عمران خاں نے جس دور میں کرکٹ کھیلنی شروع کی ہماری کرکٹ ٹیم کے بیشتر کھلاڑی انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ان دنوں کرکٹ کی زندگی اتنی مصروف نہیں ہوتی تھی۔ پاکستانی کھلاڑی گرمیوں میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے اور سردیوں صرف ایک ٹیسٹ کرکٹ سیریز کھیلتے۔ اس کے علاوہ جو فالتو وقت ہوتا ہمارے کھلاڑی اپنی ذاتی زندگی میں مصروف رہتے۔ عمران خاں کے دور کی ٹیم کے کھلاڑی سرفراز نواز، آصف اقبال، مشتاق محمد، ظہیر عباس، ماجد خاں، محسن خاں وغیرہ کی عیاشیوں کے قصے اخباروں میں کبھی کبھار چھپتے رہتے تھے۔ اس دور میں کرکٹ کے کھلاڑی ایک ماڈرن اور آزاد خیال کلچر کی عکاسی کیا کرتے تھے اور ان کی اکثریت مذہبی رجحان نہیں رکھتی تھی۔
عمران خاں نے بھی اپنے ہم عصروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک کھلنڈرے نوجوان کے طور پر خوب نام کمایا اور اس کے سیتا وائٹ، زینت امان وغیرہ کیساتھ تعلقات کا خوب چرچا رہا۔ یہ ہماری قوم کا خاصا رہا ہے کہ اگر کوئی اس کی خواہشات کی تسکین کا سامان مہیا کررہا ہو تو وہ اس کی زاتی زندگی میں دخل نہیں دیتی۔ لیکن جونہی قوم کی دلچسپی ختم ہوئی اس نے اس شخص کے ماضی کو حدف تنقید بنانا شروع کردیا۔ عمران خاں کیساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ جب تک عمران اچھی کرکٹ کھیلتا رہا اور اس نے پاکستان کو اس کا واحد ورلڈ کپ اپنی کپتانی میں لے کر دیا اس کی ذاتی زندگی کے قصے کسی کو یاد نہ رہے۔ پھر عمران نے ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم ہسپتال بنایا اور خوب نام کمایا۔ ہسپتال کی تعمیر میں ہر امیر غریب نے دل کھول کر امداد کی اور کسی نے عمران کے ماضی پر انگلی نہیں اٹھائی۔
پھر عمران نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور اس طرح جہاں اسے عوام کی حمایت بھی ملی وہیں اسے سیاسی مخالفین کے زہریلے تیرون کا نشانہ بھی بننا پڑے۔
شروع میں عمران کچھ زیادہ ہی اپنے اوپر اعتماد کربیٹھا اور اس نے سمجھا کہ وہ اکیلا ہی پاکستان کے مسائل حل کردے گا۔ اسی لئے اس دور کے اتحادوں کی سیاست میں اس نے کسی اتحاد میں شامل ہونا مناسب نہ سمجھا اور وہ اپنی زندگی کے پہلے الیکشن میں ایک بھی سیٹ حاصل نہ کرسکا۔ 2002 کے الیکشن میں اس نے ایک بار پھر اتحادی سیاست کی مخالفت کی اور اکیلے ہی الیکشن لڑا۔ اس دفعہ وہ صرف اپنی سیٹ جیت سکا اور آجکل ایک سیٹ کی پارٹی کے نام سے مشہور ہے۔
سنا ہے جنرل مشرف نے اسے وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی مگر وہ اتحادی سیاست کو ناپسندیدہ سمجھتےہوئے چوہدریوں کیساتھ گٹھ جوڑ نہ کرسکا اور اس طرح حکمرانی کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ اس کے بعد عمران نے اسمبلی کے اندر کم اور اسمبلی کے باہر زیادہ اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کیا اور تب سے میڈیا پر اس طرح چھاچکا ہے کہ کوئی بھی ٹی وی مذاکرہ اس کی غیرموجودگی میں ادھورا ادھورا لگتا ہے۔
بارہ مئی کے کراچی کے فسادات نے عمران خاں کو ایک اور موقع فراہم کیا اور اس نے اپنی مشہوری کیلیے ایم کیو ایم سے ٹکر لے لی اور اب تک وہ اپنی اس مہم میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ یہ تو ہمارا بھی آزمودہ نسخہ ہے اور آپ بھی آزما کر دیکھ سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم پر صرف ایک پوسٹ لکھیے اور دیکھیے آپ کے بلاگ کی ریٹنگ کس طرح اوپر جاتی ہے۔ ایم کیو ایم اور عمران خاں کی اس چپقلش کا ایک نمونہ یہاں ملاحظہ فرمائیے۔
اگلے انتخابات کی آمد آمد ہے اور عمران ان کی تیاری میں مصروف نظر نہیں آتا۔ عمران ابھی تک اپنی جماعت کا اکیلا ہی امیدوار نظر آتا ہے۔ وہ اب تک اپنے ارد گرد کوئی بڑی اہم شخصیات کو اکٹھا نہیں کرسکا۔ اس کی پارٹی میں اس کے علاوہ کوئی اور نمایاں لیڈر نظر نہیں آتا۔
