جب سے امریکہ کے اگلے انتخابات کیلیے صدارتی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم میں پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے، پاکستان میں ہر کوئی بھڑکیں مار مارکر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک امریکی صدارتی امیدوار نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امریکہ پر دہشت گرد حملے کے جواب میں ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ پر حملہ کردیں۔ اس بیان سے حالانکہ بش انتظامیہ نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف انتخابی مہم کا حصہ ہے، سرکاری بیان نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بش اور کئ امریکی وزیر اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان پر جہاں چاہے اور جب چاہے حملہ کرسکتا ہے۔
چونکہ پاکستان میں بھی انتخابی مہم شروع ہونے والی ہے اور امریکہ مخالف جذبات کو کیش کرانے کیلیے اپوزیشن اور حکومتی ارکان اسمبلی میں مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اور صدر بھی بیان بازی میں کسی سے پیچھے نہیں رہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ پہلے بھی بناں اجازت کے پاکستانی سرزمین پر حملے کرچکا ہے اور آئندہ جب بھی ضرورت پڑا کرے گی کرے گا اور ہم ان حملوں کو چپ چاپ اپنے کھاتے میں ڈال لیں گے۔
ابھی تک حکومتی ارکان اسمبلی، وزیر اعظم اور صدر نے جتنے بھی بیان دیے ہیں ان کا امریکہ کو ذرا برابر اثر نہیں ہوا اور اثر ہوگا بھی نہیں کیونکہ پاکستان امریکہ کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے جامعہ حفصہ کے مرحوم غازی عبدالرشید کا گروپ پاکستانی فوج کے مقابلے میں تھا۔
وزیراعظم کہتے ہیں اگر کسی نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ مسلم لیگ ق کے جنرل سیکریٹری کہتےہیں اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم اس کی آنکھ پھوڑ دیں گے۔ کل قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکریٹری میجر تنویر تو امریکہ پر اس طرح برسے جیسے کوئی ماورائی طاقت ہوں۔
حکومتی ارکان کی امریکہ کیخلاف بیانات دینا ایک مجبوری بن گئ ہے کیونکہ کوئی بھی پاکستانی پسند نہیں کرے گا کہ کوئی بیرونی طاقت مکہ اور مدینہ پر حملہ کردے۔ اگر آج حکومتی ارکان اسمبلی بشمول مذہبی امور کے وزیر اعجاز الحق صاحب اس طرح کی خالی بھڑکیں نہ ماریں تو وہ اگلے الیکشن میں ہار بھی سکتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا امریکہ کیساتھ کسی بھی شعبے میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ امریکہ پاکستان پر حملہ وار ہوا تو پاکستان عراق سے بھی زیادہ ڈرپوک ثابت ہوگا اور اپنے ایٹمی اثاثے تک حملہ آوروں کے حوالے کردے گا۔
دراصل حکمرانوں کے امریکہ مخالف بیانات صرف سیاسی کھیل کا حصہ ہیں اور کچھ نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آدمی جس تھالی میں کھائے اسی میں چھید کرے اور تھالی کا مالک اسے کچھ نہ کہے۔ ہم اب تک کروڑوں ڈالر کی امداد امریکہ سے لے چکے ہیں اور آئندہ بھی اسی امداد کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ یہ امریکہ کیخلاف جوشِ خطابت صرف عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے ہے اور کچھ نہیں۔ جب ہماری حکومت امریکہ کے رحم و کرم پر ہو تو پھر حکومتی ارکان کی کیا مجال ہے کہ وہ امریکہ کی طرف میلی نظر سے بھی دیکھیں۔
