ارشد ہمارا کلاس فیلو تھا۔ بہت دبلا پتلا اور چھوٹے سے قد کا اسی لیے لوگ اسے ارشد ٹیڈی کہا کرتے تھے۔ جب ہم پرائویٹ بس میں کالج جایا کرتے تو جان پہچان والے کنڈیکٹر کبھی کبھار ارشد کو چھیڑنے کیلیے کہتے ارشد پتر ساتھ والے کی گود میں بیٹھ جاؤ کیونکہ تم آدھی سواری ہو۔
ارشد نے تعلیم ادھوری چھوڑی اور کچہری میں وکیل کا منشی لگ گیا اور ساتھ ساتھ ہومیوپیتھی کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک دوسال میں ہی اس کا دل اکتایا اور وہ سعودی عرب چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک عربی کی ہول سیل کی دکان پر نوکری شروع کردی۔ اس نے اپنے بڑے بھائی کو جو بیکری کی دکان پر کام کرتا تھا اپنی بیکری کی دکان ڈال دی۔ دونوں بھائیوں کی آگے پیچھے شادیاں ہوگئیں۔ چند سال سعودی میں رہنے کے بعد ارشد واپس آگیا اور اس نے بڑے بھائی کیساتھ بیکری پر بیٹھنا شروع کردیا۔ اسی بیکری میں اس کے دو چھوٹے بھائی بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بڑے بھائی کی بیوی کو ان کا مل کر کام کرنا پسند نہ آیا اور اس نے اپنے خاوند کے کان بھرنے شروع کردیے۔ بڑے بھائی نے ایک دن علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ جب بٹوارہ ہوا تو اس نے ضد کرکے بیکری اپنے پاس رکھ لی اور مکان تینوں بھائیوں کو دے دیا۔ بڑے بھائی نے اس کے بعد تینوں بھائیوں اور ماں باپ سے ہیمیشہ کیلیے منہ موڑ لیا۔
ارشد کے پاس کچھ جمع پونجی بچی ہوئی تھی۔ اس نے دونوں چھوٹے بھائیوں سے ملکر الگ بیکری ڈال لی۔ ارشد کی قسمت اچھی تھی اور اسے کسٹمر سروس کا بھی تجربہ تھا اسلیے اس کی بیکری بڑے بھائی کی بیکری سے بھی زیادہ اچھی چل پڑی۔ ارشد نے ہومیوپیتھی کی ادھوری تعلیم دوبارہ شروع کردی اور دو سالوں میں وہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر بن گیا۔ ڈاکٹر بن کر اس نے اپنا کلینک کھول لیا اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے بیکری سنبھال لی۔ اس کے چھوٹے بھائیوں کو جب آزادی ملی تو انہوں نے بیکری سے چوری چھپے رقم الگ کرنا شروع کردی۔ اسی دوران ارشد نے دونوں بھائیوں اور ایک بہن کی شادی بھی اپنے خرچے سے کی۔ ہم اکثر ارشد کو سمجھایا کرتے تھے کہ تمہارے بھائیوں کی نیت میں کھوٹ لگتی ہے اسلیے اپنی جیب سے گھر کا خرچ چلانے کی بجائے انہیں بھی گھر کے اخراجات میں حصہ ڈالنے کیلیے کہو۔ ارشد اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی نیت بری نہیں اسلیے اللہ اس کی مدد کرے گا۔
اسی دوران ارشد کے ایک بھائی نے پرائیویٹ ٹیکسی چلانا شروع کردی۔ ایک دن ارشد نے اسے آدھی رقم ڈال کر اپنی کار خرید کر دے دی۔
تینوں بھائی اپنے اپنے کاروبار میں سیٹ ہوگئے۔
چھوٹے بھائیوں نے ارشد کوبیکری سے اس کا منافع دینا بند کردیا اور آئے دن یہی کہنے لگے کہ کمائی نہیں ہورہی۔ دونوں بھائی عیاشیوں میں پڑ گئے اور انہوں نے بیکری اجاڑنی شروع کردی۔ تب تک ارشد کا کلینک چل چکا تھا اور وہ خوب کمائی کررہا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ایک بھائی نے بیکری بند کی اور اپنی جمع پونجی دے کر وزٹ ویزے پر انگلینڈ چلا گیا۔ انگلینڈ میں وہ لاڈلا سیٹ نہ ہوپایا اور چند ماہ بعد ہی سب کچھ لٹا کر واپس آگیا۔ واپس آکر اس نے کسی جاننے والے کی بیکری پر نوکری کرلی۔ دوسرا جو گاڑی چلاتا تھا ایک دن ایکسیڈنٹ میں اپنی گاڑی تباہ کربیٹھا۔ اس کے پاس جمع پونجی تو تھی نہیں اسلیے دوبارہ سے کسی کی گاڑی چلانا شروع کردی۔
اب ڈاکٹر ارشد اپنے علاقے کا مشہور ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہے اوراپنے عالی شان گھر میں اپنے چار بچوں کیساتھ سکھ کی زندگی گزار رہا ہے۔ بڑے بھائی کی اولاد آوارہ گردی میں پڑچکی ہے اور اس کی بیکری اب ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان میں بدل چکی ہے۔ چھوٹے بھائیوں کے چھ سے زیادہ بچے ہیں اور وہ کسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ارشد اپنے بھائیوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے اتنا بد دل ہوچکا ہے کہ اسے ان کی بدحالی پر بالکل ترس نہیں آتا۔ ایک آدھ بار وہ اس سے صلح بھی کرنے آئے مگر ارش نے انہیں گھاس تک نہیں ڈالی۔ اب وہ ارشد کے تکبر کی ہر جگہ دہائی دیتے رہتے ہیں اور ارشد ان کی زیادتیوں کو گنواتا رہتا ہے۔ ہم نے کئ دفعہ ارشد سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کو معاف کردے اور ان کو دوبارہ کاروبار سیٹ کرنے میں مدد کرے۔ لیکن ارشد کا اپنے بھائیوں پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ کتے کی دم کی طرح ہیں جو سو سال بھی حقے کی نالی میں پڑی رہے تب بھی سیدھی نہیں ہوں گے۔ ارشد سے جب بھی ایک دو سال بعد ملاقات ہوتی ہے وہ اکثر یاد کراتا ہے کہ ہم اس کے بھائیوں کو جلد پہچان گئے تھے مگر اس نے انہیں پہچاننے میں دیر لگا دی۔
ارشد نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کی عزت کی اور کبھی ان کا دل نہیں دکھایا۔ ارشد کی ماں اب بھی اسی کے گھر میں رہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ارشد کی نیک نیتی کے ساتھ ساتھ اس کا ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک بھی اس کی کامیابی کی وجہ ہے۔
1 user commented in " کیسے کیسے لوگ – نیک نیتی بقابلہ بدنیتی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہمارا معاشرا ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ اللہ نے ارشد کا ہاتھ پکڑ لیا نہیں تو اکثر ایسے لوگ کمبختوں کے ہاتھوں برے حالات کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے لوگ دنیا میں بھرے پڑے ہیں خود جو مرضی کر لیں دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ جب خود تباہ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے تو کچھ برا نہیں کیا تھا۔
Leave A Reply