اس کی کامیابی کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ بھٹو کی طرح عوام کو اپنے پیچھے لگا لے مگر بھٹو جیسی اس میں لیڈرانہ خوبیاں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک اس کی پارٹی عوامی پارٹی نہیں بن سکی۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہوجائے اور اس اتحاد کو حکومت ملنے کی صورت میں اپنی پسند کی وزارت لے لے۔ یہ راستہ ذرا لمبا اور کٹھن ہے۔ اس راستے میں اس کے ہاتھ بندھے بھی ہوسکتے ہیں اور وہ وہ کچھ نہیں کرپائے گا جو وہ اپنی گفتگو میں کرنے کی خواہش بیان کرتا رہتا ہے۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ سیاست ترک کردے اور عوام کی فلاح کے کاموں میں اپنی زندگی صرف کردے۔ وہ فلاحی میدان میں صحت اور تعلیم کی بہتری کیلیے اتر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں پاکستانی عوام کی بہتر صحت کیلیے ہر علاقے میں ایک ہسپتال بنانے اور آدھی قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کا نام پاکستان کے وفاداروں میں رقم ہوجائے گا۔
ہمیں معلوم ہے کہ عمران خاں بھی باقی ماندہ قوم کی طرح اپنی کامیابی کیلیے شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے۔ اس کی وجہ بیشک عوامی خدمت ہی کیوں نہ ہو مگر شارٹ کٹ کا طریقہ اچھا نہیں ہے اور نہ ہی سب کو سوٹ کرتا ہے۔ یہ تو لاٹری کی طرح ہوا اور لاٹری کروڑوں میں کسی ایک خوش قسمت کی نکلتی ہے۔
عمران خاں کی گفگتو پر اگر جائیں تو وہ بھی دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح عوام کیلیے بہت کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار نظر آتا ہے۔ ابھی تک وہ کھیل اور فلاحی کاموں کے علاوہ کہیں بھی اپنی لیڈری کا سکہ جما نہیں سکا۔ اسلیے ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اگر اسے حکومت ملی تو وہ اپنے وعدوں پر قائم رہے گا یا پھر دوسرے نسلی سیاستدانوں کی طرح وہ بھی مصلحت کا شکار ہو جاۓ گا ا ورعوام کو بھول کر جاگیرداروں، صنعت کاروں اور وڈیروں کی گود میں بیٹھ جائے گا۔
ہمارے لیڈر جب تک حکومت سے باہر ہوتے ہیں بڑے بڑے عوامی خدمت کے دعوے کرتے ہیں مگر جونہی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یہی شک ہمیں عمران خان پر بھی ہے کہ کہیں وہ بھی اقتدار ملنے پر اسی فوجی حکومت کے گن گانا نہ شروع کردے جس کی پچھلے سات سالوں سے مخالفت کرتا چلا آرہا ہے۔ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی بھونک بھونک کر پیتا ہے اور یہی ہمارا حال ہے ہم اپنے لیڈروں کی حکومتی کارکردگی سے اس قدر مایوس ہوچکے ہیں اب کوئی فرشتہ بھی اقتدار میں آکر عوامی خدمت کے دعوے کرے ہمیں اس پر شک ہی رہے گا جب تک کہ وہ عملی طور پر عوام کی خدمت کرکے نہ دکھا دے۔
عمران خاں کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی مباحثوں میں اپنی گفتار سے ہی نہ صرف لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی جماعت کو منظم کرے اور ہر شہر میں اس کے دفاتر کھولے۔ دوسرے ہم خیال لیڈروں کو اپنے ساتھ ملائے اور انہیں اپنی پارٹی میں اہم عہدوں پر فائز کرے۔ گلی گلی اور شہر شہر گھومے اور عوام سے رابطہ کرکے انہیں اپنے منشور سے آگاہ کرے۔ منشور سے خیال آیا، عمران کو سب سے پہلے اپنے منشور پر کام تیزی سے ختم کرنا چاہئے اور اس کی پارٹی پہلی ہونی چاہیے جو عوام کو بتائے کہ اگر وہ اقتدار میں آیا تو کس طرح ان کی غربت دور کرے گا اور انہیں سستا انصاف مہیا کرے گا۔
عمران یاد رکھے اس دور میں اکیلا آدمی سولہ کروڑ کی قسمت بدلنے میں شاید ہی کامیاب ہو۔ اسلیے عمران کو اپنی پارٹی میں ہم خیال لوگوں کو لانا ہی ہوگا اور اپنی پارٹی کو فعال بنانا ہی ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر اسے چاہیے کہ سیاست سے توبہ کرلے۔ واپس عوامی فلاح کے کاموں کی طرف لوٹ جائے اور عبدالستار ایدھی کی طرح عوام کی بھلائی کے کاموں میں مصروف ہوجائے جہاں وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا اور اکیلا ہی سب کچھ ہو گا۔
عمران نے لگتا ہے اپنی بیس سالہ کرکٹ کے کیریئر سے ٹیم ورک کا سبق یاد نہیں رکھا۔ اسی لیے وہ اب تک سیاست میں اپنی ٹیم نہیں بناسکا۔ اگر عمران گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم نہیں بنا سکتا تو پھر اسے چاہئے کہ سیاست کا کھیل ترک کرے لان ٹینس کھیلنا شروع کردے۔
15 users commented in " عمران خاں کا ماضی، حال اور مستقبل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackhmm achha mazmoon hai magar chand batain wazahat talab hain.