ان بیانات کی بجائے بہتر ہوتا حکومتی اہلکار ملکر یہ پلاننگ کرتے کہ پاکستان کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ بناں کسی بیرونی امداد کے ترقی کرسکے۔ مگر چونکہ بیرونی امداد کا بہت سارا حصہ حکومتی ارکان کی اپنی جیبوں میں جاتا ہے اسلیے وہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان مستقبل میں قرض فری ملک بن جائے۔ اگر پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا تو پھر حکومتی اہلکاروں کی روزی بند ہوجائے گی جو انہیں کمیشن کی شکل ميں ملتی ہے۔ یہ کمیشن ہی ہے جس کے لالچ میں ہم گھاٹے کے سودے کرتےہیں۔
گھاٹے کے سودوں سے ہمیں ایک ڈیل یاد آگئ جس کے ہم چشم دید گواہ تھے۔ ایک سرکاری محکمے میں ہم ملازم تھے اور وہاں پر لٹیروں کا ایک گروہ ہمیں کھڈے لائن لگائے بیٹھا تھا۔ ہم جن کی نہ کوئی سفارش اور نہ کوئی اپروچ تھی بس دور سے ان لٹیروں کے اللے تللے دیکھ کر ان کے حق میں بدعائیں کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ اس گروہ نے ایک واٹر ٹینکر کا سودہ کیا اور بہت سا کمیشن بنایا۔ یعنی دو لاکھ کا ٹینکر خرید کر حکومت کو چھ لاکھ میں منڈھ دیا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جونہی واٹر ٹینکر ميں پانی بھرا گیا، ٹینکر زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر کیا تھا انکوائری ہوئی اور اس گروہ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
یہی حال ہر حکومتی محکمے میں ہے اور اسی لالچ نے ہم سب کا ستیاناس کردیا ہوا ہے۔ یہی لالچ ہمیں ہر قیمت پر حکومت میں رہنے پر مجبور کرتا ہے چاہے اس کیلیے ہمیں اپنی پارٹی چھوڑنی پڑے یا امریکہ کيخلاف بھڑکیں لگانی پڑیں۔
آپ خود ہی سوچیں ہمارے وزیر اعظم امریکہ پلٹ ہیں، امریکی شہری ہیں اور سٹی بنک کے وائس پریذیڈنٹ رہے ہیں وہ کیسے امریکہ کے حملے کو روک سکیں گے۔
یاد رکھیے مذہب صرف غریبوں کیلیے ہے، امیروں کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ امیر آدمی صرف حال پر یقین رکھتا ہے اگلے جہان پر نہیں۔ اگر امیر آدمی اگلے جہان پر یقین رکھتا ہوتا تو کعبہ کے اندر جانے اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بعد پانچ وقت کا نمازی بن جاتا اور سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے داڑھی بھی رکھ لیتا۔ امیر آدمی اگر عمرے پر جاتا ہے تو صرف دکھاوے کیلیے نہ کہ اپنے آپ کو بخشوانے کیلیے۔ یہی وجہ ہے وہ عمرے سے واپسی پر پھر اپنی عیاشیوں میں کھو جاتا ہے۔ مکے اور مدینے کی اگر کسی نے حفاظت کی تو غریب عوام ہی کرے گی یہ حکمران نہیں کریں گے۔
1 user commented in " حکومتی ارکان اسمبلی کا امریکہ کيخلاف بیانات کا پس منظر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کی آخری بات سے تھوڑا سا اختلاف کروں گا اگر آپ نے امیر اور غریب ادبی پس منظر میں اخلاقی اعتبار سے استعمال کیا ہے تو شاید کوئی اور معنی نکلتے ہوں لیکن اگر یہ لغوی معنوں میں دولت سے متعلقہ ہے تو یہ شاید ایک غالب صورتحال تو ہو سکتی ہے مگر ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ امیر لوگوں کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں جبکہ اسلامی تاریخ میں کئی متمول لوگ نہایت برگزیدہ شمار کیے جاتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی ہونگے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ مثبت لوگوں اور چیزوں کا پس پردہ چلے جانا اور منفی لوگوں اور چیزوں کا شہ سرخیاں بن جانا ہے۔۔ مشرق اور مغرب دونوں طرف کے عقابی لوگ جب آمنے سامنے آجائیں تو تہذیبیں تو متصادم ہونگی چاہے انکی غالب اکثریت ایک دوسرے سے کسی قسم کی کوئی دشمنی نہ رکھتی ہو اور یہ آج کی دنیا کی حقیقت ہے۔
Leave A Reply