سليم صدّيقي فوج ميں ملازم تھا اور اس پر صدرمشرّف کو ايک دھماکے ميں ہلاک کرنے کا مقدمہ چلا۔ عدالت فوجي تھي جہاں ملزم کو پبلک عدالت کي نسبت کم قانوني مدد حاصل ہوتي ہے۔ فوجي عدالت نے اسے مجرم ثابت ہونے پر سزاۓ موت دے دي۔ اس کي ساري عدالتي اپيليں مسترد ہو گئيں۔ آخر ميں صدر مشرّف نے بھي اس کي معافي کي اپيل مسترد کر دي۔ اس کے والد اور بيوي نے بھي رحم کي اپيليں کيں مگررائيگاں گئيں۔ پھانسي سے پہلے اس نے اپنے باپ سے ملاقات ميں پھر اسرار کيا کہ وہ بيگناہ ہے مگر اس کو پچھلے ماہ پھانسي دے دي گئ۔
سربجيت سنگھ کو جاسوسي کے الزام ميں پاکستاني علاقے سے گرفتار کيا گيا اوراس پر دہشت گرد ہونے اور پاکستان ميں دہماکے کر کے بيگناہ لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگايا گيا۔ اس کا مقدمہ پاکستاني عدالتوں ميں چلااور اس کو پھانسي کي سزا ہو گئ۔ آخر ميں سپريم کورٹ نے بھي اس کو دہشت گر قرار ديتے ہوۓ اس کي سزاۓ موت بحال رکھي۔ اب اس کي رحم کي اپيل صدر مشرّف کے پاس ہے۔
اب انڈيا اپني ايڑھي چوٹي کا زور لگا رہا ہے کہ اس کي سزا معاف کر دي جاۓ۔ صدر مشرّف نے بھي کہا ہے کہ وہ اس کي اپيل پر غور کر رہے ہيں۔ انہوں نے يہ بھي کہا ہے کہ لوگوں کو سربجيت سے ہمدردي بھي بے۔ اب پتہ نہيں لوگوں سے مراد پاکستاني ہيں يا ہندوستاني۔ سنا ہے امريکہ ميں صدر مشرّف اور من موہن سنگھ کي ملاقات ميں بھي من موہن سنگھ سربجيت کي رہائي کي بات کريں گے۔
اب فيصلہ صدر مشرّف کے ہاتھ ميں ہے کہ وہ سربجيت کي سزا معاف کرتے ہيں يا بحال رکھتے ہيں۔ صدر کو فيصلہ کرنے سے پہلے سليم صدّيقي کي پھانسي کو ذہن ميں رکھنا ہو گا۔ اگر انہوں نے ايک پاکستاني کي سزا معاف نہيں کي تو پھر ايک بھارتي کي سزا بھي معاف نہيں کرني چايۓ۔
مگر حالات بتا رہے ہيں کہ صدر مشرّف سربجيت کي سزا معاف کر ديں گے اور موصوف فرمائيں گے کہ انہوں نےسبجيت کو جزبہ خيرسگالي کے تحت معاف کيا ہے۔ اگر سربجيت کي سزا معاف کر دي گئ تو يہي سمجھا جاۓ گا کہ پاکستان ميں عدالتوں کي کوئي وقعت نہيں اور آخري فيصلے کا اختيار صرف ايک شخص کے ہاتھ ميں ہے۔ وہ شخص چاہے تو وطن کي عظمت کے خلاف فيصلہ کرے يا اس کے حق ميں۔
5 users commented in " سليم صدّيقي بمقابلہ سربجيت سنگھ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا یونہی بلاگ لکھے جاتے ہیں؟ ایک پر صدر کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام تھا اور دوسرے پر جاسوسی کا۔ اور جاسوس بھی ہندوستان کا شہری تھا۔ جاسوسوں کے ساتھ سلوک ہمیشہ ڈپلومیسی کا حصہ رہا ہے۔
