جس طرح نام کے مسلمان ہوتے ہیں اسی طرح رمضان کے مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ آج کے مسلمانوں کی اکثریت رمضان کے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ مسلمان رمضان کا چاند نظر آنے پر پہلے دن تراویح کیلیے اس طرح مساجد کی طرف دوڑ لگاتے ہیں جیسے وہاں کھیر بانٹی جا رہی ہو۔ ہماری مسجد میں بھی پہلی رات کی تراویح پر اتنا رش تھا کہ مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ لوگوں کو مسجد کے کافی دور پارکنگ ملی۔ جوں جوں دن گزرتے جائیں گے مساجد میں تراویح پڑھنے والے مسلمانوں کا رش کم ہوتا جائے گا۔ یہ رش پھر بڑھے گا جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گا۔ تب مساجد میں ختم قرآن پر مٹھایاں بانٹی جائیں گی۔ لوگ اعتکاف بیٹھیں گے اور محلے دار ثواب دارین کیلیے ان کی سحری اور افطاری کیلیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگ جائیں گے۔
پھر رمضان ختم ہونے کیساتھ ہی ان عبادات کا زور بھی ٹوٹ جائے گا اور مساجد میں پھر سے صرف بوڑھے ریٹائرڈ نمازی بچ جائیں گے جن کی مدد سے بمشکل ایک یا دو صفیں بھری جائیں گی۔ باقی مسلمان اپنی دنیا میں مگن ہو جائیں گے اور پھر سے وہی فراڈ، دھوکہ دہی، ملاوٹ اور بے ایمانی کا بازار گرم ہو جائے گا۔
رمضان سے ایک دن قبل ہمارے ہاں یوم آزادی کا میلہ لگایا گیا۔ میلے کے آخر میں میوزیکل پروگرام تھا جس میں گلوکار احمد جہانزیب نے شرکت کی۔ احمد جہانزیب کے گانوں کا ردھم بن چکا تھا، مسلمان ہے جمالو اور جگنی پر رقص کر رہے تھے کہ کسی مسلمان نے احمد جہانزیب کی توجہ مغرب کی نماز کی طرف دلوائی۔ اس نے حیرانگی سے پوچھا کیا ابھی مغرب کی نماز ہونی ہے۔ ڈھول دھماکے بند ہوئے اور اسی سپیکر پر اذان کی آواز گونجنے لگی۔ احمد جہانزیب ساتھ والے دروازے سے باہر کھسک گیا اور مسلمانوں نے باجماعت نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ ابھی دعا ختم ہی ہوئی تھی کہ احمد جہانزیب پھر سٹیج پر نمودار ہوا اور موسیقی پر مسلمان پھر سے رقص کرنے لگے۔
اس تقریب کو آپ رمضان کے مسلمانوں کی ریہرسل کہہ سکتے ہیں۔ یعنی رمضان سے پہلے جی بھر کر گناہ اور رمضان میں خدا کے حضور پیشگی اور اس کے بعد پھر گناہوں کے سمندر میں غوطے۔ آج کل کے مسلمانوں کا حال کچھ اسی طرح ہے۔ یہ ناں سارے خدا کی طرف ہیں اور ناں دنیا کی طرف۔ ان کی اسی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی روش انہیں ذلیل کر رہی ہے۔ مسلمان تبھی دوبارہ عروج حاصل کریں گے جب ان کے بارہ مہینے رمضان جیسے ہوں گے۔
7 users commented in " رمضان کے مسلمان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackگستاخی معاف،
کیا آپ کے بارہ مہینے رمضان جیسے ہیں؟؟؟؟؟
🙂
جی ہاں، یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ ہم نے رمضان کے خدا کا تصور دوسرے مہینوںکے خدا کے تصور سے جداگانہ بنایا ہوا ہے۔ اس لئے رمضان میں ہم مسلمان بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیںرمضان کا حقیقی معنوںمیںاحترام کرنے کی توفیق دے اور اسے اپنے تقرب و اطاعت کا باعث بنا دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں سال کے بارہ مہینے پکا اور سچا مسلمان بنائے۔ امین یا رب العالمین۔
رمضان شریف کی مبارک ہو۔
ن کی اسی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی روش انہیں ذلیل کر رہی ہے۔ مسلمان تبھی دوبارہ عروج حاصل کریں گے جب ان کے بارہ مہینے رمضان جیسے ہوں گے۔
واقعی آپ نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ اللہ آپکو خوش رکھے۔ اور رمضان کریم کی مبارکباد قبول ہو۔
ان کی اسی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی روش انہیں ذلیل کر رہی ہے۔ مسلمان تبھی دوبارہ عروج حاصل کریں گے جب ان کے بارہ مہینے رمضان جیسے ہوں گے۔
یہ بلکل درست تجزیہ کیا آپنے۔
مگر میرا تجزیہ تو یہ کہتا ہے کہ ہم رمضان میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں بس ظاہری طور پر تھوڑا بہت بدلنے کا ڈرامہ کرتے ہیں ورنہ وہی تعصب ،وہی اقربا پروری وہی دفتروں میں دیر سے حاضریاں، سائیلین کو تنگ کرنا، رشوت ،کرپشن ،بے ایمانی، دوسروں کا حق مارنا،ناجائز منافع خوری ،ذخیرہ اندوزی سب کچھ ویسے ہی چلتا رہتا ہے!
یہ بڑی عجیب صورتِ حال ہے۔ ریڈیو پر کل گانے چل رہے تھے۔ پھر ایک ہلکا سا میوزک سنایا گیا جس میں کچھ کیفیت بدلنے والا سا تاثر تھا۔ پھر اُس کے فورآ بعد عصر کی اذان شروع ہوگئی۔ اذان کے بعد پھر وہی میوزک سنایا گیا اور فورآ ہی ایک اور گانا لگادیا گیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ کچھ تھوڑی بہت تو حیا شرم ہونی چاہیے انسان میں۔
ہم لوگ نے خود پر دو رنگ چڑھائے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی ہمارا اسلامی رنگ بس یوں ہی سا ہے۔
رمجان مبارک ہو
Leave A Reply