لال مسجد کا سانحہ کوئی عام سی بات نہیں ہے میڈیا پر چھوٹوں بڑوں نے جو دیکھا وہ ساری عمر ان کے ضمیر کے کچوکے لیتا رہے گا۔ اس سانحے سے پہلے ہم نے اپنی تحریر لال مسجد کو مزید لال ہونے سے اب بھی بچایا جاسکتا ہے میں اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا تھا مگرمذہبی انتہا پسندوں کیخلاف کاروائی کرکے مغرب کے سامنے سینے پر میڈل سجانے والوں کیلیے فوجی کاروائی کرنا ان کی مجبوری تھی اسلیے ہماری وہ تجاویز رائیگاں گئیں۔
آئیں یہاں پر لال مسجد کے سانحے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل میں اس طرح کے سانحے کو ظہور پذیر ہونے سے روکنے اور اگر ہو جائے تو پھر اس کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر غور کرتے ہیں۔ یعنی ہم نے اس سانحے سے کیا سیکھا اور اس سے کس طرح مستقبل میں فائدہ اٹھائیں گے۔
1. حکومت نے اپنی سیکورٹی کی خاطر کئی مساجد گرائیں اور کئی کو گرانے کے نوٹس جاری کرکے واپس لینے پڑے۔ بہتر ہوتا اگر حکومت ناجائز تجاوزات کا نشانہ صرف مساجد کو نہ بناتی بلکہ تمام تجاوزات کو بناتی تاکہ لوگوں کے دلوں میں یہ شک پیدا نہ ہوتا کہ حکومت روشن خیالی کے چکر میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی مٹا رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ اگر ان مساجد کو مٹانا ہی تھا تو سب سے پہلے ان کی متبادل جگہ مہیا کرتی یعنی ان مساجد کو گرانے کی بجائے منتقلی کا پلان پیش کرتی۔
2. میڈیا کو بھی مساجد کے گرائے جانے پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ مساجد کے گرانے کو اسی طرح لائیو دکھایا جاتا جس طرح لال مسجد پر حکومتی کاروائی کو دکھایا گیا۔
3. غازی برادران نے لائبریری پر مستقل قبضہ کرکے غلطی کی۔ لائبریری پر قبضہ صرف عارضی طور پر کرکے احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ غازی برادران مساجد کے گرانے کیخلاف اگر تحریک چلانا چاہتے تھے تو دوسرے علمائے کرام کو ساتھ لیکر چلاتے۔
4. مساجد کو گرائے جانے کیخلاف سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا چاہیے تھا اور مزید مساجد گرانے کیخلاف حکم جاری کردینا چاہئے تھا۔
5. آئی ایس آئی جو لال مسجد کے صرف ایک کلو میٹر فاصلے پر ہے کو لال مسجد کی انتظامیہ پر کڑی نظر رکھنی چاہیے تھی اور اس اسلحہ جمع نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔
6. آنٹی شمیم پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اس کیخلاف شکایات لانے والوں کو لال مسجد انتظامیہ سپریم کورٹ کی راہ دکھاتی۔ حکومت آنٹي شمیم کی رہائی کے بعد اسلام آباد میں اس طرح کے قحبہ خانوں کیخلاف مہم شروع کرتی۔ سپریم کورٹ ان قحبہ خانوں کا از خود نوٹس لیتی۔
7. چینی باشندوں کو پکڑ کر لال مسجد میں نہیں لانا چاہییے تھا اور ان پارلرز کی خفیہ نگرانی کرکے ویڈیو کی شکل میں ثبوت حاصل کرکے سپریم کورٹ ميں جانا چاہیے تھا۔ جمعہ کے خطبات میں مسلمانوں کو ان برائیوں سے نہ صرف آگاہ کرنا چاہیے تھا بلکہ مسلمانوں کو پرامن احتجاج کی ترغیب دینی چاہیے تھی۔
8۔ مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے دوران پہلے بغیر برقعے کے دکھانا اور پھر ٹی وی برقعہ پہنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح عام مسلمان کی نظر میں مولانا عبالعزیز کی تضحیک نہیں ہوئی بلکہ ایک اسلامی عالم کی تضحیک ہوئی جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ ایسی غلطی پر وزیر اعظم شوکت عزیز کو خود افسوس کا اظہار کرنا پڑا تاکہ عام آدمی کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔
9. سیاسی جماعتوں نے اس سانحے کے حل میں بالکل مدد نہیں کی اور ایک طرف ہوکر تماشا دیکھتی رہیں۔ ایم ایم اے نے جزوی سی کوشش کی مگر وہ بھی اس سانحے سے لاتعلق رہے تاکہ ان کی سیاسی ساکھ خراب نہ ہو۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم سمیت تمام لبرل جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ لال مسجد کے کرائسسز کیلیے عملی کوشش کرتیں تاکہ اس سانحے سے بچا جا سکتا۔
