہ خور لسانی تحریکوں کے قسم قسم کے قائدوں کے ہاتھ میں یہ معاملہ دیا گیا تو پاکستان کا حشر وہی ہوگا جو بندر کے ہاتھوں ناریل کا ہوتا ہے۔
پنجاب کی تقسیم سب سے پہلے ضروری ہے ،کیونکہ پنجاب کا بڑا ہونا پاکستان کے مسائل کی جڑ ہے،انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے پنجاب کےٹکڑے کر کے اسے باقی صوبوں کے برابر لایا جائے ،(سارے کرپشن کی جڑ بھی یہی بات ہے ،پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں جرائم کی شرح بھی اسی لیئے زیادہ ہے)اس کے بعد رفتہ رفتہ انتظامی لحاظ سے صوبے بنائین جائیں!!!!!
پہلے پنجاب کےٹکڑے کر کے اسے باقی صوبوں کے برابر لایا جائے ،(سارے کرپشن کی جڑ بھی یہی بات ہے ،پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں جرائم کی شرح بھی اسی لیئے زیادہ ہے)
سیانے کہتے ہیں منہ اچھا نہ ہو تو انسان کو بات تو اچھی کرنی چاہئیے۔ پیر لنڈن کے چیلوں کا یہ ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ پاکستان کو مختصر کیا جائے۔ بھارت میں جاکر پیر لنڈن نے پاکستان کے متعلق جو بے غیرتی کا مظاہرہ کیا ہے ” پاکستان کو تاریخ کا بہت بڑا بلنڈر ” کہا ہے تو لعنت ہے ایسے پیر اور اسکے چیلوں پہ جو اس کے باوجود اقدر ڈھٹائی سے پاکستان کو مختصر کرنے کی بات کرتے ہیں اور پناجب کو بھی محض اسلئیے “ٹکڑے ٹکڑے” کرنے کی بات اسطرح بے ہودگی سے محض اسلئیے کرتے ہیں کہ “ڈبا پیر آف پناہ گیرِ لنڈن” کی مسخرے بازی کو پنجاب میں کوئی جوتے کی نوک پہ بھی نہیں رکھنا چاہتا، زارا ان بے غیرتوں کے پنجاب کے بارے میں لبہ لہجہ تو دیکھئے۔ کہ پنجاب کے “ٹکڑے ٹکڑے” کرنا ضروری ہے۔
“کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ”
http://www.youtube.com/watch?feature=player_embedded&v=zhRZAY6Rjdg&gl=ES
جتنا مرضی کڑ کڑ کر لو صوبے تو بنیں گے انشاء اللہ،
اور جو میں نے لکھا ہے سارا میڈیا اور اس ملک کے تمام سمجھدار عوام اس حقیقت کو جانتے اور مانتے ہیں بس چند مفاد پرستوں کو چھوڑ کر۔۔۔۔!!
تمام غداران پاکستان کو لائن میں کھڑا کر کے گولی سے اڑا دینا چاہیے۔۔۔ یا پھر ان پر ڈرون حملہ ہونا چاہیے جو ان کو تنکوں کی طرح بکھیر دیے
Leave A Reply