1. kia MQM bhi yahood ki tarah ka ki koi cheez hai keh isper baat kerne per itna bara radd-e-amal ajata hai? waise aik cheez bahir haal inka richta wahan show kerti hai kabhi isper baat karain ge inshallaah.
2. kia kisi aadmi ko kuch ker guzarne kelyie aas paas ke inhi bare logon ko jo ya tu apne badamlon ya phir media s ehi zinda hain.agar inhi logon ki help se koi kaam kerna hai tu behtri kionker ho?
3.bhai behtri sab chahte hain magar yeh batain keh jab Allah ke rasool ne deen se munafikat rakhne per zillat ki baat bata di hai tu yeh imran type etc kionker behtri la sakte hain?
4.dost Allah ki nusrat ke musalmanon ke liye wada hai magar Allah ke wade uske hukmon ke saath hain.
Aap Allah se kia gia ehd-o-peman poora kerne ki baat karain aur Allah tu apne wade ke khilaf kerta hi naheen.
wasalam
There is no uncertainty that Imran Khan is such a daring man because he is the only person who is determined to declare Altaf Hussain as a leading terrorist in the world. Every Pakistani knows that MQM is behind the bloodshed on 12th May but nobody is daring to speak against Altaf Hussain. I have already written that MQM believes on brutality based politics.
Now if we talk about the future of Imran Khan then I would say that he would be the savior of Pakistan because history tells that since independence we are under the rule of dictatorship and American based policies. His vision is similar to Dr Mahtir Muhammad and he needs nation’s support as well.
مشوررے تو تمھارے اچھے ہیں مگر ان پر عمل کرنے کے لیئے عمران خان کو پہلے اپنا DNA
چینج کروانا پڑےگا!
فرمان الحق کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم چاہیں گے کہ سارے اسمبلی ارکان اپنا ڈی این اے تبدیل کروائیں کیونکھ سب اس حمام میںنگے ہیں۔
افضل ایک تصیح تھی اگر گراں نہ گزرے ہمارے محترم بزرگ کا نام عبدالستار ایدھی ہے نہ “عیدی“ ۔ عمران خان کے بارے کافی حد تک میں آپ سے متفق ہوں لیکن ایک بات سب کو ماننی پڑے گی کہ یہ وہ واحد شخص ہے جو کچھ کرنے کے بعد میدان سیاست میں آیا ہے اور مجھ جیسے پاکستانی کے لیے پوری زندگی میں صرف ایک ہی خوشی کا لمحہ آیا جو عمران خان کی بدولت تھا۔ فی الحال تو عمران خان ہی ایسا شخص نظر آتا ہے جو خواب دکھانے کے علاوہ ان پر عمل کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے اور اسکے کچھ کارنامے اس کا ثبوت ہے۔۔ باقی مسلح اور غیر مسلح سیاست دانوں سے آپ لوگ واقف ہی ہیں
راشد صاحب غلطی کی نشاندہی پر برا ماننا اپنی عادت نہیںبلکہ ہم ایسے دوستوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عمران خاں نے باتوں کی حد تک تو ہمیںبھی متاثر کیا ہے مگر آپ پاکستانی سیاسی تاریخ سے آگاہ ہیں جب کرسی ملتی ہے تو سارے سیاسی وعدے ایک بے وفا محبوب کے عیدوپیما کی طرح ہوا ہو جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے جو آدمی حکومت سے باہر رہ کردیکھتا ہے وہ حکومت کے اندر آکر سب الٹ نظر آتا ہوگا۔
Lal masjid maulana says;
غازی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ کسی اچھے مقصد کے لیے اگر غلط راستہ اپنایا جائے تو اُسے ٹھیک نہیں کہا جا سکتا۔
and what is he himself upto? :S