10. حکومت کو اس مسئلے کو زیادہ دیر تک نہیں لٹکانا چاہیے تھا اور شروع میں ہی اس کے مستقل حل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر یہ معاملہ احسن طریقے سے نپٹا سکتی تھی۔
11. حکومت نے مذاکرات ميں مساجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے جو وعدے کیے وہ پورے کرنے چاہیے تھے۔ اگر حکومت اپنے وعدوں کا پاس رکھ لیتی تو یہ معاملہ ابتدا میں ہی ٹھنڈا پڑ جاتا۔
12. حکومتی سیاسی شخصیات جو مذاکرات میں شامل تھیں ان کو پہلے لال مسجد انتظامیہ سے معاہدے کا اختیار مانگنا چاہیے تھا تاکہ انہیں اپنے وعدوں پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی۔
13. حکومت لال مسجد پر فوجی چڑھائی کرنے کی بجائے دوسرے طریقوں پر نہ صرف غور کرتی بلکہ عمل کرتی تاکہ یہ بحران پرامن طور پر ختم ہوچاتا۔ حکومت لال مسجد والوں کا محاصرہ کرلیتی اور انہیں مجبور کردیتی کہ وہ اشیائے ضروری کی کمی یا نایابی کے وقت کسی ڈیل پر راضی ہوجاتے۔
14۔ مولانا برادران نے اسلامی شریعت کا شارٹ کٹ چن کر بہت بڑی غلطی کی۔ اس طرح انہوں نے آنے والے سالوں میں سینکڑوں ہزاروں طلبا و طالبات کو ایک مکمل مسلمان باپ اور ماں بنا کر جو اسلام کی خدمت کرنی تھی اس سے محروم ہوگئے۔
15. جنرل ضیا کی حکومت نے الذوالفقار سے پی آئی اے کے جہاز کو چھڑانے کیلیے تین سو دہشت گرد رہا کیے تھے۔ انڈیا نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کیلیے انتہا پسند مولانا مسعود کر رہا کیا۔ امریکہ کو اپنے سفارت کاروں کو رہا کرانے کیلیے ایرانی حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر اسلحے کی ڈیل کرنی پڑی۔ جنرل مشرف کو وزیرستان ميں پاکستانی طالبان سے معاہدہ کرنا پڑا۔ ان سب واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے فوجی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ علما کے ساتھ سیاستدانوں کے معاہدے کو من و عن مان کر مولانا عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ دیتی اور اس طرح ان سینکڑوں طلبا و طالبات کو مرنے سے بچا لیتی جن کی اموات کو خفیہ رکھنے کیلیے اب اسے میڈیا کو دور رکھنا پڑ رہا ہے اور ہسپتالوں کی نگرانی کرنی پڑ رہی ہے۔ جس طرح پہلے رہا کئے گئے لوگ دوسری حکومتوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اس طرح مولانا عبدالرشید بھی رہائی کے بعد موجودہ حکومت کیلیے بھی بےضرر ہی ثابت ہوتے۔
6 users commented in " لال مسجد کے سانحے سے حکومت سبق سیکھے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackالسلام علیکم،
اگر مناسب سمجھیں تو اپنی پوسٹ کے عنوان میں کچھ ترمیم کر لیں کیونکہ اس میں حکومت ہی نہیں بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ لال مسجد کے سانحے سے ان لوگوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے جو پہلے بڑھ چڑھ کر لال مسجد والوں کو ہلاشیری دے رہے تھے اور بعد میں خاموشی سے لاشیں گرنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔
والسلام
To prevent future issues like this, Madrasssa’s syllabus needs to be reformed. The poors’ kids are in desperate need of knowledge about science, technology and modernize education instead of being brain washed and served as Army for personal fights and motives of Molvis.
These days when a kid is graduated from madrassa he wont have much options to explore due to his lack of education in certain fields of life. his best bet is to get a post in local mosque and be under paid for life. This creates frustration which create intolerence towards other’s point of view.
I suggest the government should nationalize all the madrassa and control the administration there. This will cut off the fundings from peoples and groups who push madrassa admins to follow their motives.
