پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی پروگراموں میں لوگ عمران خان کو اپنا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ لوگ پی پی پی اور مسلم لیگوں سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ ان کی نفرت میں بھی لوگ عمران کو ووٹ دیتے نظر آتے ہیں۔ لوگ کسی نئے چہرے کی تلاش میں ہیں اور فی الحال عمران ہی ان کیلیے امید کی کرن نظر آ رہے ہیں۔
سابقہ انتخابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو 1970 کے انتخابات کے علاوہ باقی تمام انتخابات طے شدہ تھے۔ اس دفعہ بھی اگر انتخابات فوج کی زیر نگرانی میں ہوئے تو عمران خان کے اسی طرح جیتنے کے امکانات ہیں جس طرح 1970 کے انتخابات میں بھٹو جیتے تھے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں اور انتخابات میں دھاندلی کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ کوئی معجزہ ہی ملک میں شفاف انتخابات کرا سکتا ہے۔ وگرنہ وہی جیتے گا جس کے سر پر سرخاب کا پر ہو گا۔ ہو سکتا ہے اس دفعہ انتخابات میں دھاندلی لوگ برداشت نہ کر پائیں اور قومی اتحاد کی طرح کی تحریک کے بدلے میں عمران خان کو حکومت ملنے کی بجائے فوج دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔
کیا عمران خان اگلے انتخابات جیت جائیں گے؟ کیا عمران خان میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ اپنی سربراہی میں تحریک انصاف کو انتخابات میں کامیاب کرا سکیں گے؟ کیا عمران خان میں اتنی سوجھ بوجھ ہے کہ وہ انتخابی مہم اتنی کامیابی سے چلائیں گے کہ لوگ صرف انہی کو ووٹ دیں؟
براہ مہربانی آپ بھی ہمارے سروے میں حصہ لیں اور عمران خان کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دیں۔
13 users commented in " عمران خان – واحد حل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعمران میں لیڈر شپ کی خوبیاں تو ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے ان کو ٹیم اچھی نہیں ملی ابھی تک
عمران اس وقت دستیاب آپشنز میں سے سب سے بہتر ہے۔ ہر چیز اس کی ٹھیک نہیں مگر سب سے اہم چیز یعنی نیت ٹھیک ہے۔
فوج کی زیر نگرانی انتخابات کے بارے میں آپ نے خوب کہی
واقعی اگر فوج کی زیر نگرانی ہوئے تو جیت کے امکانات ہیں۔
کیونکہ فوج ہی وہ واخد ادارہ رہ گیا ہے جو کرپشن سے بالکل ہی پاک ہے ۔ سب کے سب فرشتہ سیرت ہیں۔ سیاست کی گندگی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اور نہ ہی یہ لوگ صحافیوں کو چن چن کر مارتے ہیں۔ مشرف بھی ان کا ایک فرشتہ سیر ت جرنیل تھا۔ جو بہت سے دعائیں لے کر رخصت ہوا۔
کیا بات ہے صاحب
آپ اور ہم اگر زندہ رہے تو دیکھ لیںگے کہ کون کامیاب ہوتا ہے
فوج سب سے گھٹیا ادارہ ہے۔ شازل اور فارغ دونوں کی بات درست ہے۔
گو کہ اس وقت عمران خان ہی ایسے شخص ہیں جو اپنے قول کے اعتبار سے سب زیادہ کھرے ہیں اور اُن کا سابقہ ریکارڈ بھی ٹھیک ہی ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن سے نظام میں تبدیلی آسکتی ہے۔ سو فی الحال میں تو پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہوں۔
صاحب، یہ جمہوریت ایسا کھیل ہے جس میں فرد واحد کی نہیں چلتی۔ اگر حکمران یعنی صدر یا وزیر اعظم بد عنوانی کا شوق رکھتے ہیں، مگر پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت ایماندار ہے تو ان کی نہیں چلنی اور نظام ٹھیک رہے گا۔ اس طرح اگر آپ کا راہنما ایماندار ہے، یا اس کی نیت ٹھیک ہے مگر جن بیساکھیوں کی مدد سے وہ اس مقام تک پہنچا ہے وہ اگر اس سے متفق نہیں تو بھی کام نہیں چلے گا۔
عمران کے پاس اکثر گمنام، یاناتجربہ کار لوگ ہیں اور ہم پاکستانی ابھی شعور کی اس منزل تک نہیں پہنچے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے ووٹ کے حقدار کو ترجیح دیں۔ لہذا اگر انتخابات شفاف ہوئے بھی تو عمران کے نہ آنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے انتخابات میں دھاندلی کی صورت میں۔ مجھے عمران کی سیاست سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی نواز شریف ، آصف زرداری یا الطاف حسین کی سیاست سے۔ لہذا یہ جیتتا ہے یا ہارتا ہے مجھے فرق نہیں پڑتا۔