http://tinyurl.com/2dlfnx
کسی نے خوب کہا ہے
سب سے بڑے سے پنگا لو سالوں کے بجاے دنوں میں مشہنور ہو جاو گے-
تم نے غلط سمجھامینے اسے کے DNA
تبدیل کروانے کی بات اس لیئے کی تھی کہ اس کی خصلت میں جو خود پسندی ہے وہ اسی طرح ختم ہو سکتی ہے،
رہا سوال کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں تو ہیں تو صحیح مگر جتنا کھل کر وہ ننگا ہوا اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی تم بھی کس پر اپنا وقت اور توانائی صرف کر رہے ہو وہ بے چارہ یہودیوں اور ان کے ہمدردوں کا ایک پٹا ہوا پیادہ ہے جب یہودیوں کو لگا کہ اس گھوڑے پر پیسہ لگانا فضول ہے تو لڑکی بھی واپس لے لی،
فرمان صاحب یہودیوں کی بھی خوب کہی آپ نے۔ کہتے ہیں سمندر میں دو شارک مچھلیوں کی لڑائی ہوجائے تو سب مسلمان یہی کہیں گے کہ یہودیوں کی سازش ہے۔ آپ کے خیال میں شوکت خانم اسپتال بھی یہودیوں کی سازش تھی اور 1992 کا ورلڈ کپ بھی یہودیوں نے ہی جتوا کر دیا تھا تاکہ عمران خان کو استعمال کرسکیں ؟ یہودیوں کے پاس دنیا میں اور بھی بہت کچھ کرنے کو ہے میرا یقین کریں انہیں اس بات کی ضرورت ہی نہیں کے ہمیں تباہ کرنے کے لیے کوئی سازش کریں ہم خود اپنی تباہی اپنے ہاتھوں سے کریں گے 🙂
درست کہا۔
جب تک کٹ حجتی ملا جن کا علم الف بے تختی تک ہے ہمارے پاس ہیں ہمیںیہودی دشمن کی کیا ضرورت۔ یہ ملاں ہی کام ہے کہ ہر کسی کہ یا تو کافر یا یہودی کہہ دیں۔ خدا کی خوف ہی نہیںہے۔
yeh Farmanulhaq sahib doghle insaan hain.pehle bhi ghalat bayani kergaey the.inke bare main andaza lagana mushkil hai keh yeh sahib kon hain? ham samjhe thay keh yeh koi ilmi sahib hain aur daleel ki baat samajhte hain. magar aik tu ghalat bayani ki aur phir daleel se hi bhaag khare .hooey
agar imran toba kerle aur kamil imaan ke saath aur Allah ki raza kelyie kuchh kerna chaye tu uska saath dena chahyie.
yeh farman sahib munafikon aur murtidon kelyie tu hamdardi rakhta he aur ghalat hawala lata hai magar aik insaan ki niyet poora jane baghair yahoodi bana deta hai. wah
عمران خان کے بارے میں میرا خیال درست ہے یا تم لال بجھکڑوں کا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا ،
البتہ تم لوگوں کی اس بات کا جواب کہ اس نے ورلڈ کپ جیتا اور شوکت خانم ھاسپٹل بنایا تو دونوں میں سے کوئی بھی کام اس نے اکیلے نہیں کیا یہ اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے اس لیئے سارا کریڈٹ اسے نہیں دیا جاسکتا،ہاں البتہ وہ جو کئی ایکڑ کا فارم ہاؤس بنائے بیٹھا ہے اس کا پورا پورا کریڈٹ تم اسے دے سکتے ہو،
ناچیز پتر پہلے تو تم جو رومن اردو لکھتے ہو اور اس کی دل بھر کر ٹانگ توڑتے ہو اس کو پڑھنا اور اس میں کیئے ہوئے بے تکے سوالوں کو سمجھنا بڑے جگر گردے کا کام ہے پھر بھی زرا بتاؤ تو سہی کہ تمھاری کس بات کا جواب مینے نہیں دیا،
ایک بات اور جب تم جیسے لوگ اردوبولنے والوں کو مٹروا کہتے ہیں تو وہ دوسرے صوبے کے لوگوں کو اس بات کا حق دے دیتے ہیں کہ وہ ہمیں پنجابی چوپائے کہیں،
اور تازہ ترین اطلاع تو یہ ہے کہ اس نے انتخابات میں حصہ لینے سے ہی انکار کردیا ہے افسوس اب تم لوگ کسے ووٹ دو گے،
بے چارے کو ضمانت ضبط ہونے کا خوف ہوگیا ہے،
اچھا ایک بات سچ سچ بتاؤ اگر عمران کا تعلق پنجاب کہ بجائے کسی اور صوبہ سے ہوتا تو کیا تب بھی تم لوگ اسی فراخ دلی سے اس کے گناہ معاف کردیتے ؟
Leave A Reply