میں ایک عظیم لیڈر ہوں۔ میں اپنے اوپر ناکام حملہ کرنے والے پانچوں میں سے کسی بھی آدمی کو معاف نہیں کر سکتا کیونکہ میرا ظرف بہت بڑا ہے۔ میں ایک عظیم لیڈر ہوں۔ ترقی اور لیٹنے والے رستے میں سے میں ہمیشہ لیٹنے والا اختیار کروں گا۔ میں ایک عظیم لیڈر ہوں۔ جب مجھے ملت اسلامیہ سے غداری کے جرم میں جہنم میں کوڑے لگیں گے تو میں بتاؤں گا کہ میں نے مسلمانوں کا خون ان کے ہی فائدے کیلئے بیچا تھا، میں وہ آستین کا سانپ ہوں جس نے اپنے ہاتھوں مجاہدین کشمیر کی پرورش کرکے، خود ہی ان کو ڈس لیا۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ میرے ساتھ امت مسلمہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں میں شیخ رشید جیسے بدبخت بھی شامل ہیں۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ میں وہ ہوں جس کی اوقات15 کروڑ عوام کے سامنے بار بار وردی اتارنے کا وعدہ کرکے مکر جانے کی ہے۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ پورے عالم اسلام کے (غدار) لیڈر بھی مجھ سے کوئی راز کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ میرے اور میرے آقا کے درمیان کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ سب مجھ سے ڈرتے ہیں کیونکہ میں بھری پریس کانفرنس میں بھی کسی کی بھی بے عزتی کر سکتا ہوں۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ میں اپنی اوقات کبھی بھی نہیں چھپا سکتا۔ میں وہ عظیم آدمی ہوں جو ڈاکڈر شازیہ کی آبرو ریزی کرنے والے درندے کو بچانے کیلئے 70 بلوچوں کا خون بہا سکتا ہوں۔ میں وہ بدبخت ہوں، جو ریپ کا شکار ہونے والی مظلوم عورت کو رونے اور چلانے سے روکنے کیلئے اس کو مزید بدنام کرنے کی دھمکی بھری مجلس میں دے سکتا ہوں۔ میرے سیاہ اعمال کا احاطہ کرنے کیلئے ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے۔ میں عظیم لیڈر ہوں۔ میں پرویز مشرف ہوں۔ ۔ ۔
ذکريا صاحب اتنا غصّہ اچھا نہيں ہوتا۔ آپ کو اگر مجھ سے اختلاف ہے تو مہزّب طريقے سے کيجۓ تضحيق تو نہ کيجۓ۔
اخباري اطلاعات کے مطابق سربجيت کو پاکستان کے شہروں ميں بم دھماکوں ميں لوگوں کو ہلاک کرنے کے الزام ميں پھانسي ہوئي ہے۔
سلیم صدیقی کے بارے میں تو میں جچھ نہیں کہہ سکتا مگر ۔۔۔۔۔سربجيت سنگھ کے بارے میں میری رائے سادہ ہے معافی کی گنجائش نہیں۔۔۔عدالت نے مجرم جانا تو سزا دی ،ایسے جرم کی معافی کا اختیار صدر کے ہاس نہیں عوام کے پاس ہے، سادہ سی بات ہے معافی وہ دے جس کے خلاف جرم کیا گیا ہے، جو پاکستان کے خلاف اقدامات اٹھائے گا وہ پاکستان کا یا یوں کہہ لے پاکستانی عوام کا مجرم ہو گا۔۔ اب صدر کو اپیل کی جائے یا ایک لاکھ خطوط لکھ کر التجا یا میڈیا میں اس بات کو اچھال کر دباؤ ڈالا جائے یا سربجيت سنگھ کے خاندان کے ستر افراد پاکستان میں آ کر ١٥ سال بعد اپنے اس بندے سے ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،مجرم کو جرم کی سزا ملنی چاہئے اور اگر ایسے جرم سےکسی ملک کی سلامتی خطرہ میں پڑے تو معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،،، اپنے ایسے مجرموں کو معافی دینے کا مطلب خیر سگالی کا جذبہ نہیں بلکہ کمزور ہونے کی نشانی ہے۔۔۔۔۔میں تو یہ ہی سمجھتا ہو!۔
سب ملٹری والوں کی مرضی ہے۔
وہ جب دل کرے کسی بھی پاکستانی کو “اٹھا”،”بٹھا” سکتے ہیں۔
جب وہ(ایجنسی) “اٹھاتے” ہیں اس کے بعد نہ آپ اپنے گھر والوں کو پہچانے کے قابل رھتے ہیں اور نہ گھر والے آپ کو۔۔۔
Leave A Reply