بالفرض عمران جیت بھی جائے، تو کیا ہمارے ذخیرہ اندوز تائب ہو جائیں گے؟ کیا ملاوٹ کا عمل رک جائے گا؟ کیا سرکاری ملازمین اپنے فرائض احسن طریق سے سر انجام دیں گے؟ کیا سیاست دان ذاتی مفاد کے لئے علاقائی اور لسانی فسادات بھڑکانا بند کر دیں گے؟
اگر ہاں تو ان اس وقت کیا چیز روک رہی ہے ، اگر نہیں ۔۔۔۔ تو ۔۔۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کی جڑ کہاں پر ہے۔ ایک مرتبہ مسئلے کی جڑ دریافت ہو گئی، پھر ہمیں شخصیت پرستی پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ساری زندگی آوی ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے لگتے رہیں گے۔
موجودہ دور میں عمران خان ہی پاکستان کو تمام بحرانوں سے نکال سکتے ہیں
منیر عباسی صاحب
ہمارے معاشرے کو انقلاب ہی اب ٹھیک کر سکتا ہے اور انقلاب کیلیے لیڈر کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر لیڈر ٹھیک ہو تو اس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں۔
مسئلے کا حل سب کو معلوم ہے مگر ذاتی مفادات سب کے آڑے آتے ہیں۔ اس کا علاج ایماندار اور صالح لیڈر ہی کر سکتا ہے۔
معذرت۔
یہ انقلاب والی ڈگڈگی میری سمجھ میں نہیں آتی۔ انقلاب جو اوپر سے لایا جائے اکثر ناکام ہوتا ہے، انقلاب جس میں پوری قوم شامل ہو کامیاب رہتا ہے اور انقلاب راتوں رات نہیں آتے۔ ان کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔
مجھے ایک بھی ایسا سیاسی انسان نظر نہیں آ رہا جو انقلاب کے لئے جد و جہد کر رہا ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے اقتدار ایسی گیدڑ سنگھی ہے جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے اور بجائے اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے ہر سیاستدان دوسروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا ہوا ہے کہ جیسے ہی اقتدار ملا سب کی کایا ایک دم پلٹ جائے گی۔
صاحب، میرے آس پاس جو عوام ہے، جس سے میرا تعلق ہے، ملنا ملانا ہوتا ہے ، اگر اسی کو نمونہ سمجھ لی جائے تو یقین کر لیجئے کہ ہم انقلاب کے معنوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم بحیثیت قوم ایک ایسے انقلاب کے لئے تیار ہی نہیں ہیں جس سے اس ملک کی تاریخ کو بدلا جا سکے۔
رہ گئی آپ کی بات تو میں اس سے ابھی بھی متفق ہوں کہ ایک ایماندار اور صالح حکمران ہی ہمارے بنیادی مسائل ختم کر سکتا ہے۔
imran is last hope for pakistan
رہ گئی آپ کی بات تو میں اس سے ابھی بھی متفق ہوں کہ ایک ایماندار اور صالح حکمران ہی ہمارے بنیادی مسائل ختم کر سکتا ہے۔
ایماندار اور صالح عوام ہوگی تو ایماندار اور صالح حکمراں کا انتظام بھی اللہ تعالی خود ہی کردیں گے!!!
اللہ رب العزّت سے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو اتنی توفیق دے گا کہ آنے والے انتخابات میں بھر پور طریقے سے جیتے گا۔ گو کہ اُن کے پاس ٹیم نیی اور ناتجربہ کار ہے لیکن 1970 میں پیپلز پارٹی اور 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی لوگ یہی کہتے تھے کو وہ نیی پارٹیاں ہیں۔ اس دفعہ بھی اُسی طرح ارض پاکستان کے غیور عوام ایک نیی تبدیلی کا عظم کیے ہوءے ہیں اور انشاء اللہ عمران خان ہی وہ واحد انسان ہیں جو کہ ایک مثبت سوچ رکھنے والا دوسرے سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے اور جوانشاء اللہ صحیح معنوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ اللہ تعالیٰ عمران خان کو ہمیشہ ایسا ہی سچ بولنے والا، نڈر اور بے لوث خدمت کرنے والا رکھے کیونکہ پاکستانیوں کی یہی ایک اُمید ہے اور اگر اب بھی ہم نہ بدلے تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ًاب پچھتاءے کیا ہوت جب چڑیا چُگ گیں کھیت۔
Leave A Reply