اس تصویر سے اندازہ لگایے کہ لولی لنگڑی جمہوریت کا سربراہ کون ہے اور بگ ہینڈ والے سیاستدان کس طرح کی جمہوریت کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اس بورڈ پر درج الفاظ کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ ان لوگوں کی طرف جو اپنے حقوق کی بحالی کیلئے موقع پاتے ہی چیف جسٹس کی تحریک میں شامل ہوکر بقول حکومت کے اس کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں یا ان غریبوں کیلیے جو تپتی دھوپ میں بارہ مئ کی حکومتی ریلی میں شامل ہوں گے۔ تصویر لینے والے کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غریب بڑھیا کو ہی ڈنڈا دکھا کر وہاں سے اٹھا دے۔
ہماری قوم کا ہر فرد ڈنڈے سے پیدا ہوتے ہی واقف ہوجاتا ہے۔ بچپن میں والدین اس کا استعمال کرتے ہیں۔ سکول میں اساتذہ ڈنڈے برساتے ہیں۔ جب عملی زندگی میں آدمی داخل ہوتا ہے تو پھر پولیس کا ڈنڈا اس کے سر پر ہوتا ہے۔
ایک ڈنڈا نیب کے پاس بھی ہے جس کو دکھا کر لوٹوں کو پارٹیاں بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
حکومتی سیاستدانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈنڈے کی آنکھیں نہیں ہوتیں اور جب یہ برستا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھتا کہ آگے کون ہے۔ ڈنڈوں کی جب برسات ہوتی ہے تو پھر اپنے پرائے کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔
اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر ہم باز آۓ ایسی جمہوریت سے۔ پتہ نہیں حکومتی پارٹیاں اس طرح کے بورڈوں پر اس طرح کے نعرے لکھوا کر جمہوریت کی کونسی خدمت کررہی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کی وڈیروں اور جاگیرداروں کیخلاف عمر بھر کی جدوجہد ان جیسے فقروں سے مٹی میں مل جائے گی۔
آئیں بورڈ پر لکھے اس مطلع پر فی البدیہہ غزل مکمل کریں۔ قارئین اگر چاہیں تو مزید اشعار کا اضافہ کرسکتے ہیں۔
چاچا وردی پاکے رکھ
کالا ڈنڈا ہتھ وچ رکھ
امریکہ دا ڈر پا کے
لوکاں نوں دبائی رکھ
کہہ کے نہ لاہ وردی
بے ایمانی دل وچ رکھ
جو منگے جمہوریت
اوہنوں تھانے اندر رکھ
دے کے ڈراوا نیب دا
لوٹے گھر وچ رکھ
جرنیلاں نوں دے رقبے
باقی لارے تے رکھ
انصاف دی تکھڑی توڑ
قانون چھتی تے رکھ
پرواہ نہ کر لوکاں دی
امریکہ نال لا کے رکھ
داڑھی والے کر غائب
کھلی انٹي چھیماں رکھ
ڈھائی جا ہور مسیتاں
کلہاڑا ہتھ وچ رکھ
تری دے چالی بنائے
ایسا وزیرتعلیم رکھ
جاوید برے ٹائم لئی
نسن دی راہ وی رکھ
14 users commented in " آج کی تصویر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس بورڈ کو لکھوانے والے میں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے کہ خود کو چمچہ ثابت کر رھا ہے ـ
اور بتا رھا ہے کہ میں وہ گدھا ھوں جو ڈنڈے کی مانتا ھوں اور جن لوگوں کو ڈنڈے کی طاقت کا احساس نہیں ہے وہ بیگانے ھیں ـ
آپ نے وہ لظیفہ تو سنا ھوگا کہ
کہیں لکھا تھا پڑھنے والا پاکل
اس کو پڑھ کر سردار جی کو غصّہ آیا اور وھاں لکھ دیا کہ
لکھنے والا پاگل ـ
باقی پنجابی کی یہ نظم زبردست ہے ـ
جس نے بھی لکھی خوب لکھی ـ
اگر احساس ہو تو مشرف صاحب اور ان کے حواریوں کے لیے یه نظم ایک گالی ہے ـ
یاد نہیں رھا کہ اس شعر کو مکمل کر دوں
ڈنڈہ پیر ہے وگڑیاں تیگڑیاں دا
تے باندر پیر مداریاں دا
ہاتھ میں ڈنڈہ پکڑے باندر ھی علاج ہے بگڑے ھوئے مداریوں کا ـ
یہ بگڑے مداری کوں ہيں ؟؟
بورڈ لکھوانے والے!!
