ہمیں ان مولویوں پر بہت افسوس ہوتا ہے جو جاہل حکمرانوں کے بلاوے پر دم ہلاتے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کا خطاب ہمہ تن گوش سنتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ جنرل مشرف، صدر زرداری اور الطاف حسین کے خطاب سے علما کونسا عمل سیکھیں گے۔ لادین اور بے عمل حکمرانوں کے آگے جھکنا علمائے دین کی جاہلیت کی نشاندہی ہوتا ہے۔ مشرف جیسا شرابی، زانی آدمی علما کانفرنس بلا کر خطاب کرتا ہے اور علما اسے سنتے ہیں تو پھر الطاف حسین بھی علما کو لعن طعن کر سکتے ہیں۔
الطاف حسین نے فتوے کے انداز میں کہا ہے کہ جو عالم ملالہ پر حملے کی مذمت نہیں کرے گا وہ اس کیخلاف ایکشن لیں گے۔ اسی وجہ سے اب ایم کیو ایم علما کے کوائف جمع کر رہی ہے۔اگر حکومت ایسا کرتی تو شاید کوئی جواز بنتا مگر الطاف حسین کی ایم کیو ایم کا یہ عمل اپنی سوچ سے باہر ہے۔ اس عمل سے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کتنی دین کی خدمت کریں گے یہ وہ یا ان کے کارکن ہی بتا سکتے ہیں۔
7 users commented in " الطاف حسین اور اسلام "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاو
بالکل درست کہا۔۔۔۔۔ لیکن اچھے اور معروف دینی اداروں سے وابستہ اچھی شہرت والے علمائے دین ہمیشہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے ایک فاصلے پر رہتے ہیں۔ زیادہ تر آپکو اہل بدعت یا علمائے سو ہی اس تنظیم کے آس پاس منڈلاتے ملیں گے۔
جواد صاحب ابھی پچھلے دنوں جب رحمان ملک نے بیان دیا تھا کے تبلیغی جماعت کے طالبان سے روابت کے ثبوت ملے ہیں اسکے فوراَ بعد ہی مولانہ طارق جمیل صاحب نائن زیرو کیا کرنے گئے تھے؟
اس تاثر کو ختم کرانے ، اور انکو اس بات کا یقین دلانے کہ فسادیوں اور تبلیغیوں کے آپس میں روابط نہیں ہیں۔
اس میں کیا بُرا ہے۔
سُنا ہے کہ جب اکبر نے دین الہی کا اعلان کیا تو سب مولوی اس پر لعن طعن کرکے اس سے فاصل رکھنے لگے ۔لیکن ایک مجدد الف ثانی تھے جو کہ اس دربار سے رابطہ جوڑئے ہوئے تھے اور کسی طرح سے دربار میں آتے جاتے تھے۔
اور اس آنے جانے کی برکت سے اکبر کے بیٹوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمارئے والد نے غلط کام کیا ہے کہ نیا دین ایجاد کیا۔
میری نظر میں تو یہ دلیل اچھی ہے کہ جناب وہ وہاں اسکا خطاب سُننے تھوڑا ہی جاتے ہیں ،بلکہ وہ تو صرف انکے ساتھ وہ روابط رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کل کو اگر یہ جرنیل یا سیاسی لوگ کوئی ایسی ویسی حرکت کریں تو ہم بھی کچھ کہہ سکیں۔
ہاں ایک خطاب سنن کارکنوں کا ہوتا ہے کہ انکو باقاعد احکامات ملتے ہیں، لیکن یہ علماء کے سامنے انکی تقریریں شائد وہ کارکنوں کے احکامات جیسے نہیں ہوتے۔بلکہ علماء صرف ان سے وہ رابطہ رکھنے کیلئے جاتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل صاحب نے ایک بار بڑی مشکل سے چند منٹ کا ٹائم لیا تھا مشرف سے ملاقات کیلئے۔
جب وہاں گئے تو پہلے تو سارئے جرنیل شرما رہے تھے کہ مولانا آگئے لیکن بعد میں انہوں کہا کہ ہماری فیملیوں میں بہت سے ایسے ہیں جن کی گاڑیوں مین آپکی کیسٹ لگی ہوئی ہوتی ہے۔
مولانا نے مشرف کو کہا کہ ہم ہر روز آپکے لئے دعائیں کرتے ہیں تو مشرف بڑا حیران ہوا کہ اچھا ایسے بھی مولوی ہیں جو میرئے لئے دعاء کرتے ہیں،اور اس بات نے انکو بڑا متاثر کیا۔
تو میرئے خیال میں ہر چیز کا بائیکاٹ کرنے سے کبھی کبھی معاملات بگڑ جاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان بھی خیر سے اس ہی فکر سے تعلیق رکھتے ہیں جس فکر سے مولانا طارق جمیل صاحب تعلق رکھتے ہیں، اور مولانا فضل الرحمان کا معصوم لوگوں کو فسادی نما جہادی بنانے میں کتنا ہاتھہ ہے یہ بات ساری دنیا جاتنی ہے، اب کوئی یہ نہ کہے کہ مولانا فضل الرحمان سے دیوبندی حضرات کا کوئی تعلق نہیں ہے، بنوری ٹاون مسجد میں جب بھی مولانا فضل الرحمان آتے ہیں تو سارے دیوبندی علماء پلکیں بچھا کر انکا استقبال کرتے ہیں، کسی دانشور نے کہا تھا کے تبلیغی جماعت بیچ بوتی ہے اور یہ جہادی اس پر حل چلاتے ہیں۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ الزام رحمان ملک نے لگایا اور مولانا صفائیاں نائن زیرو پر دینے پہچ گئے۔ یہ سب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا گٹھہ جوڑ ہے جو آنے والے وقتوں میں انشاءاللہ ساری دنیا پر عیاں ہونے والا ہے۔
Leave A Reply