ایک وقت تھا جب مزاروں کی مجاوری ایک کامیاب پیشہ تھا۔ بڑے بزرگوں کی نیکیوں کے صدقے ان کی اولادوں نے مزاروں پر بیٹھ کر دولت سمیٹی۔ مگر بعد میں مجاورں کو اس سے بڑا پیشہ مل گیا اور انہوں نے اپنے مریدوں کے سو سو کے نوٹوں سے جیبیں بھرنے کی بجائے قومی خزانے سے اپنی تجوریاں بھرنی شروع کر دیں۔ یہ پشہ اتنا کامیاب ہوا کہ ایک ہی خاندان کے لوگ یعنی گیلانی، پگاڑے، مزاری، سید وغیرہ وغیرہ جوق در جوق اسے اپنانے لگے۔ آج اس پیشے میں گیلانی خاندان نے ریکارڈ قاتم کیا ہے۔ وزیراعظم گیلانی کے دو بیٹے اور ایک بھائی بھی اسمبلی کے ممبر بن چکے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے چار افراد کا ممبر اسمبلی ہونا پاکستانی تاریخ میں ایک منفرد واقعہ ہے۔
ویسے تو یہ سب جانتے ہیں کہ مجاوروں نے پہلے انگریزوں کی چاکری کر کے جاگیریں سمیٹیں اور اب بھی وہ غیروں کی چاکری کر کے دھن اکٹھا کر رہے ہیں۔ اس لالچ میں انہیں یہ بھی پرواہ نہیں رہی کہ عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور ملک کی عزت خاک میں ملتی جا رہی ہے۔
اقربا پروری کی اس سے بڑی مثال ملنی مشکل ہو گی۔ یہ خصلت مسلمانوں کی تنزلی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک ہے۔
5 users commented in " مجاور گیلانی خاندان کا ریکارڈ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآل رسول کی مخالفت کرنے پر اپ کو معتوب بھی کیا جا سکتا ہے
احتیاط
مجاور گیلانی خاندان، مضمون کیلئے عنوان کا انتخاب شاندار کیا ہے آپ نے۔ اللہ رکھے زور قلم اور زیادہ۔
اور میں آج ہی اتفاق سے مجاوروں کے بیٹھنے کی جگہ یعنی مزارات پر لکھ بیٹھا تھا۔
محترم!
“مزاری” مجاور نہیں ۔ پاکستان پنجاب کے ضلع راجن پور میں بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے ۔ بلوچستان میں بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے۔ تنازعہ بلوچستان کے آغاز سے صوبہ بلوچستان کے مزاری قبائل کا نمایاں کردار رہا ہے۔
معروف تجزیہ نگار اور خارجہ امورکی ماہر ڈاکٹر شیریں مزاری کا تعلق بھی “مزاریوں” سے ہے۔
نیز ایک تصحیح اور کرنی ہے۔
پگاڑوں نے یعنی کچھ عرصہ قبل فوت ہونے والے شاہ مردان شاہ دوئم المعروف پیر پگاڑا کے والد صبغت اللہ شاہ نے انگریزوں کے خلاف عملی طور پہ جہاد کیا اور اور انگریزوں کے خلاف لمبی تحریک لڑی اور بہت سے معرکوں میں انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے اور بالآخر پیر پگاڑا کے والد صبغت اللہ شاہ کو گرفتار کر کے پھانسی چڑھا دی ۔ اور انکے صاحبزادے شاہ مردان شاہ دوئم المعروف پیر پگاڑا کو کم عمری میں برطانیہ منتقل کردیا مگر پیر پگاڑا کے والد صبغت اللہ شاہ کی پھانسی کے باوجود انگریزوں کے خلاف حر تحریک جاری رہی۔
پیر پگاڑا کے حُر مجاہد انیس سو پیسنٹھ کی جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑے اور بھارت کے کشن گڑھ قلعہ پہ قبضہ کیا۔ وغیرہ
لفظ پگاڑا بجائے خود دو الفاظ “پگ ” اور “گاڑہ” یعنی جھڈا کی جمع ہے جو کافروں کے ساتھ جہاد کے نتیجے میں پیر پگاڑا کے بزرگوں کو عطا ہوا ۔ پھر انہی میں سے پیر آف جھنڈا اور پیر آف پگ یا پگارہ دو سلسلے چلے۔
آپکے بیان کردہ سلسلوں سے ہمیں کچھ لین دین نہیں ۔ محض تاریخ کی درستگی کی وجہ سے لکھ دیا ہے۔ نیز آپ کے مضمون کے نفس سے اتفاق ہے۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے تو گیلانیوں کی ساری فیملی ؛کام؛ پر لگی ہوئی ہے،کوئی شعبہء زندگی ایسا نہیں جس مین سے انہوں نے مال نہ نچوڑا ہو،،،خود میں ایک سینئر بیوروکریٹ کو جانتا ہوں جس نے گوجرانوالہ اور ننکانہ ساحب میں انہی ڈالے رکھی،، اسکے علاوہ اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران عدالتوں کو مطلوط کچھ لوگوں کو فرار کروانے میں بھی شامل تھے،،، جی ہاں انکا اسمِ گرامی فضیل اصگر تھا،،،اس کرپٹ آفیسر کے تعلقات بھی جناب موسیٰ گیلانی ساحب کے ساتھ بتائے جاتے ہین اور اس نے بھی موصوف کو قیمتی گاڑی سمیت بہت سارے ؛تحائف؛ پیش کررکھے ہین،،،ہمارے پیرزادے جناب موسیٰ گیلانی کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ بھی ہے کہ جناب کا موبائل فون از کود چل کر کسی جرائم پیشہ فرد کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اس کی مدد سے فون کرکے متعلقہ شخص کو کوٹے سے زیادہ دوائین ددینے کا حکم جاری کرتا ہے، پھر اسکے بعد یہ موبائل فون پھر اسی طرح چلتے ہوئے واپس موسیٰ گیلانی کے پاس پہنچ جاتا ہے،،،اگر کسی کو یقین نہیں آیا تو یہ اس کے ؛عقیدے؛ کی کمزوری ہی قرار دی جاسکتی ہے لیکن خانوادہء پیرانِ عالی مقام کی عالی مرتبت فیملی پر الزام تراشی کرنا گناہ عظیم بھی ہے اور روز قیامت شفاعت بزرگان دین سے محرومی کی علامت بھی،،،،
Leave A Reply