اوپر جتنی بھی تجاویز دی گئی ھیں میں اس سے کوئی بھی ڈس ایگریمنٹ نہیں کرتا ھوں لیکن اپنی کچھ تجاویز پیش کر رھا ھوں۔۔۔
1- لال مسجد کے سانحے سے حکومت سبق سیکھے اور جالی ملاّ حضرات بھی سبق سیکھیں۔۔۔۔اور سدھر کر انسان بن جائیں۔۔۔۔
ورنہ ایز ایسٹیٹد بائی صدر مملکت اسلامی جمھوریہ پاکستان جنرل پرویز مشرف سید کے کوئی بھی انتہا پسندی اور فرقہ واریت قبول نہیں کی جائے گی۔۔۔اور انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکا جائے گا۔۔۔۔اور دینی تعلیم کی آڑ میں انتہا پسندی پھیلانے والوں کونہیں چھوڑا جائے گا۔۔۔۔اور پوری پاکستانی قوم ان انتہا پسندوں اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کو ریجیکٹ کرے گی ھر ھر محاز پر اور ھر میدان میں۔۔۔۔
2- چاروں صوبوں میں، شمالی علاقہ جات میں، آزاد جموں و کشمیر، اور وفاق کے زیر کنٹرول ٹرائبل ایریاز میں تمام مساجد کو تمام مدارس کو اور تمام اسکولوں کو اپنے اپنے صوبوں اور اپنے ایریاز میں ایک سینٹرلائز سسٹم کے تحت واچ اور کنٹرول کیا جائے۔۔۔۔۔
3- میرٹ پر تمام مدارس اور اسکولوں میں استاتذہ کی بھرتی کی جائے اور بچوں کو ایڈمیشن دیا جائے اور نیکسٹ کلاس میں میرٹ کی بنیاد پر بھیجا جائے۔۔۔اگر کسی اسٹوڈنٹ نے خاص مقرر کردہ نمبر نہیں لیئے ھیں ایگزامز میں تو اس کو اگلی کلاس میں نہ بھیجا جائے۔۔
4- بچوں پر ظلم کرنے والے اور انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی تعلیم دینے والے جالی استاتذہ کو اسکولوں اور مدارس سے اور یونیورسیٹیوں سے باھر نکال دیا جائے اور ان کو کم سے کم سزائے موت دی جائے۔۔۔۔
5- حکومت کو کمنگ الیکشن صاف اور شفاف کروانے پڑے گیں ورنہ ملک تباہی کی طرف چلا جائےگا خدانہ خواستہ۔۔۔
6- آئین کو مکمل بحال کیا جائے اور ان تمام نقات کو آئین سے خارج کیا جائے جو قرآن و حدیث سے متصادم ھیں۔۔۔۔
اب تک جتنے بھی کالم لال مسجد کے سانحہ ک بارے میں ہماری نظر سےگزرے ھیں سب میں لال مسجد کے غازی برادران کے طریقھ کار کیساتھ ساتھ حکومت کے آپریشن سالینس کو بہی تنقید کا نشانھ بنایا گیا ھے۔ اسی طرح کا ایک کالم حامد میر نے لکھا ہے جس میںبھی ایک سبق پوشیدھ ھے۔
http://jang.com.pk/jang/jul2007-daily/12-07-2007/col4.htm
اس اپریشن سے پاکستان نے کتنی ترقی کرلی؟ کیا ہم بجلی کے بحران ، سیاسی بحران،اخلاقی بحران اور معاشی بحران سے نکل پائے؟ اگر نہیں تو اس کے لیئے مزید کتنے اپریشن چاھیئے؟ کیا اسلام پسندوں کو اس لیے تو نہیں دبایا جا رہا کہ وہ اتنا اچھلیں کہ بعد میں اقتدار پر بھی وہ ” قابض” ہوجایئں۔ ( خیال رہے کہ مغرب پہلے ہی یہ واویلہ کررہا ہے کہ پاکستان کا ایٹم شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے) اور مغرب کو ایک بہانہ مل جائے۔ افغانستان میں طالبان کے خاتمے کے بعد صوبہ سرحد کے مضافات اور اب تو شہروں میں بھی یہ کیا ہورہا ہے؟؟ ملک کس جانب جا رہا ہے؟ خلافت کی جانب یا جمہوریت کی جانب یا پھر وہی میلی کچیلی وردی اور باسی چہرے دیکھنے کو ملیں گے؟؟؟
as salam o alaikukm
Hazrat Nay jo tabsara kiya apni apni jaga theek likin kuch sawalate ka Jawab day
1) LAL Masjid kay jo cause thay (shariyat ka nifaz ,behayayeee khatam karana, masajid ko ghiranay ki sazish ko rukna galat kiya galat thay
2) Libraray pay kabza karna ,prostitue ko samjhanay kay liyee lay kar ana ,chanies ko samjhana kiya itna bara jurm tha kay kay itna bara operation kiya jayeee
3)Kiya hakomat Lala masjid ki bijli pani aur ghas kat kar un per dabaoo dal kar apnay maqasid hasil nahin kar thi sakti.
4) Asla Agar un kay pass tha to us ka istimal kiyu nahin hoa aur wo asla itni security ma aya kasay aur itni bambari kay bad bhi wo chamak raha tha.ISI logo kay gharoo ki images tak lay ati han apnay head office ekk kilometer nazdeeq kiya ho raha han usay maloom nahin
5)ulema aur sahafiyooo kay kehnay kay bawajood un ko adar janay ki ijazat kiyu nahin di gayee.(dhood ka dhood aur pani ka pani saf zahir ho jata)
6) madaris has limited source to get income .aur un say jahan tak ho sakta han waha deen kay sath sath modern talleem bhi di jati han yahan tak Karachi ma Jamat-ur-rasheed Kay zeri nigrani ekk university ban chuki ya ban rahi han jaha graduate ulema ko MBA karwaya jayee ga
Leave A Reply