Excellent Punjabi Poetry and critic. Any how we need to get rid off those with Wardi as well as those who push them up for doing so. MaY Allmighty Allah save our beloved country from this kind of Mir Jaffaars and Mir Sadiqs
نظم اچھی ہے!!!
ہم لوگ اپنے آپ کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہيں بس ضرُورت اس امر کی ہے کہ خود کو exposeکيسے کرنا ہے بورڈ بنانے والے نے بورڈ تو بنا ديا ليکن بقول خاور صاحب کہ اپنے آپ کو بھی ثابت کر ديا کہ وہ کيا ہيں لہٰزا بتانے کو اور کيا باقی بچا شايد پيدا ہوتے ہی ہميں بتا ديا جاتا ہے کہ ہم جن صلاحيّتوں سے مالا مال کۓ گۓ ہيں اُن ميں سر فہرست ڈنڈا ہے اور اسی مولا بخش کي زبان بڑی اچھی طرح سمجھتے ہيں نظم کی داد نا دينا زيادتی ہوگی لاجواب نظم ہے اور حسب حال ہے جس ميس حاصلِ نظم شعر ہے
تيس دے چالی بناۓ
اوہ وزير تعليم رکھ
کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ ہمارا معيار اتنا گيا گُزرا ہے کہ ہم کسی کو بھی مُنہ دکھانے کے قابل نہيں ہيں کہ دُنيا کہاں سے کہاں پہنچ گئ اور ہم کن باتوں ميں اُلجھے ہُوۓ ہيں
تودل اپنے نوں سنبھال ذرا
نا ہو جاۓ بے حال کوئ
ايناں اينياں اُچياں سوچاں نُوں
کوئ کر دے نا برباد کِتے
بس ہتھ رکھ اپنا ہولا تُوں
کوئ بانہہ تے نا کر جاۓ وار ايتھے
کوئ پا کے وردی جان لوے
کوئ ايناں وی نا خوار ہووے
پنج سال منگے کوئ جان منگے
ايہہ دُنيا اے يا ميلہ اے
ہر کوئ اينوں رنگدار کرے
ہے تو تُک بندی ہی اور پہلی کوشش ہے ليکن دل ہلکا ہو گيا ہے آپ لوگ بھی ايسی باتوں کو دل پر نا لياکريں کہ نقار خانے ميں طوطی کي آوازکون سُنتا ہے بھلا؟
خير انديش
شاہدہ اکرم
توں امریکہ دی پالیسی خاطر
اَ پنیا نوں مرواکے رکھ
راشی نال ٹکر نا لے اور
اپنی حکومت نوں قائم رکھ
جیڑا کرے تینوں چیلنج
اُسنوں تو غائب رکھ
http://www.pakcivilsociety.com
اعلٰی
🙂
I would like to appreciate the person who wrote this poem and indirectly try to shake us that why we are so supressed by this dictatorship..
Have someone noticed the woman bent her head in front of musharaf inspite of God. Can we call him the latest version of Namrood. If so then he should remember the ending as of Namrood.
افضل تمھاری آنکھیں لگتا ہے خاصی کمزور ہیں ورنہ تمھیں اس بینر کے کونے پر آرگنائزر جمیعت لکھا ہوا ضرور نظر آجاتا،
اب تو مان لو کہ تمھارے سوکالڈ جمہوری لیڈروں سے زیادہ جمہوریت اس ڈکٹیٹر میں ہے کہ سر راہ یہ بینر لگا ہے اور نہ کسی نے ہٹایا اور نہ ہی کسی نے اس کو بنانے والے کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی کی اور آصف پتر تمھیں بھی اپنی انکھوں کا علاج کروانا چاہیئے یہ عورت پریزیڈینٹ مشرف کی تصویر کی طرف پیتھ کر کے بیتھی ہے،ویسے یہ تمھارے ایمان پر منحصر ہے کہ تم جسے چاہو نمرود فرعون یا کافر کہو،
اللہ ہم پاکستانیوں پر رحم کر
ھم تو دیکھ دیکھ کر بس ھو گیے اس کے بعد دیکھنے کی کوئی گنجاش نہیں بچتی۔
دیکھا جو یہ جلوہ تو انکھ چھپکانا بھول گیے
وردی میں چھپےچہرے کیا اتنے بیانک ھوگیے یہ شعر قطعا نہیں ھے تصویر کو دیکھ کر منہ مہیں کڑوا بادام آگیا تھا
عوام کے لئے آج کیا بدل گیا ہے؟
Leave A Reply